پاکستان میں مقامی پروازوں کے کرایوں میں اضافے کی وجہ طلب اور رسد میں فرق یا مہنگا پیٹرول؟
پاکستان میں مقامی پروازوں کے کرایوں میں حالیہ عرصے کے دوران بڑا اضافہ ہوا ہے جس سے موسم گرما کی تعطیلات اور سیاحت کے سیزن کے اواخر میں مسافروں کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر میں اضافہ شامل ہیں۔
اگرچہ مقامی پروازوں کے کرائے کئی گنا بڑھے ہیں مگر یہ اضافہ طلب اور رسد میں فرق سے بھی جڑا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے نے پہلی بار دبئی اور سکردو کے درمیان براہ راست بین الاقوامی پروازیں شروع کی ہیں۔
پی آئی اے کی ویب سائٹ کے مطابق 14 اگست کو دبئی سے سکردو پہلی براہ راست پرواز کی اکانومی ٹکٹ قریب 45 ہزار روپے میں دستیاب ہے اور یہ قیمت بعض مقامی پروازوں کے نرخ سے کم بنتی ہے۔
’تعطیلات ختم ہونے کے قریب، مقامی پروازوں کی طلب میں اضافہ‘
ارشاد غنی ماضی میں قومی ایئر لائن پی آئی اے کے شعبہ مارکیٹنگ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی پروازوں کی ٹکٹیں مہنگی ہونے کا تعلق ڈالر اور پیٹرول کی قیمتوں سے ہے جو ایئر لائنز کے کنٹرول میں نہیں۔
بی بی سی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ قیمتیں طلب میں اضافے کی وجہ سے بڑھی ہیں تو اگلے ماہ کم بھی ہونی چاہییں۔
کراچی میں ٹریوو کام نامی کمپنی کے ساتھ منسلک عامر خان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’آج رات کراچی سے لاہور یک طرفہ پرواز کی ٹکٹ 50 ہزار روپے کی ہے۔۔۔ جولائی میں یہ ون وے فیئر 20 ہزار کے قریب تھا۔‘
ان کے مطابق بعض بجٹ ایئرلائنز، جیسے فلائی جناح اور ایئر سیال، اس روٹ کے لیے قریب 30 ہزار روپے کرایہ وصول کر رہی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ جولائی کے وسط میں اسلام آباد سے کراچی کا کرایہ ڈالر کی قدر میں کمی کے باعث 20 ہزار کے قریب آ گیا تھا۔ مگر اب اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہر دن کے حساب سے مقامی پروازوں کے کرایوں میں چھ، آٹھ ہزار کا فرق تو آتا ہی ہے۔ مگر اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے۔
تو اس کی وجہ کیا ہے؟ عامر کے مطابق اس بار پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ مقامی پروازوں کے کرائے بھی بڑھ گئے ہیں۔
مگر ان کی رائے میں مقامی پروازوں کے کرایوں کا انحصار طلب پر ہوتا ہے۔ یعنی عید، بچوں کی چھٹیوں یا سیاحوں کے سیزن میں کرائے عموماً زیادہ رہتے ہیں اور اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کئی سیاح شمالی علاقوں کا رُخ کر رہے ہیں یا پھر اپنے دورے کے اختتام پر واپس اپنے شہروں کی جانب روانہ ہو رہے ہیں۔
اس سوال پر کہ آیا کرایوں میں اضافہ عارضی ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ ’کرایہ ایک بار بڑھ جائے تو کم ہونے کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔‘
ادھر الویر ایئرویز کی چیئر پرسن ہما بتول نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ ان کی ایئر لائن کے آپریشنز شروع ہونے میں تاخیر ہوئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر بہت کم ہوگئی ہے جس سے طیاروں کے آپریشنل اخراجات بڑھے ہیں اور ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کے باعث رسک فیکٹر بڑھ گیا ہے۔
کیا مقامی روٹ پر چھوٹے جہاز چلائے جانے سے کرائے بڑھے؟
ٹریول ایجنٹ عامر خان کے مطابق قیمتوں میں اضافے کا فرق بین الاقوامی سفر پر بھی پڑا ہے۔ پی آئی اے کی ویب سائٹ کے مطابق اسلام آباد یا کراچی سے دبئی کا کرایہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک پہنچ گیا ہے۔
وہ مسافروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ ایمرجنسی نہ ہونے کی صورت میں وہ پروازوں کی ایڈوانس بُکنگ کریں تاکہ انھیں زیادہ کرائے نہ دینا پڑیں۔
’اگر آپ عین وقت پر پرواز بُک کریں گے تو یقیناً اس کا کرایہ زیادہ ہی ہوگا۔‘
خیال رہے کہ پی آئی اے نے رواں ماہ سکردو اور دبئی کے درمیان پہلی بار ڈائریکٹ بین الاقوامی پروازوں کا آغاز کیا ہے۔
تاہم ارشاد غنی کے مطابق اس منصوبے کی بزنس سینس اس لیے نہیں بنتی کیونکہ اس روٹ کی پہلے سے کوئی مانگ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں کراچی سے سکردو کے لیے بھی پروازیں شروع کی گئی تھیں مگر انھیں بند کرنا پڑا۔
ان کے مطابق بظاہر یہ کاروباری سے زیادہ سیاسی فیصلہ معلوم ہوتا ہے جس سے ملک میں بین الاقوامی فضائی اڈوں کی تعداد تو بڑھ جائے گی مگر طویل مدت میں شاید اس پر زیادہ لوگ سفر نہ کر سکیں۔
ارشاد غنی کے مطابق یہ بات درست نہیں کہ مقامی پروازوں کے لیے صرف چھوٹے جہاز چلائے جانے سے کرائے بڑھ رہے ہیں کیونکہ عموماً دنیا بھر میں یہی جہاز ڈومیسٹک فلائٹس کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر بڑے جہازوں کو مقامی پروازوں کے لیے چلایا جائے تو اس سے مینٹیننس کے مسائل پیدا ہوتے ہیں کیونکہ یہ طویل سفر کے لیے بنے ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پی آئی اے کی مجبوری رہی ہے کہ اس کی جانب سے ڈومیسٹک روٹ کے لیے بڑے طیارے استعمال کیے جاتے تھے۔