پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی تیسری جماعت کی طالبہ جنھوں نے ریپ کے بعد ’اپنے ہی بھائی‘ کی بیٹی کو جنم دیا
انتباہ: اس تحریر کے کچھ حصے چند قارئین کے لیے پریشان کُن ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ایک نجی ہسپتال کے لیبر روم میں رات دو بجے نارمل ڈیلیوری کا ایک کیس لایا گیا لیکن اس کیس کو ڈیل کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ڈاکٹرز کو ہسپتال میں پولیس کو بلانا پڑا کیونکہ بچے کو جنم دینے والی خود ایک بچی تھی اور جسمانی تبدیلی سے بے خبر تھی۔
متاثرہ بچی کو طبی امداد فراہم کرنے والے عملے نے بی بی سی کو بتایا کہ شام سات بجے کے بعد اس بچی کو اُس کی والدہ ہسپتال کی ایمرجنسی میں لائیں۔ بچی پیٹ میں درد کی شکایت کر رہی تھی، ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز نے معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ حمل سے ہے اور کسی بھی وقت اس کے ہاں بچے کی پیدائش ہو سکتی ہے۔
طبی عملے نے بتایا کہ ’اہلخانہ نے جب یہ کہا کہ لڑکی ناصرف کم عمر ہے بلکہ غیر شادی شدہ بھی تو موقع پر موجود جونیئر ڈاکٹروں نے سینیئر ڈاکٹرز کو اطلاع دی۔ یہ کیس پولیس میں رپورٹ کرنے کا فیصلہ ہوا مگر پولیس کی آمد سے قبل ہی اس نوعمر بچی کی ڈیلیوری ہو گئی۔‘
اس معاملے میں پولیس کی ابتدائی رپورٹ اور مقدمے میں اب تک کی جانے والی تفتیش کے مطابق متاثرہ بچی کا یہی الزام ہے کہ مبینہ طور پر پہلے اُس کے بھائی اور پھر والد نے گذشتہ نو ماہ کے دوران اس کا کئی مرتبہ ریپ کیا۔
متاثرہ بچی نے بیان میں پولیس کو بتایا ہے کہ ’اسے والد نے ڈرایا تھا اور خاموش رہنے کو کہا تھا۔‘
اس کیس کی ایف آئی آر کے مطابق بچی کی عمر 14 برس ہے۔ اس کیس کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہسپتال سے کال موصول ہوئی تو ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار ہسپتال پہنچا، وہاں بچی کی والدہ کے علاوہ والد اور عزیز بھی پہنچ چکے تھے۔‘
اُن کے مطابق ’متاثرہ بچی کے والد اور بھائی کو گرفتار کر گیا اور جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد اب وہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔ پولیس کو دیے گئے بیانات اور تفتیش میں (انھوں نے) بچی کے ساتھ ریپ کرنے کا اقرار کیا۔‘
واقعے کی ایف آئی آر، جو پولیس کی ہی مدعیت میں درج کی گئی تھی، کو پڑھنے سے لے کر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے متعلقہ پولیس سٹیشن میں پہنچنے تک میرے ذہن میں یہی سوالات گردش کر رہے تھے کہ گھر اور سکول میں سب اس معاملے سے کیسے اور کیونکر بے خبر رہے، یہاں تک کے نوبت ڈیلیوری تک پہنچ گئی؟
’غلطی ہو گئی۔۔۔‘ متاثرہ بچی کے بھائی اور والد کا بیان
میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اُس علاقے میں پہنچی تو خواتین کی تعلیم اور حقوق سے آگاہی کے بینرز سڑکوں پر دکھائی دیے۔
پولیس سٹیشن جہاں اس واقعے کی ایف آئی آر درج ہوئی تھی، وہاں موجود تفتیشی حکام نے دعویٰ کیا کہ متاثرہ بچی نے ’ماں کو والد کے رویے سے آگاہ کیا تھا اور اس پر والدہ اور والد کا جھگڑا بھی ہوا تھا اور ماں نے خودکشی کی دھمکی بھی دی تھی۔‘
اس روز پولیس ایک بار پھر ملزمان کا ریمانڈ لینے کے لیے عدالت گئی تھی۔ میں نے ہاتھ میں ہتھکڑی بندھے متاثرہ بچی کے والد کو بھی دیکھا جس نے پولیس کو دیے گئے ابتدائی بیان میں اعتراف کیا کہ اس نے اپنی ہی بیٹی کا ریپ کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’مجھ سےغلطی ہو گئی‘ اور یہی بات متاثرہ بچی کے بھائی نے بھی پولیس کو دیے گئے بیانات میں کہی۔
’وہ معصوم اور کم گو تھی، روز میرے سامنے سے گزر کر سکول جاتی تھی‘
اگلی صبح میرا رُخ اس گنجان آباد علاقے کے بیچوں بیچ اس گھر کی جانب تھا جہاں مثاترہ بچی کے ساتھ مبینہ طور پر یہ سلوک کیا گیا۔
قدرے تنگ گلی میں موجود اس کشادہ گھر میں ایک سے زائد خاندان آباد ہیں۔ گھر کی دوسری منزل پر ملزم اپنی بیوی اور نو بچوں کے ہمراہ گذشتہ تقریباً ایک سال سے کرائے پر رہ رہے تھے۔
یہاں میری ملاقات مالک مکان اور ان کے بیٹے سے ہوئی۔ گھر کی بزرگ مالکن برآمدے میں جھاڑو لگا رہی تھیں، جسے چھوڑ کر وہ میرے پاس آئیں اور اوپر جاتی سیڑھیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھے کہا ’میں نے کتنی عمر گزار دی، وہ معصوم اور کم گو بچی تھی۔ وہ روز میرے سامنے سے گزر کر سکول جاتی تھی لیکن میرا ذہن اس کی جسمانی تبدیلی کے باوجود اس جانب نہیں گیا کہ اس کے ساتھ کچھ انہونی ہو چکی ہے۔‘
وہ کہنے لگیں ’جب بچی کی طبیعت خراب ہوئی تو میری بہو کو اس کی والدہ نے کہا کہ اسے اپینڈکس کا درد ہے، میرے ساتھ ہسپتال چلیں، وہ ہسپتال تک ساتھ گئی اور کچھ دیر بعد واپس لوٹ آئی۔‘
سیڑھیوں سے اوپر تین کمروں پر مشتمل بنے مکان میں اب کوئی نہیں رہتا۔ پولیس کو واقعہ رپورٹ ہوتے ہی مالک مکان نے یہ گھر فوری طور پر خالی کروا لیا تھا۔ گھر کے تین کمروں میں سے چھوٹا کمرہ کپڑے سینے کے لیے استعمال میں لایا جاتا تھا۔ یہاں بچوں کے لیے الگ کمرہ مختص تھا۔
مگر گھر کے مکین راتوں رات کہاں گئے، علاقے کے لوگ یہ بتانے اور اس واقعے پر بات کرنے سے گریزاں دکھائی دیے۔
’دل میں یہ خیال تو آتا تھا لیکن زبان پر نہیں لا سکتی تھی‘
مالک مکان نے اپنے کریانے کی دکان کا شٹر گرایا اور کہا کہ ’وہ بچی تو روز سکول جاتی تھی، ہمیں نہیں معلوم اس کے ساتھ یہ سب ہوتا رہا۔ وہ سکول جاتے آتے میری دکان سے چیز بھی لیتی تھی۔‘
یہ کہتے ہوئے وہ مجھے دو گھر چھوڑ کر گلی کے نکڑ پر موجود سکول کے دروازے تک لے گئے۔
یہ ایک چھوٹا لیکن بہت ہی صاف ستھرا سکول تھا، دیواروں پر بچوں کی توجہ کے لیے کارٹون اور چارٹس دکھائی دے رہے تھے۔ اندر جانے پر پتا چلا کہ بچوں کے امتحانات ہو رہے ہیں لیکن تیسری جماعت کی وہ متاثرہ طالبہ جو امتحان میں نمایاں پوزیشن لیتی تھیں، اب یہاں موجود نہیں۔
سکول کی پرنسپل کو جب میں نے اپنے آنے کی وجہ بتائی تو وہ مجھے بالائی منزل پر لے گئیں۔ انھوں نے کہا کہ ’متاثرہ طالبہ تقریباً آٹھ سے نو ماہ پہلے ہی سکول آنا شروع ہوئی تھی۔ اس کے دیگر پانچ بہن بھائی بھی یہیں ہمارے سکول میں پڑھتے ہیں۔‘
وہ کہنے لگیں ’بچی کی والدہ بچوں کا پتا کرنے کے لیے دن میں دو سے تین چکر تو لگا ہی لیتی تھیں۔‘
سکول کی پرنسپل نے مجھے حاضری رجسٹر دکھاتے ہوئے افسردہ لہجے میں بتایا ’وہ بچی خاموش طبع اور نہایت لائق تھی، ہم تو دوسرے بچوں کو اس کی مثال دیتے تھے۔ کام میں بہت اچھی تھی، کبھی اس نے شکایت کا موقع نہیں دیا۔‘
بچی کی کلاس ٹیچر نے بتایا کہ ’وہ زیادہ تر اپنی سیٹ پر ہی بیٹھنا پسند کرتی تھی، وہ عمر میں دیگر بچوں سے کچھ بڑی تھی لیکن اکثر بچوں کے والدین انھیں دیر سے سکول داخل کرواتے ہیں تو یہ یہاں کوئی عجیب بات نہیں۔‘
ٹیچرز کا کہنا تھا کہ ’متاثرہ طالبہ کبھی کبھار سکول سے چھٹی کرتی تھی لیکن ہم تو خود مائیں ہیں۔ ہمیں کبھی محسوس نہیں ہو سکا کہ وہ کسی حادثے کا شکار ہو چکی ہے، اس کی خاموشی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے، ہم سوچ نہیں سکتے تھے۔‘
لیکن ٹیچرز یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ’سکول میں بچیوں کو ماہواری ہو جاتی ہے تو ہم ان کے یونیفارم پر بھی نظر رکھتے ہیں اور مدد کرتے ہیں اور اس بچی کے بارے میں ہم سمجھ رہے تھے کہ شاید وہ بھی اب بڑی ہو رہی ہے اور اس میں جسمانی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔‘
’ہم نے بچی سے کہا بھی کہ اب پیپرز کے بعد آپ نے نیا یونیفارم بنوانا ہے لیکن تیسری جماعت کی بچی کسی ایسے مسئلے سے دوچار ہے یہ ہمارے گمان میں نہیں تھا۔‘
قریب ہی کام کرتی آیا نے کہا ’میرے دل میں یہ خیال تو آتا تھا لیکن میں یہ زبان پر نہیں لا سکتی تھی کیونکہ اتنی چھوٹی بچی کے لیے ایسا کہنا اور سوچنا ہی مجھے غلط لگ رہا تھا۔‘
’بچی دہشت زدہ اور صدمے کی حالت میں تھی‘
اس واقعے کے بارے میں علاقے میں جس شخص سے بھی بات کی، اس نے کہا کہ ’یہاں ایسا کبھی کوئی واقعہ نہیں ہوا۔۔۔ یہاں تو ریپ کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘
متاثرہ بچی کے سکول اور گھر جاتے اور واپسی پر میری کچھ خواتین سے ملاقات ہوئی۔
کریانے کی دکان چلانے والی ایک خاتون بات کرتے ہی رونے لگی اور کہا کہ ’مجھے فالج ہے۔ میرا بیٹا میرے کمرے میں بستر لگا کر سوتا تھا لیکن جب سے یہ بات سنی ہے میں نے اسے کہا کہ وہ کمرے میں مت سوئے، مجھے خوف آتا ہے، یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘
لیکن ان بہت سے لوگوں میں سے اکثر اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ شاید ڈاکٹر کی رپورٹ کا رزلٹ اس سے مختلف ہو، جو پولیس کہہ رہی ہے اور والد یا بھائی نے نہیں بلکہ کسی اور نے بچی کے ساتھ ایسا کیا ہو۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ ’بچی کا بیان کسی بھی نتیجے کے باوجود نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ والد اور بھائی نے اس کے ساتھ مبینہ طور پر ریپ کیا ہے۔‘
متاثرہ بچی اب ہسپتال سے ڈسچارج ہو چکی ہے۔ بچی کے طبی معالج اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے لیکن اسی ٹیم میں شامل ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ’وہ بچی دہشت زدہ اور صدمے میں تھی۔‘
’وہ حمل اور اس کے عمل سے بالکل بے خبر دکھائی دیتی تھی، اس کا کیس چونکہ نارمل تھا لہذا اسے 24 گھنٹوں میں ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔‘
’لیکن پھر ایک روز کے بعد پولیس کی جانب سے بچی اور نومولود کے لیے دوبارہ ہسپتال سے رابطہ کیا گیا اور انھیں زیر نگہداشت رکھنے کا کہا گیا اور اسے پھر مزید چار روز کے لیے ہسپتال میں رکھا گیا۔‘
کیا ہسپتال میں اسے نفسیاتی سطح پر کوئی مدد فراہم کی گئی؟ اس سوال کا جواب نفی میں ملا اور کہا گیا کہ اس پورے عرصے میں وہ کبھی نارمل نہیں لگی بلکہ صدمے کی کیفیت میں ہی رہی اور اسی حالت میں اسے اور نومولود کو ڈسچارج کر دیا گیا۔
پولیس نے بتایا کہ نومولود کو ایک ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا ہے جبکہ بچی کو اس کی والدہ یہاں سے دور گاؤں لے گئی ہیں۔
بچی کی والدہ سے ملنے کے لیے میں نے شہر سے کچھ گھنٹوں کی دوری پر موجود گاؤں جانے کا فیصلہ کیا۔
سکول سے واپس آ کر جب بچی نے ماں سے کہا ’پیٹ میں شدید درد ہے‘
شہر سے دور اس گاؤں کے بہت ہی مشکل گزار راستے پر لکڑی کی چھڑی کے سہارے اوپر چڑھنا پڑتا ہے۔
گاؤں کے راستے میں ملنے والی خواتین اور نوجوان لڑکیوں نے اس واقعے پر پریشانی اور بے یقینی کا اظہار کیا۔
ایک لڑکی نے مجھے متاثرہ بچی کے گھر کے راستے کی جانب رہنمائی کرتے ہوئے کہا ’آپ اس واقعے کے سلسلے میں آئی ہیں ناں، ہم بہت پریشان ہیں کہ یہ کیا ہوا اور ایسے حالات میں کیسے زندگی گزرے گی۔‘
میں پولیس کی جانب سے نشاندہی کیے گئے اس گھر پہنچی۔ ٹین کی چھتوں سے بنے اس گھر کا کچا فرش اور بکھرا سامان دیکھ کر ایسے لگا کہ مکین عجلت میں گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
گھر کا دروازہ کھلا تھا، جہاں سامنے موجود ایک شخص نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے متاثرہ بچی کی والدہ سے ملنے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا وہ تو یہاں سے جا چکی ہیں۔
مگر کہاں اور کیسے کیونکہ پولیس کے مطابق تو یہی ان کی رہائش ہے؟ بچی کے عزیز نے کہا کہ ’یہاں مشکل تھی خاندان والے اس واقعے پر ناراض ہو چکے ہیں اور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘
وہ کہنے لگے کہ ’اس صورتحال میں مجھے خطرہ محسوس ہوا اور اس لیے مجھے بچی، اس کی ماں اور بہن بھائیوں کو یہاں سے دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا۔‘
اپنی لاٹھی کے سہارے چارپائی سے اٹھتے ہوئے انھوں نے سامنے لگے پردے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھے کہا کہ ’آپ دیکھ رہی ہیں لوگوں کے خوف سے ہم نے یہاں بچی کے لیے عارضی واش روم بنایا ہے۔‘
وہ گھر کے بیرونی جانب بنے واش روم کی جانب اشارہ کر کے کہنے لگے ’لیٹرین یہ ہے لیکن ہم بچی کو اس پکے واش روم میں نہیں جانے دے سکتے کہ رات کو کوئی آ نہ جائے۔ یہاں گاؤں میں اس کا سگا ماموں ہے جو اس کی ماں سے اس واقعے کے بعد قطع تعلق کر چکا ہے۔‘
اس عارضی واش روم کے سامنے موجود کمرے میں فرش پر بستر، گدے اور سامان بکھرا پڑا تھا۔
متاثرہ بچی کے یہ عزیز بچی اور اس کی والدہ کے ہمراہ ہسپتال میں بھی موجود تھے۔ انھوں نے مجھے کہا کہ بچی اور اس کی والدہ کو یہاں سے آگے منتقل کر دیا ہے۔
اس مشکل راستے سے اوپر سڑک تک پہنچنے میں بھی ایک گھنٹہ لگ گیا۔
میں نے ان سے پوچھا کہ بچی کو آپ کیسے لے کر گئے یہاں سے ؟ اس سوال کا جواب نہایت تکلیف دہ تھا کہ بچی کئی گھنٹے پیدل چل کر دوسرے گاؤں گئی۔
آدھے گھنٹے تک پہاڑ پر بنی سڑک پر سفر کے بعد میں پھر سے پہاڑ کی چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں سے گزر کر متاثرہ بچی کے عزیز کے ہمراہ چل رہی تھی۔
ٹین کی چھت سے بنے ایک چھوٹے سے کمرے کے باہر مجھے متاثرہ بچی کی والدہ اور خالہ ملیں۔ بچی کی والدہ کے چہرے پر پریشانی اور آنکھوں میں آنسو تھے۔
یہ گھر ایک ہی کمرے پر مشتمل تھا اسی کمرے میں متاثرہ بچی اور اس کے دیگر سات بہن بھائیوں کو رکھا گیا تھا۔ مجھے بچوں سے نہیں ان کی والدہ سے ملنا تھا لیکن سامنے چارپائی پر بیٹھی متاثرہ بچی اور اردگرد اس کے بہن بھائیوں کی آنکھوں میں موجود سوال، حیرت، اضطراب اور جھجھک دکھائی دے رہی تھی۔
متاثرہ بچی کو چند لمحے دیکھ کر ہی یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ اب تک صدمے کی کیفیت میں ہے۔
اس چھوٹے سے کمرے میں ایک چولہے، بوسیدہ بستروں اور اس کنبے کے لیے ناکافی برتنوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہاں واش روم تھا نہ ہی پانی کی سپلائی۔
میں نے فوراً ہی کمرے سے نکل کر بچی کی والدہ سے پوچھا کیا ہم یہاں سے کچھ دور بیٹھ سکتے ہیں۔ باہر پڑی چارپائی کے کنارے پر بیٹھتے ہوئے انھوں نے مجھے واقعے کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔
آبدیدہ لہجے کے ساتھ وہ مجھے بتانے لگیں ’اس روز بچی سکول سے آئی۔ شام سات بچے کے قریب اس نے مجھے کہا امی میرے پیٹ میں بہت شدید درد ہو رہا ہے، اس کے پاؤں سوج چکے تھے، وہ بار بار اپنی شلوار بدل رہی تھی۔‘
’مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ میں نے نیچے مالک مکان کی بہو کو ساتھ لیا اور اسے رکشے میں بٹھا کر ہسپتال لے گئی، میرے ساتھ بچے بھی تھے، میں اپنی بیٹی کو ایمرجنسی میں لے کر گئی اور پھر شوہر سے رابطہ ہوا اور وہ بھی وہیں آ گئے۔‘
متاثرہ بچی کی والدہ یہ بھی دعویٰ کرتی ہیں کہ مبینہ ملزم بچی کا والد اور کزن ہیں لیکن ان کا بیٹا بے قصور ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ پولیس کو دیے گئے بیان میں تو ان کی بیٹی نے بتایا ہے کہ اس نے آپ کو والد کے رویے کے بارے میں بتایا تھا اور آپ کی اپنے شوہر سے لڑائی ہوئی تھی اور آپ نے خودکشی کی دھمکی دی تھی۔ تو انھوں نے اس دعوے کو مسترد کیا اور کہا کہ ’وہ اس سے لاعلم تھیں کہ بچی کے ساتھ یہ سب ہو رہا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر یہ مجھے بتاتی تو میں کچھ کرتی۔ اس نے مجھے کبھی کچھ نہیں بتایا، یہ تو سکول جاتی تھی اور واپس آ کر بھائی سے سلائی کا کام سیکھتی تھی۔‘
وہ کہنے لگیں میں نے ہسپتال میں اسے مارا بھی کہ ’تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا تاکہ میں بروقت کچھ کرتی۔‘
وہ کہنے لگیں ’میرا اور میرے بچوں کا کیا ہو گا؟ ہم کہاں جائیں گے، مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا شوہر میری غیر موجودگی میں یہ سب کر رہا ہے۔‘
’میں کبھی خاندان میں کسی کے مرنے پر ہی جاتی ہوں، شادی اور خوشی کے موقع پر میں کبھی بھی نہیں جاتی کیونکہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔۔۔‘
اتنے میں بچی کی خالہ وہاں آئیں اور سامنے موجود ٹین کے اس واحد کمرے کی جانب اشارہ کر کے روتے ہوئے مجھے کہنے لگیں ’تم یوں سمجھو کہ جیسے ہم ایک قبر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ سب خاندان ہم سے کٹ گیا۔‘
میں نے مڑ کر سامنے موجود کمرے کو دیکھا۔ بارش اور شدید دھوپ میں ٹین کی دیواروں کے سوراخ یہاں رہنے پر مجبور اس خاندان کو محفوظ رکھنے میں مدد نہیں کر سکتے تھے۔
میرے پاس اس خاندان کو تسلی دینے کے لیے کوئی الفاظ نہیں تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کیا آپ سے کسی ادارے نے رابطہ کیا ہے تو ان کا جواب تھا: ’گھر کے اندر یہ ہوا تو بتائیں ہم اب کس پر اعتبار کریں۔‘
نوزائیدہ بچی کا ڈی این اے ریپ سے متاثرہ بچی کے بھائی سے میچ
بچی کی نارمل ڈیلیوری سے اس کی نوزائیدہ بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی۔
اس گاؤں سے دور اس واقعے سے بے خبر نومولود بچی اب ایک ٹرسٹ کے پاس ہے۔ میں جب اس سے ملی تو وہ ایک کمرے کے کونے میں آسمانی رنگ کے بستر پر گہری نیند میں تھی، یہاں اس کی نگہداشت ایک خاتون کر رہی ہیں۔
اس ادارے کے منتظم نے مجھے بتایا کہ میرے پاس چار مزید ایسے بچے ہیں، جنھیں خاندان والے چھوڑ چکے ہیں۔
اس واقعے کو گزرے چار ہفتے بیت گئے ہیں لیکن ڈی این اے رپورٹ مرتب کرنے میں معمول سے زیادہ وقت لگا۔
پولیس حکام کے مطابق بچی کا ڈی این اے ریپ کا شکار ہونے والی بچی کے بھائی سے میچ ہوا اور وہ اس کا جینیاتی والد ہے۔
پولیس اب مزید تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر عدالت سے ملزمان کی حوالگی کی درخواست کرے گی، جو اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ڈی این اے رپورٹ کا انتظار تھا۔ اب ملزمان سے بیانات لیے جائیں گے اور متاثرہ بچی اور اس کی والدہ سے بھی بیان لیا جائے گا۔
ڈی این اے ٹیسٹ سے منسلک عملے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھے بتایا کہ ’میرے کیریئر میں یہ پہلا موقع ہے کہ میں اس نوعیت کا ڈی این اے کر رہا ہوں اور چونکہ اس میں والد یا بھائی پر الزام تھا اور سارے اشارے بھی گھر کے اندر ہی جا رہے تھے اس لیے کسی بھی غلطی سے بچنے کے لیے ہمیں مزید وقت درکار تھا تاکہ مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جا سکے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ڈی این اے رپورٹ میں نومولود کی ولادت کا سبب متاثرہ بچی کا بھائی ہے۔
دوسری جانب متاثرہ بچی والد اور بھائی دونوں پر الزام عائد کرتی ہے۔ ایسے میں پولیس تو اس الزام کو ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد بھی چالان میں شامل رکھے گی لیکن سائنسی بنیادوں پر یہ ثابت کرنا ممکن نہیں کہ والد بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریپ کے الزامات کا پتا لگانے کے لیے مخصوص مدت میں ٹیسٹ کرنا ضروری ہوتا ہے۔