پوتن کے دورہ تہران کی اصل وجہ کیا ہے؟
روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور ترک صدر رجب طیب اردوغان 19 جولائی کی شام سہہ فریقی اجلاس کے لیے ایران جائیں گے۔ اس اجلاس کو ’آستانہ امن عمل‘ پکار جاتا ہے۔
آخری بار دونوں صدور شام سے متعلقہ اجلاس کے لیے ستمبر 2018 میں تہران میں تھے۔ یہ پوتن کا ایران کا آخری دورہ تھا، لیکن اردوغان نے اپریل 2021 میں تہران کا ایک اور دورہ کیا تھا۔
یہ تینوں ممالک شام کی جنگ میں مخالف فریق رہے ہیں۔ تہران اور ماسکو شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت کرتے ہیں جبکہ انقرہ باغی افواج کی حمایت کرتا ہے۔
یہ اعلیٰ سطحی اجلاس ان رہنماؤں کا پہلا بین الاقوامی اجلاس ہے جو سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی کے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ایران میں منعقد کیا جائے گا، اور اس کے انعقاد کے لیے اس سے زیادہ تناؤ کا وقت کبھی نہیں آیا۔
یہ ملاقات شام کے بارے میں ہو سکتی ہے لیکن ایجنڈے میں اور بھی بہت کچھ شامل ہے۔
پوتن کے ساتھ تعلقات
یہ ملاقات سہ فریقی میٹنگ ہوگی، لیکن ایرانی میڈیا کی توجہ پیوتن کی ایرانی صدر کے ساتھ ’ون ٹو ون‘ گفتگو پر مرکوز ہے۔
پوتن اسلامی جمہوریہ کے رہبر علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کریں گے۔
فروری میں یوکرین پر حملے کا حکم دینے کے بعد پیوتن کا روس سے باہر یہ دوسرا دورہ ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ اس جنگ کی مخالفت کرتا ہے لیکن اس نے اس کی مذمت نہیں کی، تاہم اس نے اس حملے کا ذمہ دار مغرب کو ٹھہرایا ہے۔
یوکرین جنگ نے سربراہی اجلاس کو ایک دلچسپ تناظر میں پیش کیا ہے: یوکرین روسی افواج کو پیچھے دھکیلنے کے لیے ترک ساختہ ڈرونز ہتھیاروں کا استعمال کر رہا ہے اور امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران روس کی جنگی کوششوں کو جنگی ڈرون فراہم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
ایران نے 12 جولائی کو ایک مبہم بیان میں کہا ہے کہ روس کے ساتھ اس کے تعلقات اور باہمی تعاون ’جنگ سے پہلے سے ہے‘ اور یہ ’کوئی اہم نئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔‘
قدامت پسندوں کا خیال ہے کہ روس کو ڈرون کی فراہمی ایران کی فوجی پیشرفت کی نشاندہی کرتی ہے لیکن کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس جنگ میں مداخلت سے تہران کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
روزنامه تندرو جوان نے، جس کا جھکاؤ پاسدارانِ انقلاب کی طرف ہے، 13 جولائی کو لکھا کہ ایرانی ڈرون یوکرین پر روس کے حملے میں ’کمزوریوں‘ کو دور کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ تاہم ایک سیاسی تجزیہ کار جلال مرزائی کا کہنا ہے کہ اگر ایران روس کو مسلح کرتا ہے، تو وہ ’ہارتے ہوئے کھیل میں شامل ہو جائے گا۔‘
اس بات سے قطع نظر کہ ایران روس کو ڈرون فراہم کرے گا یا نہیں، حقیقت یہ ہے کہ رئیسی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ہیں۔ رئیسی اس سال پوتن سے اکیلے میں دو بار مل چکے ہیں جن میں فروری میں ماسکو میں اور جون میں اشک آباد میں ہونے والی ملاقاتیں شامل ہیں۔
روسی صدر کا یہ دورہ امریکی صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کا دورہ ختم ہونے کے صرف تین دن بعد ہو گا۔ جیسا کہ بائیڈن ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فضائی دفاعی معاہدے پر بات چیت کا ارادہ رکھتے ہیں، پوتن ایران کے ذریعے مغربی ایشیا میں روس کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عبدالرضا فراجی، ناروے میں ایران کے سابق سفیر، نے 13 جولائی کو اصلاحطب شرق اخبار کو بتایا: ’یوکرین کی جنگ کے بعد یورپ، امریکہ اور کچھ مشرقی ایشیائی ممالک میں روس کا جیو پولیٹیکل اثر و رسوخ عملاً رک گیا ہے۔ روس اب مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے جس کا مرکز ایران ہے۔‘
ایسی اطلاعات ہیں کہ یوکرین میں اپنی جنگی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے روس شام سے اپنے فوجیوں کا انخلا کر رہا ہے، اور ایسے خدشات ہیں کہ ایران نے اس خلا کو پر کرنے کے لیے قدم بڑھایا ہے۔
ترکی کے خدشات
ابراہیم رئیسی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد اردوغان کا یہ پہلا دورہِ تہران ہو گا۔ دریں اثنا ترک افواج نے حالیہ مہینوں میں شام میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر بار بار سرحد پار سے ڈرون حملے کیے ہیں اور انقرہ نے شامی کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں دوبارہ آپریشن شروع کرنے کے اپنے منصوبوں پر زور دیا ہے۔
تہران کا کہنا ہے کہ وہ ’ترکی کے تحفظات کو سمجھتا ہے‘ اور اس نے زور دیا ہے کہ بات چیت سے انقرہ اور دمشق کے درمیان اختلافات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے جون کے آخر میں ترکی کا دورہ کیا اور تین جولائی کی شام کو انقرہ کے ’سیکیورٹی خدشات‘ سے آگاہ کیا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے ایران کی جانب سے اس اجلاس کی میزبانی کو ایک سفارتی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی حکام کے مسلسل دوروں کی وجہ سے تہران ’سفارت کاری کا ایک فعال دارالحکومت‘ بن گیا ہے۔
قدامت پسند اخبار فرختیگن کا کہنا ہے کہ ایران کی ایک ’طاقت‘ سکیورٹی کے معاملات میں موثر کردار ادا کرنا ہے اور اس نے نہ صرف سفارتی بلکہ اقتصادی نتائج کے حصول کے لیے کامیاب مذاکرات کیے ہیں۔
یہ سہہ ملکی اجلاس اہم ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم ان تینوں رہنماؤں کی الگ الگ ملاقاتیں ہیں جن کے نتائج خطے سے باہر بھی نظر آئیں گے۔