پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش ایک معجزاتی فتح اور ایک ‘سپن سٹار’ کا جنم
جس میچ پر چار روز گہرے بادلوں کا سایہ رہا، بالآخر اس کا کلائمیکس ڈھاکہ کے ڈھلتے سورج کی مدھم روشنی میں ہوا۔ جو ایک یقینی ڈرا تھا، ایک یکسر معجزاتی فتح میں بدل گیا۔
اگرچہ پہلی اننگز میں بنگلہ دیش نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مگر یہ امکان پھر بھی کم ہی تھا کہ شکیب الحسن جیسے تجربہ کار کھلاڑی کے کریز پر ہوتے بھی یہاں نوبت فالو آن تک آ جائے گی۔
اس میں دو رائے نہیں کہ تمیم اقبال کی عدم موجودگی میں ٹاپ آرڈر کی ناتجربہ کاری بنگلہ دیشی مڈل آرڈر کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ لیکن بہرحال، تمیم کی غیر حاضری کے باوجود یہاں مشفق الرحیم، لٹن داس، مومن الحق اور شکیب الحسن کا تجربہ تو موجود تھا ہی۔
اگر بنگلہ دیش فالو آن سے بچ جاتا تو پاکستان کو دوبارہ بیٹنگ کرنی ہی پڑتی کیونکہ اننگز فورفیٹ کرنا بہت بڑا داؤ ہوتا جو کوئی بھی نیا کپتان اپنے گلے نہیں ڈالنا چاہتا۔ اگر پاکستان کو محض آدھے گھنٹے کے لیے ہی دوبارہ بیٹنگ کرنا پڑ جاتی تو مومن الحق کے لیے سکھ کا سانس ہوتا کہ کچھ وقت تو ’خرچ‘ ہو جاتا۔
لیکن ساجد خان نے یہاں کسی کی نہ چلنے دی۔
حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی نے پہلے 10 اوورز میں ہی پاکستان کو جیت کی ’بُو‘ سونگھا دی تھی اور ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے پوائنٹس اگر داؤ پر نہ ہوتے تو شاید کوئی کپتان ڈھیلا پڑ بھی جاتا مگر بابر اعظم ڈھیلے نہیں پڑے۔
بابر اعظم کی کپتانی اگرچہ عموماً قابلِ بحث رہتی ہے مگر یہاں اُنھوں نے سبھی مباحث کو چپ لگا دی۔ یہاں ان کی جرات، چستی اور حاضر دماغی لائقِ تحسین تھی۔ بولنگ میں ان کی تبدیلیاں کسی ذہین کپتان کی ذہانت کی عکاس تھیں کیونکہ وہ ڈرا کے سبھی امکانات اپنے ذہن سے محو کر کے میدان میں اترے تھے۔
کیونکہ جب مشفق الرحیم اور لٹن داس کی شراکت جمنے لگی تو یکبارگی گمان ہوا کہ شاید بنگلہ دیش اب پہلی اننگز کی غلطیاں نہیں دہرائے گا، اچھے سے کریز پر وقت گزاری کرے گا اور ڈرا کر کے بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مصداق چار پوائنٹس حاصل کر لے گا۔
مگر ساجد خان اپنی چالوں میں ایسی درستی اور مہارت دکھا رہے تھے کہ بعد ازاں جب شکیب الحسن اور مشفق الرحیم اس ڈوبتی ناؤ کو سہارا دیے کھڑے تھے، تب بھی بابر اعظم کی ساری توقعات ساجد خان سے ہی جڑی تھیں۔
اور جب وکٹوں کا کال پڑنے لگا تو بابر اعظم نے خود قسمت آزمائی کی۔ اور قسمت ہمیشہ دلیروں کی یاوری کرتی ہے۔ یہاں بابر بھی ویسے ہی خوش قسمت ثابت ہوئے اور اپنی پہلی ٹیسٹ وکٹ کے ساتھ، گرتی ہوئی دیوار میں ایک اہم دراڑ ڈال دی۔
ٹیسٹ کرکٹ دنیا کا خوبصورت ترین کھیل ہے۔ اور کسی بھی کھیل کے کسی بھی فارمیٹ میں اتنے دنوں کی مشقت یوں قسمت کے ایک فیصلے پر منحصر نہیں ہو ٹھہرتی جیسے یہاں پاکستان کی قسمت ایک بار پھر سورج کی ’منہ دکھائی‘ پر منحصر ہو کر رہ گئی۔
اور قسمت نے ایک بار پھر پاکستان کی ہی یاوری کی اور ساجد خان نے نہ صرف پاکستان کو ایک یادگار فتح سے ہمکنار کر ڈالا بلکہ پاکستان کو ایک نیا ’سپن سٹار‘ بھی دے دیا۔ وہ سپن سٹار جو حالیہ چیمپیئن شپ سائیکل میں بہت کلیدی ثابت ہو سکتا ہے۔