پاکستان تحریک انصاف کا تین سالہ دور حکومت آٹے، گھی اور چینی کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا؟
2018 میں میری ماہانہ آمدن 25 ہزار روپے تھی۔ کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن ہوا اور میری نوکری چلی گئی۔ دوبارہ کام تو ملا مگر اب میری آمدن 15 ہزار روپے ہے۔۔۔ مگر دوسری جانب 2018 کے مقابلے میں2021 میں آٹا، چینی، گھی وغیرہ کی قیمتیوں میں زمین آسمان کا فرق آ چکا ہے۔‘
یہ کہنا ہے کراچی کے ضلع وسطیٰ کے رہائشی محمود احمد کا جو سنہ 2018 میں میٹرو کیب چلاتے تھے۔ انھیں اس ملازمت سے ماہانہ لگ بھگ 25 ہزار آمدن ہوتی تھی لیکن دنیا بھر کی طرح پاکستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن اور اس کی وجہ سے کاروبار کی بندش نے جہاں بہت سارے پیداواری و تجارتی شعبوں کو متاثر کیا تو محمود احمد جس کمپنی کی میٹرو کیب چلاتے تھے وہ بھی شدید متاثر ہوئی۔
بیرونی و اندرونی ملک فلائٹ آپریشنز معطل ہونے کی وجہ سے میٹرو کیب کا کام ٹھپ ہوا تو کمپنی نے اپنے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا۔ محمود احمد بھی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
آج وہ روزانہ اجرت کی بنیاد پر ایک ٹیکسی چلاتے ہیں اور فقط پانچ سے سات سو ہی کما پاتے ہیں۔
محمود نے بتایا کہ جہاں ایک طرف ان کی آمدن گری تو دوسری جانب روزمرہ کی چیزوں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ گھی، چینی اور آٹے کی قیمت میں تین سال میں اضافے کی وجہ سے ان کا گھریلو بجٹ بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ محمود احمد 2018 میں چینی 55 سے 60 روپے کے درمیان خرید رہے تھے اور اب تین سال کے بعد انھیں چینی 110 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔
سنہ 2018 میں وہ 37 روپے فی کلو کے حساب سے مل کا آٹا خرید رہے تھے جو اب انھیں 52 سے 53 روپے کا مل رہا ہے۔ گھی کا ایک لیٹر کا پیکٹ وہ 180 روپے میں خرید رہ تھے جو آج وہ 340 روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں مہنگائی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے تو دوسری جانب آبادی کے مختلف طبقات کی آمدن کم ہوئی ہے۔ اگر کورونا کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی میں کمی ہوئی ہے تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی نے بھی پاکستانیوں کی فی کس آمدنی کو شدید متاثر کیا ہے۔
معاشی تجزیہ کار اور ماہرین عالمی سطح پر آٹے، گھی اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ داخلی سطح پر پرائس کنٹرول کے کمزور نظام اور ڈالر کی قیمت میں ہونے والے مسلسل اضافے کو بھی ان تینوں بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
آٹے، گھی، چینی کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا؟
ملک میں ان تین اشیا کی قیمتوں میں گذشتہ تین سال کے دوران بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق اگست 2018 میں چینی کے پچاس کلو بیگ کی قیمت 2600 روپے تھی جو اگست 2021 کے اختتام تک 5000 تک پہنچ گئی۔ چینی کی خوردہ قیمت اگست 2018 میں ساٹھ روپے تھی جو اب بڑھ کر 110 روپے ہو چکی ہے۔
اگست 2018 میں مل آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 740 روپے تھی جو اگست 2021 کے اختتام تک 1150 روپے سے تجاوز کر گئی۔ اسی طرح گھی و خوردنی تیل کے پانچ لیٹر کی قیمت اگست 2018 میں 900 روپے تھی وہ اگست 2021 کے اختتام تک 1700 روپے سے تجاوز کر گئی۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور معاشی ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگر گذشتہ تین سال میں مجموعی طور پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ہونے والا اضافہ اوسطاً چالیس فیصد ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اگر صرف اٹے، گھی اور چینی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو لیا جائے تو یہ تقریباً 50 فیصد تک ہے۔
انھوں نے بتایا کہ خاص کر دسمبر 2020 کے بعد یہ قیمتیں بہت زیادہ بڑھی ہیں اور کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاون کے خاتمے کے بعد ان چیزوں کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
تین سال میں آمدن میں کتنا اضافہ ہوا؟
تین سال میں پاکستانیوں کی آمدن بڑھی یا کم ہوئی؟ اس بارے میں ڈاکٹر پاشا نے بتایا کہ اس عرصے میں 16 سے 20 فیصد آمدنی بڑھی تاہم دوسری جانب جب مہنگائی کی شرح دیکھی جائے تو یہ 35 سے 40 بڑھی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آمدنی اور مہنگائی میں 20 سے 24 فیصد کا فرق آیا ہے یعنی یہ فرق آمدن میں کمی کی صورت میں آیا۔
عارف حبیب میں کموڈٹیز کے شعبے کے چیف ایگزیکٹیو احسن محنتی نے اس سلسلے میں بتایا کہ تین سال میں ڈالر ٹرم میں پاکستانیوں کی آمدن گری ہے۔ اس عرصے میں ڈالر کی قیمت میں ستر فیصد اضافہ ہوا اور جب اس اضافے کو پاکستانی روپے میں لیا جاتا ہے تو اس سے پاکستانیوں کی فی کس آمدن میں کمی واقع ہوئی۔
آٹے، چینی اور گھی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ کیا؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے معاشی ماہرین اسے بین الاقوامی کے ساتھ داخلی وجوہات سے بھی جوڑتے ہیں۔
احسن محنتی نے اس سلسلے میں بتایا کہ اس عرصے میں عالمی سطح پر ان چیزوں کی قیمتوں میں 20 سے 25 فیصد اضافہ ہوا تاہم پاکستان میں اس اضافے کا اثر دگنا ہوا اور ان کی قیمتیں 60 سے 70 فیصد بڑھ گئیں جس کی سب سے بڑی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے کیونکہ پاکستان پام آئل کے ساتھ اب گندم اور چینی بھی ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے درآمد کر رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ تین سال میں روپے نے بہت تیزی سے اپنی قدر کھوئی۔
ڈاکٹر پاشا نے اس سلسلے میں داخلی پالیسیوں کو بھی اس کی وجہ قرار دیا۔
انھوں نے بتایا کہ ’کورونا کی وجہ سے عالمی سطح پر جب طلب میں کمی آئی تھی تو اس کی وجہ سے قیمتیں گری تھیں جس کی ایک مثال خام تیل کی قیمت ہے جب وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں 35 ڈالر فی بیرل تک گر گئی تھیں تاہم دسمبر 2020 سے جب کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی پابندیوں میں نرمی ہوئی تو اب وہی قیمت 70 ڈالر فی بیرل تک واپس چلی گئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر صرف دسمبر 2020 سے لے کر اب تک پام آئل کی قیمت کو لیا جائے تو اس کی قیمت ڈالر میں 80 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔
’ڈالر کی پاکستان میں زیادہ قیمت ہونے کی وجہ سے اس کا اثر براہ راست عام آدمی پر پڑتا ہے جب اسے مہنگا درآمدی گھی خریدنے کو ملے گا۔ اسی طرح چینی اور گندم بھی درآمد ہو رہی ہے جو ڈالر کی زیادہ قیمت کی وجہ سے مہنگی مل رہی ہیں۔‘
ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ بین الاقوامی وجوہات کے ساتھ ملک میں پرائس کنٹرول کا کوئی نظام بھی موجود نہیں جو ناجائز منافع خوری کو روک پائے۔
انھوں نے کہا آج سے پچاس سال قبل پرائس کمیٹیاں بہت مؤثر انداز میں قمیتوں کی نگرانی کرتی تھیں تاہم اب ایسا کوئی میکنزم موجود نہیں۔
انھوں نے ملکی سطح پر سپلائی سائیڈ کے مسائل کو بھی مہنگائی کی ایک وجہ قرار دیا۔
کیا حکومتی اقدامات آٹے، چینی اور گھی کی قمیتوں کو کم کر پائیں گے؟
پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعلان کیا ہے کہ حکومت آٹے، چینی اور گھی کی قیمتوں پر براہ راست کیش سبسڈی دے گی تاکہ ان اشیا کو غریب آدمی کی قوت خرید میں لایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا اس سکیم کے ذریعے 40 سے 44 فیصد آبادی فائدہ اٹھا سکے گی۔
احسن محنتی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے رہ رہی ہے۔
’یوٹیلٹی سٹور کے ذریعے اس آبادی کا 25 فیصد حصہ فائدہ اٹھاتا ہے تو اسی طرح احساس پروگرام کے ذریعے بھی اسے آبادی کے اس حصے کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔‘
دوسری جانب ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ ’ہمارے وزیر خزانہ کا دل تو بڑا ہے لیکن وہ ایک ایسے ملک میں ایسا کیسے کر پائیں گے جس کا بجٹ خسارہ بہت زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں وہ آئی ایم ایف کو کیسے قائل کریں گے۔‘
ڈاکٹر پاشا نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ غریب طبقے کو آٹے، چینی اور گھی کی قیمتوں میں ریلیف دینے کے لیے صحیح طریقہ تو یہ ہے کہ ان پر لگنے والے ٹیکسوں کو ختم کر دیا جائے لیکن ’عجیب ہے کہ گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی کر دی گئی ہے۔‘
ڈاکٹر پاشا نے تجویز دی کہ حکومت کو چاہیے کہ کسی نہ کسی ذریعے سے 800 ارب روپے کا بندوبست کرے تاکہ آٹے، چینی اور گھی کی قیمتوں پر سبسڈی دی جائے تاکہ اسے کم نرخوں پر کم آمدنی والے طبقے کو فراہم کیا جا سکے۔