پھٹی ہوئی جینز انڈیا میں ننگے گھٹنوں اور ڈینم کے کپڑے کی شامت کیوں آئی ہوئی ہے؟
ڈینم یعنی جینز کا کپڑا اکثر انڈیا میں دقیانوس طبقے کے نشانے پر رہتا ہے جن کے خیال میں یہ کپڑا نوجوان نسل کے عقائد خراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر جینز خبروں کی شہ سرخیوں میں آ گیا ہے۔
جینز پر غصہ کرنے والے تازہ ترین شکایت گزار ہیں تیرتھ سنگھ روات جنھوں نے حال ہی میں انڈیا کی شمالی ریاست اترکھنڈ کے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے۔
اس ہفتے کے آغاز میں انھوں نے ‘پھٹی ہوئی جینز‘ کو نوجوانوں کے مسائل کی جڑ قرار دیا ہے۔
بچوں کے تحفظ کے لیے بنے ایک ریاستی کمیشن کے زیرِ اہتمام ایک ورک شاپ کے دوران اظہارِ خیال کرتے ہوئے انھوں نے ایک عورت کا ذکر کیا جس سے ان کی ایک پرواز پر ملاقات ہوئی تھی۔
ن کا کہنا تھا کہ وہ عورت دو بچوں کے ساتھ سفر کر رہی تھی اور ‘بوٹ پہنے ہوئی تھی، اسکی جینز گھٹنوں سے پھٹی ہوئی تھی اور ان کی کلائی پر بہت سے کنگن تھے۔‘
وزیراعلیٰ نے سوال اٹھایا کہ ‘آپ ایک این جی او (غیر سرکاری تنظیم) چلاتی ہیں، گھٹنوں سے پھٹی ہوئی جینز پہنتی ہیں اور کھلے عام میں گھومتی ہیں۔ آپ کے ساتھ بچے ہیں، آپ انھیں کیا اقدار سیکھا رہی ہیں؟‘
تیرتھ سنگھ روات وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی کے رکن ہیں۔ ان کے خیال میں پھٹی ہوئی جینز معاشرے کی اقدار کی تباہ کی عکاسی بھی کرتی ہے اور اس کی وجہ بھی ہے۔ انھوں نے والدین کو اپنے بچوں، خاص کر لڑکیوں کو یہ پہننے کی اجازت دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
انھوں نے کہا کہ انڈیا ’برہنہ پن اور بے حیائی‘ کی طرف جا رہا تھا جبکہ بیرونِ ممالک میں لوگ اپنے جسم ٹھیک سے ڈھانپ رہے ہیں اور یوگا کر رہے ہیں۔
تاہم ان کے یہ بیانات ملک بھر میں تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے ایک بیان جاری کیا جس میں انھوں نے ان سے انڈیا کی تمام خواتین سے معافی مانگنے کا یا پھر استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔
جمعرات کو کانگریس کی سینیئر لیڈر پرینکا گاندھی نے ایک تصویر شیئر کی جس میں وزیراعظم مودی اور ان کی کابینہ کے ساتھیوں کے ‘گھٹنے نظر آ رہے تھے۔‘
ہندی زبان میں ایک ٹوئیٹ میں انھوں نے کہا کہ مسئلہ صرف ان کے الفاظ کا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ انھوں نے یہ کہا کیسے۔ ‘انھوں نے ایک عورت کو اوپر سے نیچے تک گھورنے کا اعتراف کیا ہے۔‘
تیرتھ سنگھ روات کے بیان کے بعد ٹوئٹر پر بہت سی انڈین خواتین اور کچھ مردوں نے غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور اپنی پھٹی ہوئی جینز پہننے تصاویر شیئر کیں جس کی وجہ سے ہیش ٹیگ #RippedJeansTwitter اور #RippedJeans کئی گھنٹوں تک ٹرینڈ کرتے رہے۔
جمعے کے روز تیرتھ سنگھ روات نے معافی تو مانگی لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے بیان سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ معذرت خواہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی نیت کسی کی بےعزتی کرنا نہیں تھا اور ہر کسی کو حق ہے کہ وہ جو چاہے پہننے۔
مگر اترکھنڈ کے وزیراعلی پہلے انڈین سیاستدان نہیں جو خواتین کو کپڑوں کے بارے میں مشورے دے رہے تھے۔
پانچ سال پہلے بھی اُس وقت کے وزیرِ ثقافت مہیش شرما نے انڈیا آنے والے سیاحوں کو ایک تنبیہہ دی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ ڈریس یا سکرٹ نہ پہنیں اور چھوٹے شہروں میں رات کو باہر نہ نکلیں۔
اس کے ساتھ ہی کئی ایسی مثالیں ہیں جہاں معروف انڈین سیاستدان ریپ اور جنسی ہراسانی کو عورتوں کے کپڑوں سے جوڑتے ہیں۔
سنہ 2014 میں معروف گلوکار کے جے یسوداس کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے کہا تھا کہ لڑکیوں کو جینز نہیں پہننی چاہیے کیونکہ یہ غیرمناسب رویے کو جنم دیتی ہیں۔
گذشتہ ہفتے اترپردیش میں ایک دیہاتی کونسل نے اعلان کیا تھا کہ سکرٹ اور جینز میں ملبوس خواتین اور شارٹس پہنے مردوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔
ایک دہائی قبل اترپردیش کے بتیسہ نامی گاؤں میں لڑکیوں کے جینز پہننے اور موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی۔
سنہ 2014 میں 46 دیہات کے بااثر افراد کے ایک اجلاس میں بھی ایسی ہی پابندی لگائی گئی تھی۔ تین سال بعد ہریانہ اور راجھستان میں بھی خواتین کے موبائل فون رکھنے اور جینز پہننے پر پابندی لگائی گئی۔
تو کیا وجہ ہے کہ انڈین سیاست دان اس کپڑے کے اتنے خلاف ہیں؟
جینز کا کپڑا یعنی ڈینم انڈیا میں 1980 کی دہائی میں مقبول ہونا شروع ہوا اور ملک بھر میں نوجوان اسے بہت پسند کرنے لگے ہیں۔
انڈیا میں ڈینم کی مارکیٹ تقریباً چار ارب ڈالر کی ہے اور 2028 تک اس کے 12.6 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔
گذشتہ کچھ سالوں میں وہ بالی وڈ ستاروں سے لے کر عام لوگوں، سبھی میں انتہائی مقبول ہو گئی ہیں۔
مگر فیشن ڈزائنر آنند بشن کا کہنا ہے کہ انڈینز کا جینز سے رشتہ ‘بیک وقت پیار اور نفرت‘ کا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘نوجوانوں کے یہ کول اور زبردست لگنے کا معاملہ ہے مگر ان کے والدین کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ ان کے بچے پھٹے ہویے لباس کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔‘
مگر والدین کا اپنے بچوں کے طنزیہ لباس پر تنقید کرنا اپنی جگہ مگر عوامی حکام کا اسے معاشرے کے مسائل کی بنیاد دینا بالکل مختلف ہے۔
بسن کہتے ہیں کہ ‘یہ خواتین کو کنٹرول کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ بات بہت تھکا دینے والی ہے کہ کیسے یہ پدر شاہی میں ڈونے مرد روایت کا بہانہ کرتے ہوئے خواتین کیا پہنتی ہیں اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ‘ان کے پاس کوئی نیے جواز نہیں تو وہ وہی پرانے جواز پیس کرتے ہیں کہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ نہیں بلکہ مغرب سے آئے ہیں۔‘
ادھر تیرتھ سنگھ روات کے بیانات اور ان پر تنقید کے کچھ غیر ارادی نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے اب کچھ لوگوں نے پھٹی ہویی جینز پہلی مرتبہ پہننے کا ارادہ کیا ہے۔
ممبئی میں سرطان کے مریضوں کے لیے کونسلر وجی ویکاٹیش نے اپنی ایک تصویر ٹوئٹر پر لگائی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کے بیان سے اس قدر ناراض ہوئیں کہ انھوں نے ایک جینز کو خود سے پھاڑ کر پہننا شروع کر دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ میں 69 سال کی ہوں اور عام طور پر شاڑھی پہنتی ہوں۔ ‘میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ بچے پھٹی ہویی جینز کیوں پہنتے ہیں۔ مگر تیرتھ سنگھ روات کے عورت مخالف بیان پر میں اتنا غصہ آیا کہ میں نے غصے میں اپنی جینز پھاڑی اور اسے پہنے ٹوئٹر پر ایک تصویر شیئر کی۔
میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اب انھیں اس حوالے میں کوئی ندامت ہے؟
انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’بالکل نہیں۔ یہ میرے گھٹنوں پر آرام دے ہیں اور ابھی بھی اچھی نظر آتی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مگر سنجیدہ بات یہ ہے کہ خواتین کیا پہنتی ہیں یہ صرف ان کا ذاتی معاملہ ہے کسی اور کا نہیں۔‘
‘تیرتھ سنگھ روات کو اس کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ انھیں اترکھنڈ میں پگھلتے گلیشیئرز کا خیال کرنا چاہیے۔ ان کی ریاست کن ماحولیاتی مسائل کا شکار ہے یہ سوچیں نہ کہ خواتین کیا پہنتی ہیں۔‘