پاکستانی ٹیکسٹ بُکس کیا یہ درسی کتابیں ہندوؤں کے خلاف نفرت سکھا رہی ہیں؟
تصور کریں آپ کا نام عمران، عبداللہ یا عامر ہے اور آپ پاکستان میں رہتے ہیں۔ یقیناً ایسا کبھی نہیں ہوا ہو گا کہ انجان لوگوں سے پہلی ملاقات کے دوران آپ کو اپنا تعارف کراتے وقت سوچنا پڑا ہو۔ یا آپ کے ذہن میں یہ سوال آیا ہو کہ معلوم نہیں میرا نام سُننے کے بعد سامنے والے کا کیا ردِعمل ہو گا؟
لیکن اگر آپ کا نام کشور، مکیش یا آکاش ہے تو شاید کئی بار اپنا نام بتانا ہی آپ کے لیے سب سے مشکل مرحلہ بن جائے۔ کچھ معلوم نہیں کہ کب کون پوچھ بیٹھے کہ آپ انڈیا سے کب آئے؟ یومِ آزادی چودہ اگست کے بجائے پندرہ اگست کو منانے کا مشورہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو انڈیا پاکستان کرکٹ میچ میں جب انڈیا کی ٹیم اچھی کارکردگی دکھانے لگے گی تو یار دوست بھپتی کسیں گے کہ تیری ٹیم تو جیتنے لگی ہے۔
اِس کے علاوہ آپ کو بچپن اور نوجوانی کے کئی سال ایک ایسے عذاب سے بھی گزرنا پڑ سکتا ہے جہاں روز آپ کو اپنے ہندو ہونے پر ملال ہو گا۔ اس سب کا ممکنہ نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آہستہ آہستہ آپ خود کو کمتر، لاچار اور مجبور تصور کرنے لگیں گے۔
یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب آپ سکول، کالج اور یونیورسٹی میں معاشرتی علوم یا مطالعہِ پاکستان کی کتابیں پڑھنا شروع کریں گے۔ لیکن اِن کتابوں میں ایسا کیا ہو سکتا ہے جو ہندوؤں کے لیے دل آزاری کا باعث ہو؟ آئیے جانتے ہیں صوبہِ سندھ سے تعلق رکھنے والے چند پاکستانی ہندو اور مسلمان طلبا کی زبانی جنھوں نے یہ کتابیں اپنے زمانہِ طالبِ علمی میں پڑھی تھیں۔
’ظالم ہندو‘
ہم نے پچیس سے پینتیس سال کے چند نوجوان لڑکے لڑکیوں سے ملاقات کی اور جاننا چاہا کہ سکول کالج کے زمانے میں درسی کتابوں میں ایسی کون سی باتیں تھیں جو اُن کے لیے تکلیف کا باعث بنی تھیں۔
جواب میں اِن نوجوانوں نے کچھ درسی کتابوں کے اقتباسات دہرائے:
’تاریخ میں ہندوؤں نے مسلمانوں پر بہت ظلم کیا تھا۔‘
’کافر کا مطلب بتوں یا مورتیوں کی پوجا کرنے والا ہوتا ہے۔‘
’پہلے زمانے میں ہندو اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے۔‘
’انسانیت دشمن ہندو‘
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اِن نوجوانوں نے آنکھ کھولی تو اپنے اردگرد رواداری اور بھائی چارے کا ماحول دیکھا۔ دوستیاں اور محلے داریاں ہوں یا عیدین اور ہولی دیوالی کے تہوار، اِنھوں نے کم از کم ذاتی طور پر ہندوؤں اور مسلمانوں میں کسی قسم کا کوئی فرق محسوس نہیں کیا۔
لیک جب یہ طلبا گھروں سے نکل کر سکول اور کالج پہنچے تب پہلی بار اُنھیں خیال ہوا کہ اُن کے بیچ نفرت اور تعصب کے بیج بوئے جا رہے ہیں اور اِن کے مطابق اِس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں خود اُن کی درسی کتب ہیں۔
صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد کے راجیش کمار جو طب کے شعبے سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن بھی ہیں، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی گیارہویں اور بارہویں جماعت کی مطالعہ پاکستان کی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ کتاب اِنھوں نے کالج میں پڑھی تھی۔
’اُس کتاب کے صفحہ نمبر 33 پر لکھا تھا کہ انسانیت دشمن ہندوؤں اور سکھوں نے ہزاروں بلکہ لاکھوں عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو انتہائی بے دردی اور سنگدلی سے قتل کیا اور بے آبرو کیا۔‘
’مطلب یہ کہ اِن رائٹرز کے ذہن میں یہ پہلے سے ہی طے تھی کہ سکھ اور ہندو انسانیت دشمن ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کہیں فسادات ہوتے ہیں تو مارنے والے دونوں طرف ہوتے ہیں اور برابر کے قصوروار ہوتے ہیں۔‘
’مسلمانوں کے دشمن‘
نوجوان ڈاکٹر راجونتی کماری اپنی نویں اور دسویں جماعت کی مطالعہ پاکستان کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اِس کتاب میں ہندوؤں کو مسلمانوں کا دشمن بتایا گیا تھا۔
’اِس کتاب کے صفحہ نمبر 24 پر لکھا تھا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں نے مختلف تحریکوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کیا لیکن یہ اتحاد زیادہ دیر نہ چل سکا۔ ہندوؤں کی مسلمان دشمنی اجاگر ہو گئی۔‘
راجونتی سوال کرتی ہی کہ وہ خود ایک ہندو ہیں تو مسلمانوں کی دشمن کیسے ہو سکتی ہیں؟
’میں مسلمانوں کے ساتھ پلی بڑھی ہوں، میرے سارے دوست مسلمان ہیں۔ میں نے اُن کے اور اُنھوں نے میرے تہوار ایک ساتھ منائے ہیں۔ تو ہماری دشمنی کیسے ہو سکتی ہے۔‘
تعصب، نفرت اور حقارت
پاکستان کی آبادی کا 3.5 غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندو پاکستان کی آبادی کا تقریباً 1.5 فیصد ہیں۔
سنہ 2011 میں امریکی حکومت کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی سکولوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب ہندوؤں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے لیے تعصب اور نفرت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی اِس ریسرچ کے لیے ملک بھر میں پہلی سے دسویں جماعت تک پڑھائی جانے والی سو کتابوں کا جائزہ لیا گیا جبکہ سکولوں کا دورہ کر کے طلبا اور اساتذہ سے بات بھی کی گئی۔
تحقیق کے مطابق نصابی کتب پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کی وفاداری ہمسایہ ملک انڈیا سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اِس طرح طلبا میں یہ تاثر جڑ پکڑتا ہے کہ غیر مسلم پاکستانی غیر محبِ وطن ہیں۔
’ہندو ولن بن جاتا ہے‘
نامور ماہرِ تعلیم اے ایچ نیّر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں رائج درسی کتابوں میں ہندوؤں کے خلاف نفرت کا اظہار بالعموم ایک خاص پیرائے میں کیا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کی تاریخ بیان کرتے وقت دو سیاسی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان اختلافات کو مسلمانوں اور ہندوؤں کی لڑائی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
’اِس طرح ہماری نصابی کتابوں میں ہندو ولن بن جاتا ہے جو شاید پاکستان کے قیام اور اُس کے پیچھے موجود سیاست کو درست ثابت کرنے کی ایک کوشش ہے۔‘
اے ایچ نیّر نصابی کتابوں میں ایک اور اہم مسئلے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں ایک جانب اِن کتابوں میں مسلم تاریخ اور تمدن کو نمایاں انداز میں پیش کیا جاتا ہے وہیں ہندو تاریخ کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ مثلاً برِصغیر کی تاریخ اِس خطے میں مسلمانوں کی آمد سے شروع کی جاتی ہے لیکن اُس سے پہلے کے ہندو حکمرانوں کا ذکر حذف کر دیا جاتا ہے۔
کتابیں کیسے تیار کی جاتی ہیں؟
صوبہِ سندھ میں سرکاری سطح پر نصابی کُتب تیار کرنے کا ذمہ دار سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ ہے۔
ادارے کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل یوسف احمد شیخ نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اُنھیں نصاب ’بیورو آف کریکولم‘ کی طرف سے دیا جاتا ہے جس کے مطابق کتابیں تیار کی جاتی ہیں۔
’نصاب ملنے کے بعد ہم اپنے مصنفین کے پول میں سے رائٹرز کا انتخاب کر کے اُنھیں کتاب تیار کرنے کی ذمہ داری سونپتے ہیں۔ جب رائٹر کتاب لکھ لیتا ہے تو پھر ہمارے ایکسپرٹس اُس کو جانچتے ہیں۔ آخری مرحلے میں ’بیورو آف کریکولم‘ بھی کتاب پر نظرثانی کرتا ہے۔‘
یوسف احمد شیخ کے مطابق سندھ ٹیکسٹ بُک بورڈ ’بیورو آف کریکولم‘ کی طرف سے دیے گئے نصاب کے مطابق کتابیں تیار کرنے کا پابند ہے اور طے شدہ دائرہ کار سے باہر نہیں جا سکتا۔
’عورت کا کمتر مقام‘
گورنمنٹ سیکٹر میں ملازم اور اخباروں میں کالم لکھنے والی پرہ منگی کا تعلق شکار پور سے ہے۔ انھوں نے انٹرمیڈیٹ میں مطالعہِ پاکستان کی کتاب میں پڑھا تھا کہ ’تنگ نظری نے ہندو سماج کو مفلوج کر رکھا تھا۔ عورت کو فروتر مقام دیا گیا تھا۔‘
پرہ کے مطابق حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔ ہندو مذہب میں تو دیویوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ دُرگا ماتا اور کالی ماتا کہا جاتا ہے۔
’ہاں یہ ضرور ہے کہ آج کے زمانے میں عورت اپنا آپ منوانے کی جو جدوجہد کر رہی ہے وہ تو ہر مذہب اور ہر معاشرے میں جاری ہے۔ یہ تو پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ ہر جگہ عورت اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
راجونتی کماری کتابوں میں قائم کیے گئے اِس تاثر کو غلط ثابت کرنے کے لیے اپنی ذاتی زندگی کا حوالہ دیتی ہیں۔
’میری فیملی میں ہم پانچ بہنیں ہیں۔ تو میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہمارے والدین کا رویہ ہمارے ساتھ بُرا ہو۔ ہم سب بہنوں کو بہت عزت اور احترام دیا جاتا تھا۔ ہندو بیٹیوں کو گھر کی لکشمی کہتے ہیں کہ وہ برکت ہوتی ہیں گھر کی۔‘
راجیش کمار کے بقول دنیا کے تمام مذاہب بشمول ہندومت انسانی حقوق اور برابری کی بات کرتے ہیں۔
’جہاں تک ہندوؤں میں ذات پات کے نظام کا تعلق ہے تو وہ آج کے دور میں کم از کم پاکستان میں تو ختم ہو چکا ہے۔ اب یہ ’کاسٹ‘ نہیں بلکہ ’کلاس‘ کی تقسیم بن کر رہ گیا ہے۔‘
عوامی ردِعمل
سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل یوسف احمد شیخ کے مطابق نصابی کتابوں کی اشاعت کے بعد ادارے کو طلبا، والدین اور اساتذہ کی طرف سے آرا ملتی ہے۔ اِس فیڈبیک کو جانچا جاتا ہے اور اگر کتابوں میں تبدیلیوں کی ضرورت ہو تو وہ بھی کر دی جاتی ہیں۔
’چند سال پہلے ہمیں صوبہِ سندھ میں رائج معاشرتی علوم اور مطالعہِ پاکستان کی کچھ کتابوں پر مذہبی اقلیتوں کی طرف سے ردِعمل ملا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اِن کتابوں کے چند حصے غیر مسلموں کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اِس کے بعد مذکورہ کتابوں پر نظرثانی کی گئی اور قابلِ اعتراض مواد نکال دیا گیا۔‘
یوسف احمد شیخ کا دعویٰ ہے کہ سنہ 2017 میں پہلی سے آٹھویں جماعت تک کی کتابوں کو تبدیل کر دیا گیا تھا جبکہ اِس سال نویں اور دسویں کی کتابوں کو اپڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ اگلے سال گیارہویں اور بارہویں جماعت کی کتابوں پر نظرثانی کی جائے گی۔
’کاش میں سنجے نہ ہوتا‘
تھر پارکر سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی سنجے متھرانی کے نزدیک پاکستان میں ہندو بن کے رہنا نہایت مشکل کام ہے۔ وہ کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ کاش اُن کا یہ نام نہ ہوتا۔
’اگر کوئی ایسا شخص ہماری درسی کتابیں پڑھے جو پہلے کبھی کسی ہندو سے نہیں ملا تو یقیناً اُس کے خیالات ہندوؤں کے بارے میں متعصبانہ ہو جائیں گے۔ اور یہ ایسا رویہ ہے جو پاکستانی ہندوؤں کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔‘
راجونتی کماری کے مطابق وہ بچے جو درسی کتابیں پڑھتے ہیں، اُن کے نزدیک کتابوں میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہی سچ ہوتا ہے۔
’جو بچے دوسری، تیسری یا چوتھی جماعت میں ہیں اُنھیں کیا سمجھ آتا ہو گا کہ اصل تاریخ کیا ہے۔ اُنھیں جو محدود معلومات دی جاتی ہے اُس کی ہی بنیاد پر اُن کے نظریات قائم ہوتے ہیں۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہندو ہمارا دشمن ہے۔‘
پرہ منگی کے خیال میں بحیثیت قوم ہمیں اپنا رُخ طے کرنے کی ضرورت ہے۔
’ہر آنے والی نسل یہ کتابیں پڑھتی ہے اور ہندو دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا ہم نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کر رہے ہیں جو دوسرے مذاہب کے لوگوں سے نفرت کرے یا ایک مضبوط اور متحد قوم تشکیل دینا چاہتے ہیں۔‘
اصل تاریخ
سنجے متھرانی سمجھتے ہیں کہ اگر نصاب میں نامور پاکستانی ہندوؤں اور اُن کی کامیابیوں کا ذکر کیا جائے تو اِس طرح ناصرف ہندو طلبا اِن مضامین میں دلچسپی لیں گے بلکہ دیگر طلبا کی آگہی میں بھی اضافہ ہو گا۔ اِس طرح قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔
’بہت سی ایسی اہم پاکستانی ہندو شخصیات ہیں جن کا ذکر نصابی کُتب میں نہیں ملتا۔ مثلاً جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کا پہلا قومی ترانہ لکھا تھا لیکن اُن کا نام کہیں نہیں ہے۔ ہمارے رائٹرز کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کے بارے میں بھی لکھیں۔‘
ماہرِ تعلیم اے ایچ نیّر کے مطابق یکساں قومی نصاب کی تیاری کے ساتھ پاکستان میں رائج درسی کُتب تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اِن نئی کتابوں میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت دی جائے اور تاریخ کا ہر پہلو طلبا کے سامنے رکھا جائے۔
’ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو اصل تاریخ سے باخبر کرنا ہو گا۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ نصابی کتابوں کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں میں رواداری، بھائی چارے اور برداشت کے رویوں کو فروغ دیا جا سکے۔