پاکستان ٹیم میں شامل مسٹری سپنر ابرار احمد جن کی ’انگلیوں میں بہت جان ہے
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب ہو سکے گی یا نہیں؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ٹیم کے کپتان بین سٹوکس پاکستان آتے ہی سب کے دل جیتنے میں ضرور کامیاب ہوگئے ہیں۔
بین سٹوکس نے پاکستان کے خلاف ہونے والی تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کی اپنی تمام میچ فیس پاکستان میں سیلاب زدگان کے امدادی فنڈ میں دینے کا اعلان کر دیا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم جب آخری بار سنہ 2005 میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے پاکستان آئی تھی تو اس وقت پاکستان زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں مصروف تھا اور اس وقت بھی انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے کپتان مائیکل وان اور مارکس ٹریسکوتھک نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں جا کر زلزلہ متاثرین میں کھانے پینے کی اشیا اور ادویات تقسیم کی تھیں۔
انگلینڈ کے کرکٹرز نے اسلام آباد کے ہسپتال میں زلزلے کے متاثرین بچوں سے بھی ملاقات کی تھی۔
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم چونکہ سترہ سال کے طویل عرصے کے بعد ٹیسٹ سیریز کھیلنے پاکستان آئی ہے لہٰذا دونوں ٹیموں میں غیرمعمولی جوش و خروش دکھائی دے رہا ہے۔
تین میچوں کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ یکم دسمبر سے راولپنڈی میں کھیلا جائے گا۔
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے دورے پر آنے سے قبل یہ سوال بھی بڑی اہمیت اختیار کرگیا تھا کہ کیا ملک کے سیاسی حالات خصوصاً عمران خان کے دھرنے کے سبب پنڈی ٹیسٹ کو کراچی منتقل تو نہیں کرنا پڑے گا؟
اگرچہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے مقتدر حلقوں کے گرین سگنل کی بنیاد پر پہلا ٹیسٹ طے شدہ پروگرام کے تحت راولپنڈی میں ہی کھیلنے کا اعلان کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ اور برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر کو عمران خان سے ملاقات کرنی پڑی تھی جس میں عمران خان نے ان دونوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے جلسے سے راولپنڈی ٹیسٹ متاثر نہیں ہوگا۔
انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لیے پاکستان کی جس 18 رکنی ٹیم کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس میں دو نئے کھلاڑی فاسٹ بولر محمد علی اور سپنر ابرار احمد پہلی بار شامل ہوئے ہیں ان میں ابرار احمد خاص طور پر سب کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ روایتی سپنر نہیں ہیں بلکہ وہ لیگ بریک گگلی کےساتھ ساتھ کیرم بال بھی کر لیتے ہیں۔
ابرار احمد نے اس سیزن کی قائداعظم ٹرافی میں 43 وکٹیں حاصل کی ہیں جو اس سال کسی بھی بولر کی سب سے زیادہ وکٹیں ہیں اور یہی کارکردگی ان کی پاکستانی ٹیم میں پہلی بار شمولیت کا سبب بنی ہے۔
’پھر میں کھیلنے لگا اور بھائی دیکھنے لگے‘
24 سالہ ابرار احمد کے والد کا تعلق شنکیاری سے ہے جبکہ ان کی والدہ لاہور سے تعلق رکھتی ہیں۔
والد کا ٹرانسپورٹ کا کام ہے اور یہ فیملی کافی عرصے سے کراچی میں مقیم ہے۔
ابرار احمد کی پیدائش کراچی کی ہے انھوں نے کرکٹ اپنے علاقے جہانگیر روڈ کے گلی محلے کی ٹینس بال سے شروع کی۔
ابرار احمد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’میں بچپن میں بہت شرارتی تھا۔ گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کا اگر فائدہ ہے تو نقصان بھی ہے۔ ایک بھائی کا کام کرو تو دوسرے نے بھی کام کرانا ہوتا تھا لیکن میں اپنے بچاؤ کے لیے امی کو آگے کردیتا تھا۔‘
ابرار احمد بتاتے ہیں ’میرے بڑے بھائیوں کو کرکٹ کا شوق تھا۔ وہ نشتر پارک اور دوسرے میدانوں میں جا کر کھیلا کرتے تھے میں وہاں جا کر بیٹھ جاتا اور انھیں کھیلتے ہوئے دیکھا کرتا تھا۔
’پھر وہ وقت بھی آ گیا جب میں کھیل رہا تھا اور بھائی مجھے دیکھ رہے تھے۔‘
کراچی کے کئی نوجوان کرکٹرز کی طرح ابرار احمد کے ابتدائی کریئر میں کوچ محمد مسرور کا عمل دخل نمایاں ہے جنھوں نے ان میں چھپا ہوا ٹیلنٹ دیکھ کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔
محمد مسرور کے کہنے پر ہی راشد لطیف نے ابرار احمد کو اپنی کرکٹ اکیڈمی میں بھی شامل کیا تھا۔
ابرار احمد کہتے ہیں ’میں نے سنا تھا کہ جب آپ کسی اکیڈمی میں جا کر کھیلتے ہیں تو آپ کو فیس وغیرہ کے پیسے دینے پڑتے ہیں لیکن ڈسٹرکٹ کی سطح پر میری بولنگ اتنی اچھی تھی کہ اس زمانے میں مجھ سمیت تین چار کرکٹرز ایسے تھے جنھیں راشد لطیف اکیڈمی کی طرف سے ہر ماہ سات ہزار روپے ملتے تھے۔‘
کزنز نے والد کو قائل کیا
ابرار احمد بتاتے ہیں ’اگرچہ میرے بڑے بھائی بھی کرکٹ کھیلتے تھے اور مجھے بھی بہت شوق تھا لیکن میرے والد چاہتے تھے کہ میں پڑھائی پر توجہ دوں مگر میں کرکٹ میں کچھ کرنا چاہتا تھا۔
’جب میرا نام ڈسٹرکٹ کی ٹیم میں آیا تو میں نے اپنے کزن شفیق سے کہا کہ آپ میرے والد سے بات کریں کہ وہ مجھے کھیلنے کی اجازت دے دیں۔ میرے کریئر کا وہ سب سے اہم لمحہ تھا جب میرے کزن نے والد کو قائل کرلیا۔
’انھوں نے میرے والد سے کہا کہ ابرار کو ایک سال دے دیں اس دوران اگر وہ کچھ کرلیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ آپ کے کہنے پر عمل کر لے گا۔‘
ابرار احمد کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ وہ صرف محدود اوورز کی کرکٹ میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن یہ کوچ مسرور ہی تھے جنھیں اس بات کا یقین تھا کہ ابرار احمد ریڈ بال کرکٹ میں بھی کامیاب ثابت ہو سکتے ہیں تاہم کراچی کے ایک سلیکٹر انھیں موقع دینے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے اور انھوں نے راشد لطیف سے رابطہ کیا تو ان کا جواب تھا کہ محمد مسرور جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے چنانچہ وہ ریڈبال کی ٹیم میں بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
’جو کرنا ہے وہ انگلیوں نے کرنا ہے‘
ابرار احمد کی ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی سے کوچ مکی آرتھر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔
ابرار احمد کہتے ہیں کہ ’میں سنہ 2017 کی پاکستان سپر لیگ میں کراچی کنگز کی طرف سے دو میچ کھیلا تھا اگرچہ میں کوئی وکٹ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا لیکن پشاور زلمی کے خلاف میچ میں اوئن مورگن کے خلاف میرے سپیل سے مکی آرتھر، کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے بہت متاثر ہوئے تھے۔‘
بدقسمتی سے ان کی کمر میں ہیئر لائن فریکچر ہو گیا اور میں تقریباً دو سال کرکٹ سے دور رہا لیکن اس عرصے میں مکی آرتھر نے مجھ پر بہت توجہ دی اور مجھے چالیس روز نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں رکھ کر میری فٹنس کی بحالی پر کام کروایا۔‘
ابرار احمد کہتے ہیں کہ ’وہ دو سال بہت مشکل تھے لیکن میں نے خود سے یہی کہہ رکھا تھا کہ مجھے صرف فٹ ہونا ہے کیونکہ جو کرنا ہے وہ انگلیوں نے کرنا ہے۔‘
ابرار احمد کہتے ہیں ’میں نے پروفیشنل کرکٹ میں آنے کے بعد ویسٹ انڈیز کے سنیل نارائن اور سری لنکا کے اجانتھا مینڈس کی وڈیوز باقاعدگی سے دیکھی ہیں کہ یہ دونوں بولرز کس طرح بیٹسمینوں کو ٹریپ کرتے ہیں۔‘
کوچ محمد مسرور کہتے ہیں کہ ’ابراراحمد کی انگلیوں میں بڑی جان ہیں اور وہ یکساں مہارت سے گیند کو اندر بھی لے آتے ہیں اور باہر بھی نکالتے ہیں جیسا کہ اجانتھا مینڈس اور افغانستان کے مجیب الرحمن کرتے رہے ہیں۔ وہ ایک مکمل پیکج ہیں انھیں وکٹیں لینے کا فن خوب آتا ہے۔