پاکستان چین کے زیرِ اثر ممالک کی فہرست

پاکستان چین کے زیرِ اثر ممالک کی فہرست

پاکستان چین کے زیرِ اثر ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر: مگر اس کا مطلب کیا ہے؟

چین اور پاکستان کی ہمالیہ سے اونچی اور بحیرۂ عرب سے گہری دوستی کی مثالیں تو آپ نے بہت سُن رکھی ہو گی مگر چین کے دنیا پر بڑھتے اثرورسوخ کے بارے میں جاری کردہ فہرست چائنا انڈیکس 2022 میں پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں چین کا اثر و رسوخ سب سے زیادہ ہے۔

چین کے عالمی دنیا پر بڑھتے اثر و رسوخ سے متعلق تحقیق میں دنیا کے 82 ممالک کی فہرست مرتب کی گئی ہے جن میں چین کے اثر و رسوخ کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

بدھ کو جاری ہونے والی اس فہرست میں پاکستان کا سب سے پہلا نمبر ہے جبکہ اس کے بعد کمبوڈیا دوسرے اور سنگاپور تیسرے نمبر پر ہے۔

اسی طرح یورپی ممالک میں سے جرمنی وہ ملک ہے جہاں چین کا اثر و رسوخ سب سے زیادہ ہے اور دنیا کے 82 ممالک کی فہرست میں اس کا نمبر 19 واں ہے۔

’چائنا انڈیکس‘ کیا ہے؟

دی چائنا انڈیکس 2022 اپنی نوعیت کی ایسی پہلی تحقیق ہے جس میں دنیا کے 82 ممالک میں چین کے عالمی اثر و رسوخ کے جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ فہرست تائیوان میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم ڈبل تھنک نے ’چائنا ان دی ورلڈ نیٹ ورک‘ کے تحت جاری کی ہے۔ اس فہرست میں دنیا کے 82 ممالک پر چین کے اثر و رسوخ کو نو شعبوں کے تحت درجہ بندی میں شامل کیا گیا ہے جن میں میڈیا، تعلیم، معیشت، معاشرہ، فوج، ٹیکنالوجی، قانون نافذ کرنے والے ادارے، مقامی سیاست اور خارجہ پالیسی شامل ہیں۔

ان تمام شعبوں میں کسی ملک کے چین پر انحصار کو مدنظر رکھتے ہوئے فہرست میں ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔

پاکستان

پاکستان کن شعبوں کے لیے چین پر کتنا انحصار کرتا ہے؟

چائنا انڈیکس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق چین کا پاکستان میں مختلف شعبوں پر اثر و رسوخ ہے جن میں پاکستان کا سب سے زیادہ انحصار 97.7 فیصد ٹیکنالوجی پر ہے۔

فہرست کے مطابق دوسرے نمبر پر چین کا پاکستان کی خارجہ پالیسی پر 81.8 فیصد اثر و رسوخ ہے اور تیسرے نمبر پر چین پاکستان کی دفاعی افواج پر بھی 80 فیصد اثر و رسوخ رکھتا ہے۔

دی چائنا انڈیکس کے مطابق تعلیمی شعبے پر 62.5 فیصد، معیشت پر 54.5 فیصد مقامی سیاست میں 52.8 فیصد، میڈیا میں 52.3 فیصد، قانون کے نفاذ پر 47.7 فیصد جبکہ معاشرتی سطح پر 43.2 فیصد اثرو رسوخ ہے۔

پاکستان پر چین کے اثر و رسوخ کی وجوہات کیا ہیں؟

پاکستان اور چین کے سفارتی، عسکری اور معاشی تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے۔

پاکستان اور چین کے تعلقات میں ہمیشہ سے قربت اور گرمجوشی رہی ہے اور ان تعلقات میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تعاون کو مزید تقویت ملی ہے۔

گذشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان کی کمزور معیشت کو سہارا دینا ہو، توانائی بحران سے نکالنا ہو یا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی ادائیگی کا معاملہ ہو پاکستان نے ہمیشہ چین ہی کی طرف دیکھا ہے۔

اسی طرح دفاع کی سطح پر بھی چین پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو بڑھانے میں بھی ہمیشہ معاون رہا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے اسلحے، میزائل، توپ خانے، الخالد ٹینک یا جے ایف تھنڈر جیسے جنگی طیاروں کی تیاری کا عمل ہو یا فوجیوں کی تربیت و ٹریننگ، چین کا نام ہمیشہ اس سے جوڑا گیا۔

پاکستان

اگر ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو پاکستان کی عسکری ہارڈویئر، عام استعمال کے موبائل فونز، گھریلو برقی آلات سے لے کر صنعتوں میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی تک چین سے برآمد کردہ ہے۔

حال ہی میں کووڈ وبا کے دوران پاکستان کو مغربی ممالک کی جانب سے ویکسین کے حصول میں مشکل وقت میں چین نے سب سے پہلے پاکستان کو اپنی تیار کردہ ویکیسن فراہم کی تھی۔

’چین پاکستان کی لائف جیکٹ ہے‘

بین الاقوامی امور کی ماہر و تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’چین پاکستان کے لیے لائف جیکٹ ہے۔ چین پاکستان کی بقا کی سٹریٹیجی میں بہت اہم ہے۔ اور چین نے پاکستان کے لیے یہ کردار بھرپور طریقہ سے نبھایا ہے۔‘

ہما بقائی کا کہنا تھا کہ ’اگر چین پاکستان اقتصادی راہدری منصوبے کی بات کریں تو جس وقت چین نے پاکستان میں اقتصادی راہداری کے منصوبے کا آغاز کیا اس وقت پاکستان ناصرف عالمی تنہائی کا شکار تھا بلکہ اسے معاشی تنہائی کا سامنا بھی تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’چین نے جس طرح سے اس وقت پاکستان کی مدد کی اس نے چین کو اپ فلوٹ رکھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کے جو سٹرٹیجک مفادات ہیں، بالخصوص پاکستان کا ایٹمی پروگرام جس پر اس وقت پاکستان کی بدحال معاشی صورتحال کے باعث سوالات اور تحفظات اٹھائیں جا رہے ہیں، وہاں پر بھی چین نے ہی بیل آؤٹ کیا ہے۔‘

ہما بقائی کا کہنا تھا کہ ’اگر خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں تو وہاں بھی چین پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ وہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف موقف ہو، ایف اے ٹی ایف کا معاملہ ہو یا انڈیا اور امریکہ کے بڑھتے تعلقات ہوں، چین ہر موقع پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اب اس بارے میں کُھل کر بات کرتا ہے اور عالمی سطح پر چین کے ساتھ تعلقات یا اس کے اثر و رسوخ پر اس کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اب تواتر کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ ہماری معاشی پالیسی میں جیو اکنامک تھرسٹ ہے جو براہ راست اقتصادی راہداری کی سیاست کا ثمر ہے اور دوسری اہم بات پاکستان یہ کہتا ہے کہ اب وہ چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن چاہتا ہے۔‘

عمران خان

ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا تھا کہ ’اب عالمی سطح پر پاکستان واضح طور پر کہتا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا سٹرٹیجک اتحادی چین ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس دوستی میں مزید مضبوطی آتی جا رہی ہے کیونکہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر چین نے کبھی عوامی سطح پر پاکستان کی تذلیل نہیں کی جبکہ امریکہ کئی بار عالمی سطح پر پاکستان کی عوامی سطح پر تذلیل کر چکا ہے اور بعدازاں حالات ٹھیک کرنے کے لیے سفارتی روابط شروع کر دیے جاتے ہیں۔‘

ہما بقائی کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بڑی اہم وجہ ہے جو ہمیں مزید چین کی جانب راغب ہونے پر مجبور کرتی ہے۔‘

پاکستان میں چینی انجینیئرز پر حملوں اور انھیں ملک میں جاری چینی منصوبوں میں روزگار کے زیادہ مواقع حاصل ہونے ہونے جیسے اعتراضات پر بات کرتے ہوئے ہما بقائی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے اندرونی حالات کے باوجود چین نے ہمیشہ پاکستان کو اہمیت دی ہے، اس کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔‘

چین پاکستان تعلقات اور تنازعات

پاکستان کی اندرونی سیاست پر اثر انداز ہونے، گوادر میں بندرگاہ کو مقامی آبادی کے لیے محدود کر دینے، پاکستانی معاشرے میں خواتین کے ساتھ شادی کر کے ان سے چین میں مبینہ طور پر جسم فروشی کروانے جیسے واقعات کے سوال پر ہما بقائی کا کہنا تھا کہ ’جب آپ کے کسی ملک سے تعلقات بہت زیادہ ہوتے ہیں تو ایسے واقعات ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جب امریکہ کے ساتھ تعلقات خوشگوار تھے تو اس وقت یہاں ریمنڈ ڈیوس جیسے واقعات ہوئے، سلالہ چیک پوسٹ کا واقع ہوا، ملک میں بہت سے امریکی شہریوں کو بنا اجازت اور مکمل جانچ پڑتال ویزا جاری کیے جانے کے انکشافات ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے سکینڈلز صرف پاکستان اور چین تعلقات میں ہی نہیں بلکہ گذشتہ 70برسوں کے دوران پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بھی سامنے آئے ہیں۔‘

ہما بقائی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور چین کے تعلقات کو مغربی پروپیگنڈا میں ڈیبٹ ڈپلومیسی یعنی قرض پر مبنی سفارتکاری سے بھی تشبیہ دی گئی مگر یہ بات کوئی نہیں کہتا کہ اس وقت بھی ہم چین کے مقابلے میں مغربی قوتوں کے زیادہ مقروض ہیں۔‘

پاکستان

ان کا کہنا تھا کہ ’جب ضرورتوں کے نظریے کے تحت رشتے تھے تو اس وقت امریکہ پاکستان کی آمر حکومتوں کو بھی قبول کرتا تھا۔‘

چین کے پاکستان پر اثر و رسوخ کا مطلب کیا ہے؟

چین کے پاکستان پر اثر و رسوخ سے پاکستان کو عالمی سطح پر کن اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس بارے میں بات کرتے ہوئے صحافی و تجزیہ کار خرم حسین کا کہنا تھا کہ ’چین کا دوسرے ممالک میں جا کر تعلقات بنانا اور اپنی موجودگی ثابت کرنے کے پیچھے اولین مقصد اس کی فوڈ سکیورٹی کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چین سنہ 2007 سے اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دنیا پر انحصار کر رہا ہے اور اپنی آمدن کا ایک حصہ خوراک درآمد کرنے پر صرف کر رہا ہے۔ اس لیے وہ پاکستان سمیت دنیا کے ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ چین نے پاکستان میں بہت سرمایہ کاری کی ہے اور اپنے ون بیلٹ منصوبے کے تحت ملک کے روڈ انفراسٹریکچر کو بہتر بنایا ہے مگر پاکستان میں چین کی نظر گوادر بندرگاہ یا معدنی وسائل نہیں ہے بلکہ پاکستان کی زراعت ہے۔‘

پاکستان

ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں ’چین کو پاکستان کی زرعی وسائل حاصل کرنے میں مشکل پیش آئی ہے لیکن ان کی ہمیشہ سے نظر اس پر رہی ہے۔‘

خرم حسین کا کہنا تھا کہ ’جیسے جیسے پاکستان کے معاشی، دفاعی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے تعلقات بڑھتے چلے جائیں گے تو پاکستان عالمی سطح پر چین کی سیٹلائٹ بنتا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے لیے ایک مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے تارکین وطن زیادہ تر عرب ممالک اور مغربی ممالک میں جاتے ہیں اس لیے پاکستان کو ترسیلات زر بھی مغربی اور عرب ممالک سے حاصل ہوتی ہیں۔‘

خرم حسین کے مطابق ’اس لیے پاکستان مغرب سے کما کر درآمدات کی مد میں چین میں خرچ کرتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان جیسے جیسے چین کی سیٹلائٹ بنتا جائے گا اس کا دنیا کے ساتھ تعلق خراب ہوتا جائے گا اور مستقبل میں یہ مسئلہ پاکستان کے لیے ایک مشکل کھڑی کر سکتا ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *