پنجاب ضمنی انتخابات کیا پاکستان میں برادری اور دھڑے کی سیاست کمزور پڑ رہی ہے؟
پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں میں 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے بعض سیاسی و سماجی حلقوں کو جہاں چونکا کر رکھ دیا وہاں پنجاب کی سیاست کو ایک نئی صورت حال سے ہمکنار بھی کر دیا۔
پولنگ سے قبل حلقوں کے اُمیدواروں کو مدِنظر رکھ کر تجزیے و تبصرے کیے گئے کیونکہ زیادہ تر اُمیدوار ایسے تھے جن کو الیکٹیبلز تصور کیا جاتا ہے۔ مزید برآں مذکورہ حلقوں کی ساخت میں برادری، دھڑا اور شخصی طرزِ سیاست ہی بنیادی جز کا حامل ٹھہرتا ہے۔
حلقوں کی انتخابی تاریخ کے نتائج دھڑوں اور برادریوں کے گٹھ جوڑ سے ترتیب پاتے چلے آ رہے تھے مگر ضمنی انتخاب کے نتائج نے یہ سوال اُٹھا دیا ہے کہ کیا پاکستان میں برادری اور دھڑے کی سیاست کمزور پڑ رہی ہے؟ پنجاب کے ضمنی انتخاب میں شامل چند ایک حلقوں کے جائزے سے اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔
برادری ازم اور دھڑے بندی کی جڑیں
پہلے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ برادری اور دھڑے کی سیاست کی جڑیں تاریخ میں کہاں پیوست ہیں؟
پاکستان کی انتخابی تاریخ میں برادری ازم اور دھڑے بندی کی سیاست کو بالعموم 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے موسوم کیا جاتا ہے مگر ایسا نہیں ہے بلکہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں برادری، دھڑا اور شخصی طرزِ سیاست کو نیا موڑ ملا۔
درحقیقت برادری ازم، دھڑے بندی اور گٹھ جوڑ کی سیاست کا آغاز 1937 کے انتخابات سے ہو گیا تھا۔ برادری اور دھڑے کا گٹھ جوڑ کی طرزِ سیاست کا اظہار 2018 کے عام انتخابات میں بھی دیکھا گیا، اگرچہ اُس وقت دھڑے بندی اور گٹھ جوڑ میں زمیندار طبقے سے زیادہ پیر خاندانوں کو دسترس تھی جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پیر خاندان خود بڑے زمیندار ہونے کے ساتھ دیہی ووٹرز کو دوا نداز سے متاثر کرتے تھے، اوّل زمین دار کی حیثیت سے، دوم پیر (عقیدت) کی حیثیت سے۔
آئی اے ٹالبوٹ اپنے ریسرچ پیپر ‘The 1946 Punjab Election‘ میں لکھتے ہیں ’پیر خاندان، زمین دار خاندانوں کی نسبت یونینسٹ پارٹی کی کامیابی میں زیادہ اہمیت کے حامل اس لیے تھے کہ یہ اپنی سیاسی حمایت کو حاصل کرنے کے زیادہ بہتر روایتی طریقے جانتے تھے۔‘
واقعہ یہ ہے کہ دیہی سیاسی ڈھانچے میں مزارات کو سجادہ نشینوں نے مرکزی سیاست کے ساتھ جوڑ کر ان کی اہمیت کو دوچند کیے رکھا تھا۔ ڈیوڈ گلمارٹن کے مطابق ’مغلوں کے سقوط کے بعد بہت سے سجادہ نشینوں نے اپنے آپ کو طاقتور مقامی سیاسی شخصیات کے طورپر مستحکم کر لیا۔‘ سنہ 1937 کے انتخابات میں دیہی ووٹروں کی بڑی تعداد یونینسٹ اُمیدواروں کی طرف کھنچی چلی آئی تھی۔
سنہ 1937 کے بعد گٹھ جوڑ کی سیاست کا ظہور 1946 کے انتخابات کی صورت میں سامنے آیا۔ آئی اے ٹالبوٹ کے مطابق ’1937 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی کی کامیابی سرکردہ زمینداروں اور پیروں کی مشترکہ حمایت پر مبنی تھی۔ 1946 تک یہ حمایت صوبے کے بہت سے مغربی اضلاع میں ختم ہو چکی تھی۔‘
مسلم لیگ نے صوبائی انتخابات 1945 سے قبل دیہی ووٹ بینک رکھنے والے افراد کی فہرست تیار کی جس کو مشائخ کمیٹی کا نام دیا گیا اور اس کے ووٹ بینک کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کی۔
’ضرت شاہ نور جمال کی خانقاہ کے سجادہ نشین، سید فضل شاہ نے 1927 میں ’حزب اللہ‘ کے نام سے ایک تحریک قائم کی۔ اس تحریک کے ذریعے دیہی ووٹ بینک کو متحرک کیا گیا۔
ڈاکٹر عبد الغنی کی کتاب ’امیر حزب اللہ‘ میں لکھا ہے ’31 دسمبر 1945 کو جلال پور شریف میں پنجاب کے ایک ہزار بااثر لوگ جمع ہوئے۔ ان میں 24 لوگ انتخابی حلقوں کے حامل تھے۔ یہاں سب لوگوں نے اس پر اتفاق کیا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں مسلم لیگ کے اُمیدوار کو کامیاب کروائیں گے۔‘
اس ضمن میں ڈیوڈ گلمارٹن لکھتے ہیں ’1944 میں لیگ یونینسٹ قطع تعلقی کے بعد ضلع جہلم، جلال پور کے پیر فضل حسین شاہ کے ماموں راجہ غضنفر علی خان کے ہمراہ مقامی دھڑا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔‘
اس طرح 1946 کے انتخابات میں الیکٹیبلز کا سہارا لیا گیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد 1985 میں جب غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تو شخصیت، برادری اور دھڑے بندی کی سیاست کو پنپنے کا موقع مل گیا۔ پاکستان کے اگلے تمام انتخابات میں 1985 کے انتخابات کے اثرات بہت واضح رہے ہیں۔
عام انتخابات 2018 کے نتائج پر اگر نظر ڈالی جائے تو بہت سارے حلقوں میں اندازوں کے خلاف نتائج آئے تھے۔ بعض ایسے لوگ بھی جیت نہیں سکے تھے جن کو الیکٹیبلز تصور کر کے سیاسی جماعتوں نے ٹکٹ جاری کیے تھے۔
اِن اُمیدواروں کا شخصی ووٹ بینک بھی تھا اور بڑی برادریوں پر مشتمل دھڑوں کی سپورٹ بھی میسر تھی مگر نتائج مختلف آئے تھے، حتیٰ کہ الیکٹیبلز کے نام پر ٹکٹ لینے والوں میں کچھ نے تو آخری الیکشن 2002 کا جیتا تھا۔
ڈیرہ غازی خان کے ایک حلقہ این اے 191 سے مضبوط دھڑا اور شخصی ووٹ رکھنے والے اویس احمد خان لغاری ہار گئے جبکہ زرتاج گل وہاں سے جیت گئیں۔
گذشتہ انتخابات میں یہ روش بہت واضح محسوس ہوئی کہ پنجاب میں متعدد جگہوں پر روایتی سیاست دم توڑ رہی ہے، حتیٰ کہ ایسے حلقے جہاں سرائیکی اور پنجابی زبان بولنے والے اُمیدواروں کا پینل تشکیل پاتا تھا، اس وجہ سے کہ دونوں زبانوں کے حامل ووٹرز کے ووٹ ایک پلڑے میں آئیں، وہاں یہ روایتی طرز بھی دم توڑتا پایا گیا۔
اس کی ایک مثال لیّہ کے ایک حلقہ این اے 187 کی دی جا سکتی ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار صاحبزادہ فیض الحسن نے مقامی سرائیکی زبان کے حامل احمد علی اولکھ کے ساتھ پینل بنانے کے بجائے پنجابی اُمیدوار کو ترجیح دی مگر دونوں ہار گئے۔ احمد علی اولکھ آزاد حیثیت میں جیت گئے۔
پنجاب ضمنی انتخابات: وہ حلقے جن کی پہچان برادری اور دھڑے تھے
ضمنی انتخابات کے 20 حلقوں میں فیصل آباد، خوشاب، بھکر، جھنگ، مظفرگڑھ، لودھراں، لیّہ، ڈیرہ غازی خان اور بہاولنگر کے حلقے مکمل طور پر دیہی تھے جبکہ بعض علاقے قصباتی حیثیت کے حامل تھے۔ اِن حلقوں میں شخصیت، دھڑا اور برادری ہی کسی اُمیدوار کی جیت کے بنیادی عوامل قرار دیے جاتے ہیں۔
مذکورہ حلقوں میں 2018 کے انتخابات میں زیادہ تر اُمیدواروں نے آزاد حیثیت سے اپنی جیت کو ممکن بنایا تھا اس لیے اِن اُمیدواروں کی ضمنی الیکشن میں مضبوط حیثیت تصور کی جا رہی تھی۔
یہاں ہم ان میں سے چار حلقوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ دھڑے، برادری اور شخصی طرزِ سیاست کمزور ہوا یا نہیں؟ اِن چار حلقوں میں تین حلقے ایسے ہیں جو خالص دیہی پس منظر کے حامل ہیں،جو روایتی انداز کی سیاست کے لیے شہرت رکھتے ہیں جبکہ ایک حلقہ خالص شہری ہے۔
آغاز کرتے ہیں بھکر کے حلقہ پی پی 90 سے جہاں سعید اکبر نوانی اور عرفان اللہ نیازی مدِمقابل تھے۔
حلقہ پی پی 90 بھکر
یہ حلقہ برادری، دھڑے اور شخصی طرزِ سیاست کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں میں یہ ایسا حلقہ ہے جہاں نوانی خاندان صحیح معنوں میں الیکٹیبل تصور کیا جاتا ہے۔ تمام تر تجزیے یہاں سے سعید اکبر نوانی کی جیت کے اشارے دے رہے تھے مگر نتیجہ مختلف آیا۔
بھکر سے تعلق رکھنے والے مقامی سیاسی ورکر اور زمیندار ناصر علی خان جو ضمنی الیکشن کی مہم میں سرگرم تھے کے مطابق ’بھکر میں 2018 ہی میں یہ محسوس ہو گیا تھا کہ برادری اور دھڑا کمزور پڑ رہا ہے اور آزاد ووٹر پیدا ہو رہا ہے۔‘
جب اُن سے پوچھا گیا کہ اس بار جن علاقوں میں سعید اکبر نوانی مضبوط دھڑے اور برادری کا ووٹ بینک رکھتے تھے وہاں کے پولنگ سٹیشنز کے نتائج کیا رہے تو اُن کا کہنا تھا ’دُلے والا میں راں اور جھمٹ برادری مضبوط دھڑا اور ووٹ بینک رکھتی ہے۔ اسی طرح یہاں کا سیٹھ اور میانہ گروپ بھی طاقتور تصور ہوتا ہے۔ یہ برادریاں اور دھڑے سعید اکبر نوانی کے ساتھ تھے، مگر وہ یہاں سے ہار گئے۔‘
دُلے والا کے رہائشی مقامی صحافی اور جھمٹ برادری سے تعلق رکھنے والے سلیم جھمٹ کا کہنا تھا ’اس بار برادری اور دھڑے کا تصور ٹوٹا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں تاہم ووٹرز نے دھڑے اور برادری سے بالا ہو کر ووٹ ڈالا ہے۔‘
ناصر علی خان دھڑے اور برادری کی سیاست کمزور ہونے کی ایک اور مثال دیتے ہیں ’حلقہ پی پی 90 کے علاقہ پنجگرائیں اور جھوک قلندر میں سادات برادری کا سکہ چلتا ہے اور یہاں کی دیگر چھوٹی برادریاں اِن کے کہنے پر ووٹ دیتی ہیں، یہ اس وقت سعید اکبر نوانی کے ساتھ تھے مگر یہاں سے بھی سعید اکبر نوانی ہار گئے۔‘
پنجگرائیں کے رہائشی محمد عظیم نے ایک واقعہ سنایا ’یہاں بے زمین کاشتکاروں کا ووٹ بینک بھی ہے جو ہمیشہ سادات کے کہنے پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس بار اس برادری کے لوگ یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ ہم سلام سعید اکبر نوانی کو کریں گے مگر ووٹ مرضی سے دیں گے۔‘
مقامی صحافی فہیم احمد خان جو اس ضمنی الیکشن میں رپورٹنگ کرتے رہے، کا کہنا تھا ’برادریوں اور دھڑوں نے فعال کردار نہیں ادا کیا۔ کوٹلہ جام اور گڈولہ یونین کونسل میں ہمیشہ سے نوانی خاندان کامیاب ہوتا ہے، یہاں کی بڑی برادریاں قاضی اور بلوچ ہیں مگر اس بار شکست کھا گئے۔‘
حلقہ پی پی 202 ساہیوال
یہ حلقہ سارے کا سارا دیہی ثقافت کا حامل ہے۔ یہاں مسلم لیگ (ن) کی سیٹ پر نعمان لنگڑیال اور پی ٹی آئی کی سیٹ پر میجر ریٹائرڈ غلام سرور تھے۔ اس حلقے سے بڑی برادریوں اور مضبوط دھڑے کی بنیاد پر اُمیدوار کامیاب ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں سے نعمان لنگڑیال کی جیت کے اندازے باندھے جا رہے تھے مگر نتیجہ مختلف آیا۔ اس حلقہ کے دو چک 50/12.L اور 51/12.L میں سابق ایم این اے طفیل جٹ، سابق ایم این اے چودھری منیر ازہر، اور سابق ایم این اے چودھری زاہد اقبال آرائیں کا خاصا ووٹ بینک ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے وابستہ یہ افراد نعمان لنگڑیال کی حمایت کر رہے تھے۔
اِن میں سے چک 50/12.L چودھری طفیل جٹ کا آبائی گھر بھی ہے لیکن ان دونوں چکوک سے نعمان لنگڑیال ہار گئے۔ اس حلقے کی رپورٹنگ کرنے والے مقامی صحافی محمد ارشاد قادری کا کہنا تھا ’نعمان لنگڑیال کے ساتھ مضبوط دھڑا کھڑا تھا اور اہم برادریوں کی حمایت بھی میسر تھی مگر اُن جگہوں سے یہ ہار گئے جہاں سے کوئی تصور بھی نہیں کر رہا تھا۔‘
مذکورہ چک کے رہائشی اور سیاسی ورکر آصف سندھو کا کہنا تھا ’بڑی برادریاں جٹ، آرائیں اور گجر نعمان لنگڑیال کے ساتھ تھیں، مگر ووٹرز نے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔‘
حلقہ پی پی 272 مظفر گڑھ
یہ حلقہ دیہی پس منظر رکھتا ہے۔ یہاں خالصتاً برادری اور دھڑے ہی کسی اُمیدوار کی جیت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس حلقے کی 12 یونین کونسلز میں سے نو ایسی تھیں جہاں سے باسط بخاری کی حمایت بتائی جاتی ہے۔ اس حلقے سے باسط بخاری کی اہلیہ زہرا باسط مسلم لیگ (ن) کی اُمیدوار تھیں جبکہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار معظم خان جتوئی تھے۔
مقامی صحافی اور سیاسی ورکر نظیر لاشاری کا کہنا تھا کہ ’برادریوں اور دھڑوں کے ساتھ عام ووٹرز نہیں کھڑا ہوا، وہ الگ ہو کر ووٹ ڈالتا ہوا دکھائی دیا۔ چھجڑا اور گوپانگ برادریاں ہمیشہ باسط بخاری کے ساتھ رہی ہیں، اس بار بھی ساتھ تھیں لیکن جہاں گوپانگ اور چھجڑا برادری کا ووٹ بینک تھا، مثال کے طور پر کلر والی دوم میں وہاں سے زہرا باسط بخاری ہار گئیں۔‘
مقامی صحافی راؤ رضوان کا کہنا تھا ’مکول برادری ہمیشہ باسط بخاری کے ساتھ رہی ہے، اس بار بھی اس برادری کا ساتھ میسر تھا مگر مکول برادری کے علاقے سے زہرا باسط بخاری کامیاب نہ ہوسکی۔‘
حلقہ پی پی 140 شیخوپورہ
شیخوپورہ کا یہ حلقہ شہری ہے۔ اس کی سیاسی تاریخ میں آرائیں برادری بہت اہمیت کی حامل رہی ہے۔ اس حلقے کی انتخابی تاریخ میں محض دو بار ایسا موقع آیا کہ غیر آرائیں اُمیدوار کامیاب ہوا۔ مقامی صحافی محمد اسلام غازی کا کہنا تھا ’اس حلقے میں چار بار ایک ہی گھر کے آرائیں اُمیدوار ایم پی اے رہے۔ تین بار حاجی نواز جبکہ ایک بار اُن کے بھائی غلام نبی ایم پی اے رہے۔‘
سترہ جولائی کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں یہاں سے (ن) لیگ کے اُمیدوار میاں خالد آرائیں تھے جبکہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار خرم شہزاد ورک تھے اور یہ پہلی بار الیکشن لڑ رہے تھے۔ اس حلقے میں بھی پولنگ سے قبل (ن) لیگ کے اُمیدوار کی جیت کو یقینی بتایا جا رہا تھا۔‘
میاں خالد آرائیں اپنے آبائی پولنگ سٹیشن، جہاں اِن کو بڑی برادریوں اور دھڑوں کا ساتھ میسر تھا، وہاں سے ہار گئے۔ اسلام غازی کے مطابق ’مسلم لیگ کے رہنما میاں جاوید لطیف کے آبائی علاقے حبیب کالونی، جہاں سے میاں جاوید لطیف کبھی شکست سے دوچار نہیں ہوئے، وہاں سے بھی میاں خالد آرائیں کامیاب نہ ہوئے۔‘
’اس بار سیاسی جادو چل گیا‘
انتخابی سیاست کے ماہر سہیل وڑائچ سے جب یہ پوچھا گیا کہ ضمنی انتخابات کے نتائج برادری اور دھڑے کی سیاست کمزور ہونے کی کہانی بیان کر رہے ہیں یا نہیں، تو اُن کا کہنا تھا ’اس بار برادری اور دھڑے کا فیکٹر کمزور پڑا اور سیاسی جادو چل گیا۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’جیسا سیاسی جادو اب چلا، ویسا 70 کے انتخابات میں بھی چلا تھا۔‘
حلقوں کی سیاست پر گہرے نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار حبیب اکرم کے سامنے جب یہی سوال رکھا گیا تو اُن کا کہنا تھا ’یہ قدرتی نتیجہ تھا۔ برادری اور دھڑے کا تصور گذشتہ الیکشن سے ہی ٹوٹتا نظر آیا تھا، جیسے جیسے انتخابات ہوتے چلے جائیں گے، یہ تصور کمزور پڑتا جائے گا۔ اس بار دھڑے اور برادری کی سیاست کمزور پڑی ہے۔ اس کی ایک مثال سعید اکبر نوانی کے حلقے کی دی جا سکتی ہے۔ نوانی کا حلقہ تو چلتا ہی دھڑے اور برادری کے زور پر تھا، مگر نوانی ہار گئے۔ اسی طرح کی مثال نعمان لنگڑیال کے حلقے کی بھی دی جا سکتی ہے۔‘
کالم نگار اور حلقوں کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی عامر ہاشم خاکوانی کا خیال ہے ’ضمنی انتخابات کے نتائج سے اندازہ ہوا کہ پنجاب میں برادری اور دھڑے کی سیاست کسی حد تک کمزور ہوئی ہے۔‘
عامر ہاشم خاکوانی نعمان لنگڑیال اور سعید اکبر نوانی کے حلقے کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں ’نعمان لنگڑیال اور سعید اکبر نوانی کو اہم برادریوں اور دھڑوں کی حمایت تھی، اِن کے مقابل پی ٹی آئی کے اُمیدوار بھی نسبتاً کمزور تھے، مگر دونوں اُمیدوار جیت نہ سکے۔‘
عامرخاکوانی اس خیال کو بھی مکمل طور پر درست نہیں سمجھتے کہ برادری اور دھڑوں کی سیاست کمزور ہوئی ہے۔ اُن کے مطابق ’بعض حلقے ایسے بھی ہیں جہاں برادری کا اثر گہرا تھا اور وہاں پر فرق نہیں پڑا جیسے بہاولنگر کا حلقہ۔ یہاں برادری اور دھڑے کا فیکٹر کارفرما رہا۔‘