پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز ہیرو نعمان علی ہوں گے، یاسر شاہ کہ بارش؟
دیگر کھیلوں کے برعکس کرکٹ کو اپنی کامیابی اور تسلسل کے لیے ہمیشہ مہربان موسموں کی محتاجی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر موسم کا مزاج برہم ہو تو بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا ہے۔
کچھ ایسا ہی پاکستان کے دورۂ ویسٹ انڈیز کے پہلے مرحلے میں ہوا۔ ایک ٹیسٹ میچ کی قربانی دے کر یہ طے کیا گیا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے دو اضافی ٹی ٹوئنٹی کھیلے جائیں گے لیکن آسٹریلیا سے ون ڈے سیریز کے دوران کورونا آڑے آیا اور پانچ میں سے ایک ٹی ٹوئنٹی اس کی نذر ہو گیا۔
باقی بچے چار میچوں کی قسمت دیکھیے کہ کریبئین جزائر کے متلون مزاج موسم کے کرم سے تین میچ شروع ہوتے ہی یا شروع ہوئے بغیر بھی ختم ہو گئے۔ سو، جس مقصد کی خاطر اس ٹیسٹ چیمپیئن شپ سائیکل کے ایک اہم میچ کی قربانی دی گئی، وہ مقصد بھی پورا نہ ہو پایا۔
آج شب کنگسٹن میں شروع ہونے والے ٹیسٹ میچ کے آغاز سے پیشتر ہی مسلسل بارش کی نوید سنا دی گئی ہے جو اگرچہ وقفوں میں مگر میچ کے پانچوں ہی دن متوقع ہے۔
موسم کی ایسی صورتِ حال میں اگر دونوں ٹیمیں خوش قسمتی سے کچھ کرکٹ کھیلنے میں کامیاب ہو گئیں تو مقصود و منتہیٰ یقیناً ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے قیمتی پوائنٹس ہوں گے کہ جن کا حصول ابھی سے دونوں ٹیموں کی سمت متعین کرے گا۔ یاد رہے کہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے حالیہ سائیکل میں یہ دونوں ٹیموں کی پہلی سیریز ہے۔
ویسٹ انڈیز کی خوش بختی ٹھہری کہ جنوبی افریقہ کے خلاف بُری طرح کلین سویپ ہونے کے باوجود ان کی سٹینڈنگ پہ کوئی اثر نہ پڑا کہ وہ سیریز چیمپیئن شپ کا حصہ نہ تھی مگر بابر اعظم کی الیون کے سامنے ایسی کسی غلطی کی گنجائش نہ ہو گی۔
جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز کی فتح کے بعد اس ڈریسنگ روم نے زمبابوے کے خلاف بھی اپنا مورال اور مومینٹم برقرار رکھا ہے۔ کردار واضح ہو چکے ہیں اور کھلاڑی بھی اپنے کرداروں میں آسودگی سے ڈھلتے نظر آ رہے ہیں۔
بیٹنگ لائن کی بے اعتباری سے پہچانے جانے والی اس ٹیم کے لیے غنیمت یہ ہے کہ اب یہ غیریقینی صرف ٹاپ آرڈر کی دو پوزیشنز تک محدود ہو چلی ہے۔ اظہر علی، بابر اعظم، فواد عالم اور محمد رضوان پہ مشتمل مڈل آرڈر اپنے حصے کے رنز اور تجربہ بھی جوڑ چکا ہے۔
مگر حریف کیمپ میں سب سے بڑا مقامِ فکر ہی بیٹنگ ہے جو جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کی تمام اننگز میں پونے دو سو کے مجموعے کو بھی ترستی رہ گئی۔ کوچ فل سمنز کہتے ہیں کہ ان گہرے مسائل کی جڑیں ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے میں تلاش کرنا ہوں گی۔
کیونکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں ہی بڑے سکور کرنے کا رجحان نہیں ہے۔ طویل المیعاد منصوبہ بندی سے قطع نظر کریگ بریتھویٹ اور ان کے ساتھیوں کو اس سیریز میں اپنی ہستی کا جواز لانا ہو گا ورنہ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے پوائنٹس ان کی کوتاہ ہمتی کی قیمت چکائیں گے۔
بارش کے وقفوں کے بیچ جتنی بھی کرکٹ ممکن ہو پائی، اس میں سکورنگ ریٹ سست اور بالعموم سپنرز کا راج رہنے کا امکان ہے۔ گمان ہے کہ بابر اعظم بھی یاسر شاہ کے ساتھ نعمان علی کو کھلائیں گے اور فہیم اشرف شاید اس الیون کا حصہ نہ بن پائیں۔
پچھلی بار پاکستان یہاں 2017 میں ٹیسٹ سیریز کھیلا تھا جو مصباح و یونس کی آخری سیریز تھی اور اس پہ راج کیا تھا یاسر شاہ نے جو تین میچوں میں 25 وکٹیں بٹور کر پلیئر آف دی سیریز رہے تھے۔
اس بار دیکھنا یہ ہے کہ ہیرو نعمان علی ہوں گے، یاسر شاہ کہ بارش؟