پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور جلد انتخابات کیا وزیرِ اعلیٰ اعتماد کا ووٹ لے کر اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں؟
پاکستان کے صوبے پنجاب کی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ملک میں جلد انتخابات کے خواہاں ہیں اور اس جانب پہلے قدم پر وہ پنجاب کی اسمبلی تحلیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
صوبے میں حزبِ اختلاف اسمبلی ٹوٹنے سے بچانا چاہتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اس کوشش کا آغاز کر چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاملہ عدالت میں جا چکا ہے۔
حزبِ اختلاف کی دونوں جماعتوں نے وزیرِاعلٰی کے خلاف اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی اور ساتھ ہی ن لیگ سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیرِاعلٰی کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا۔
اعتماد کا ووٹ لینے کے ان کے حکم نامے کو سپیکر پنجاب اسمبلی نے ایک رولنگ کے ذریعے مسترد کیا، دونوں میں خطوط کا تبادلہ ہوا اور گورنر نے وزیراعلٰی کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ ان کی کابینہ بھی تحلیل کر دی گئی۔
پاکستان مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو لاہور ہائی کورٹ نے اگلے ہی روز بحال تو کر دیا لیکن اس کے لیے انھیں عدالت میں یہ تحریری بیان جمع کروانا پڑا کہ وہ بحال ہونے کے بعد اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔
عدالت نے اس مقدمے میں فریقین کو 11 جنوری کو طلب کر رکھا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے چیلنج یہ ہے کہ اس سے پہلے اسمبلی کیسے تحلیل کی جائے۔
ان کی آئندہ کی حکمتِ عملی کیا ہو گی، جماعت اس پر غور کر رہی ہے تاہم پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وزیرِاعلٰی اس تاریخ سے قبل اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ بعض پی ٹی آئی رہنماؤں کی رائے ہے کہ اس کے بعد وزیرِاعلٰی عدالت کی حکم عدولی کے مرتکب ہوئے بغیر اسمبلی تحلیل کر پائیں گے۔
تاہم کیا ایسا ممکن ہو گا؟ سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس حکمتِ عملی میں کئی قانونی اور تکنیکی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔ ایسی صورت میں پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے ملک بھر میں جلد انتخابات کروانے کی حکمتِ عملی کیا ہو سکتی ہے۔
کیا وزیرِاعلٰی آئندہ عدالتی کارروائی سے قبل اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں؟
پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت کا کہنا ہے کہ وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی 11 جنوری سے قبل پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں گے۔
تاہم بعض ماہرین کے خیال میں لاہور ہائی کورٹ نے وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی درخواست پر جمعے کے روز فوری ریلیف کی صورت میں دیے گئے فیصلے میں گورنر پنجاب کے اس حکم کو ’عارضی معطلی‘ میں رکھ دیا ہے جس کے تحت وزیرِاعلٰی کو عہدے سے ہٹایا گیا۔
یاد رہے کہ گورنر نے اس بنیاد پر وزیرِاعلٰی کو عہدے سے ہٹایا تھا کہ انھوں نے گورنر کی ہدایت پر اعتماد کا ووٹ نہیں لیا۔ عدالت نے تاحال اس مقدمے میں قانونی اور آئینی سوالات کا فیصلہ کرنا ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں وزیرِاعلٰی کس کے کہنے پر اعتماد کا ووٹ لیں گے؟ کیا وہ خود سے بھی اسمبلی سے یہ ووٹ لے سکتے ہیں۔
وکیل اور قانونی ماہر اسد رحیم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں ایسا ہی ہے۔ ’عدالت نے گورنر کے اس حکم نامے کو معطل ضرور کیا تاہم عدالت نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ وزیرِاعلٰی اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکتے۔ عدالت نے یہ معاملہ وزیرِاعلٰی پر چھوڑا ہے۔‘
وکیل اور قانونی ماہر میاں علی اشفاق بھی اس نقطے پر متفق ہیں۔ ان کے خیال میں ’چوہدری پرویز الٰہی اگر اعتماد کا ووٹ لینا چاہیں تو وہ عدالت سے ایک ثانوی درخواست کے ذریعے رجوع کر کے باقاعدہ طور پر اجازت بھی لے سکتے ہیں یا اسے آگاہ کر سکتے ہیں۔‘
تاہم ان دونوں ماہرین کے خیال میں وزیرِاعلٰی چوہدری پرویز الٰہی پر قانونی اعتبار سے 11 جنوری سے قبل اعتماد کا ووٹ لینے پر کوئی قید نہیں۔
کیا اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وہ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں؟
پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت کے خیال میں اگر وزیرِاعلٰی پرویز الٰہی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد وہ عدالت کو ناراض کیے بغیر پنجاب اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔
ان کے خیال میں اعتماد کو ووٹ حاصل کر لینے سے ان کے خلاف وہ جواز ختم ہو جاتا ہے جس پر انھیں عہدے سے ہٹایا گیا اور اس کے بعد معاملہ عدالت میں گیا۔
تاہم عدالت نے جس حلف نامے کی بنیاد پر وزیرِاعلٰی کو فوری ریلیف فراہم کیا اور انھیں عہدے پر بحال کیا وہ یہ تھا کہ بحال ہونے کے بعد وزیرِاعلٰی اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔
وکیل اور قانونی ماہر اسد رحیم خان کے مطابق اگر وزیرِاعلٰی اعتماد کو ووٹ حاصل کر لینے کے بعد اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو قانونی اور آئینی طور وہ ایسا کر سکتے ہیں۔
’آئین کے مطابق اسمبلی کی تحلیل کو صرف ایک ہی صورت میں یعنی آرٹِیکل 112 کے تحت تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے روکا جا سکتا ہے اور وہ اپوزیشن پہلے ہی واپس لے چکی ہے۔‘
اسد رحیم کے مطابق عدالتی حکم میں بھی قانونی طور پر اس کی کوئی ممانعت نظر نہیں آتی۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے بنیادی طور پر ماضی کے ایک ایسے ہی فیصلے کو بنیاد بنایا ہے جس میں اس وقت کے وزیرِاعلٰی منظور وٹو کو اسی طرح بحال کیا گیا تھا۔
اس وقت بھی عدالت نے سیاسی انتشار سے بچانے کے لیے وزیرِاعلٰی سے ایک انڈر ٹیکنگ لی کہ وہ بحال ہونے پر اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔ اس میں انگریزی کا محاورہ بھی لکھا گیا کہ ’وہ بل ان دی چائنا شاپ کی طرح عمل نہیں کریں گے۔‘
’یہاں بھی لاہور ہائی کورٹ نے درمیانی راستہ اختیار کیا اور انھوں نے وزیرِاعلٰی سے کہا کہ وہ اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی انڈر ٹیکنگ دے دیں۔ اس طرح دونوں فریقین کو کچھ نہ کچھ مل گیا۔‘
کیا یہ انڈر ٹیکنگ وزیرِاعلٰی کو پابند بناتی ہے؟
وکیل اور قانونی ماہر میاں علی اشفاق کے خیال میں اگر وزیرِاعلٰی پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیتے ہیں تو ’ان کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے یعنی اخلاقی طور پر ان سے وہ قید ختم ہو جاتی ہے جس کے تحت ان کے خلاف معاملہ عدالت میں گیا۔‘
اگر اس کے بعد وہ اسمبلی تحلیل کرتے ہیں تو وہ کر پائیں گے تاہم وکیل علی اشفاق کے خیال میں وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی ایسا کرنا نہیں چاہیں گے۔
’ایسا کرنے سے وہ شاید اس معاملے پر تو عدالت کو ناراض کرنے کے مرتکب نہ ٹھہریں لیکن آئندہ کے لیے وہ اپنا بونافائیڈ ہونے یعنی سچا یا مستند ہونے کا درجہ کھو دیں گے۔‘
وکیل میاں علی اشفاق کے خیال میں دوسری صورت میں وزیرِاعلٰی چوہدری پرویز الٰہی اگر اعتماد کو ووٹ حاصل کرنے کے بعد اسمبلی تحلیل کرنا چاہیں تو ان کے پاس یہ راستہ ہے کہ وہ عدالت کی اگلی تاریخ تک انتظار کریں۔
’وہ یہ کر سکتے ہیں کہ 11 جنوری سے قبل اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں اور اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے اپنی تیاری مکمل کر لیں اور جس روز عدالتی کارروائی ہوتی ہے اسی شام کو وہ اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھجوا دیں۔‘
وکیل علی اشفاق کے خیال میں اس سے پہلے اگر وہ ایسا کریں گے تو اخلاقی طور پر یہ اقدام ان کے خلاف جا سکتا ہے۔
’وزیرِاعلٰی 11 جنوری سے قبل اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے‘
وکیل اور آئینی ماہر حافظ احسن احمد کھوکھر سمجھتے ہیں کہ وزیرِاعلٰی پنجاب 11 جنوری کو عدالتی کارروائی سے قبل اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے۔
’اگر وہ ایسا کریں گے تو یہ ان کی اس انڈر ٹیکنگ کی خلاف ورزی ہو گی جس میں انھوں نے عدالت سے کہا ہے کہ وہ بحال ہونے کے بعد اسمبلی نہیں توڑیں گے۔‘
تاہم حافظ احسن احمد کھوکھر کا کہنا ہے کہ وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ 11 جنوری سے قبل اسمبلی سے اعتماد کو ووٹ لے سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں وزیرِاعلٰی یہ دونوں طریقوں سے کر سکتے ہیں۔
’وہ کسی کے کہنے پر بھی کر سکتے ہیں یا پھر وہ خود سے بھی اعتماد کو ووٹ لے سکتے ہیں جیسے ماضی میں اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کو ووٹ حاصل کیا تھا۔‘
وکیل حافظ احسن کھوکھر کہتے ہیں کہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد 11 جنوری کو وزیرِاعلٰی پنجاب لاہور ہائی کورٹ کو آگاہ کر سکتے ہیں کہ انھوں نے اعتماد کو ووٹ حاصل کر لیا ہے۔
’اس طرح ان پر بنیادی اعتراض ہی ختم ہو جائے گا کہ ان کو اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر عہدے سے ہٹایا گیا۔ اس صورت میں عدالت فیصلہ کر سکتی ہے کہ ان کے حق میں مقدمے کو ختم کر دے۔‘
آئینی ماہر کے خیال میں اس کے بعد وزیرِاعلٰی پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھجوا سکتے ہیں لیکن وہ بھی اس صورت میں اگر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہ آ جائے۔
خیال رہے کہ اپوزیشن پہلے ہی ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لے چکی ہے۔
کیا اپوزیشن دوبارہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا سکتی ہے؟
وکیل اور قانونی ماہر اسد رحیم خان سمجھتے ہیں کہ حزب اختلاف کے پاس یہ راستہ موجود ہے کہ وہ وزیرِاعلٰی کو اسمبلی تحلیل کرنے سے روکنے کے لیے ایک مرتبہ پھر عدم اعتماد کی تحریک لا سکتی ہے۔
اسد رحیم کے خیال میں اپوزیشن نے ’پہلے جمع کرائی جانے والی تحریک اس لیے واپس لے لی کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کے فوری ریلیف کے فیصلے کے بعد وہ غیر مؤثر ہو گئی تھی۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ قانونی اعتبار سے حزبِ اختلاف پر دوبارہ وزیرِاعلٰی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر کوئی قدغن نہیں۔ ’اس میں چند تکنیکی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں جن میں کچھ دنوں کی مہلت بھی ہے لیکن وہ تحریکِ عدم اعتماد جمع ضرور کروا سکتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ اگر وزیرِاعلٰی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع ہو جائے تو آئینی طور پر وہ اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار کھو دیتے ہیں۔
اعتماد کے ووٹ کے بعد کیا عدم اعتماد مؤثر ہو گی؟
وکیل اور قانونی ماہر میاں علی اشفاق بھی اس خیال سے متفق ہیں کہ اپوزیشن ایک مرتبہ پھر قانونی طور پر وزیرِاعلٰی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا سکتی ہے تاہم ان کے خیال میں اس سے قبل وزیراعلٰی کی جانب سے اسمبلی سے اعتماد کے ووٹ کی اہمیت زیادہ ہو گی۔
’اس صورتحال میں یہ سوال بھی پیدا ہو جائے گا کہ کیا اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کی ضرورت ہے۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص نے جس اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا 72 گھنٹے بعد وہ اسی اسمبلی کا اعتماد کھو دے۔‘
وکیل علی اشفاق کے خیال میں اس صورت میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے لائی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک غیر مؤثر قرار دے دی جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ آئینی اعتبار سے ایک مرتبہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جائے تو چھ ماہ تک دوبارہ نہیں لائی جا سکتی۔