پاکستانی شہری یورپ جانے کے لیے لیبیا کا خطرناک

پاکستانی شہری یورپ جانے کے لیے لیبیا کا خطرناک

پاکستانی شہری یورپ جانے کے لیے لیبیا کا خطرناک راستہ کیوں استعمال کر رہے ہیں؟

ہزاروں پاکستانی روزگار کی تلاش میں لیبیا کے راستے یورپ جا رہے ہیں۔ اس سفر کے دوران انھیں کشتی پر بھی سوار ہونا پڑتا ہے۔ لوگوں کو یونان میں جون کے مہینے میں ایسے مسافروں سے بھری کشتی کے ڈوبنے سے اور جانوں کے نقصان سے اس سفر کے خطرات کا اندازہ ہو گیا ہے۔

اس سال لیبیا اور مصر جانے والے 13 ہزار پاکستانیوں میں سے زیادہ تر واپس نہیں آ سکے۔ ان میں دو بھائی بھی شامل تھے جن کا اپنی والدہ کو آخری پیغام یہ تھا کہ وہ فکر نہ کریں۔

پنجاب کے ایک تھانے میں گرمی کی وجہ سے ہم پسینے سے شرابور تھے جبکہ ہمارے ساتھ موجود پولیس اہلکار کی پیشانی پسینے سے چمک رہی تھی۔

کاغذات سے بھرے کمروں سے گزر کر ہمیں ایک چھوٹے جیل سیل تک لے جایا گیا۔ اس کمرے کی دیواروں میں نمی تھی اور سلاخوں کے باہر پنکھا چل رہا تھا جبکہ ایک نچلی دیوار کے پیچھے ٹوائلٹ تھا۔

اس سیل میں 16 قیدی ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر سیمنٹ کے فرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔

ان سب افراد پر انسانی سمگلنگ کا الزام ہے۔ ان میں سے اکثریت پر یونان میں ڈوبنے والی کشتی کے ذریعے انسانی سمگلنگ میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام ہے۔

یہ کشتی لیبیا سے یونان جا رہی تھی جب 14 جون کو حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس واقعے میں کشتی پر سوار 300 پاکستانی لاپتہ ہیں اور خدشہ ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔

ہم نے پوچھا اگر ان میں سے کوئی بات کرنا پسند کرے گا۔ زیادہ تر نے آنکھیں پھیر لیں لیکن ان میں سے ایک بات کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔

حسنین شاہ کو تیسری بار گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک دہائی سے سمگلنگ کا کام کر رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یونان میں ڈوبنے والی کشتی میں ان کا اہم کردار نہیں تھا۔

حسنین شاہ جیل میں
پولیس نے حسنین شاہ کو انسانی سمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا

انھوں نے کہا ’یہاں بے روزگاری اتنی ہے کہ لوگ ہمارے گھروں تک پہنچ کر ہمیں کہتے ہیں کہ ہم ان کا کسی ایسے بندے کے ساتھ رابطہ کروا دیں جو ان کے بھائیوں اور بیٹوں کو بیرون ملک پہنچا دے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ اس کام کو کرتے ہوئے انھوں نے ہزاروں لوگوں کو بیرون ملک بھیجا۔

انھوں نے بتایا ’میں نے یہ کام اس لیے شروع کیا کیونکہ کوئی اور کاروبار نہیں تھا۔ اس میں میرا مرکزی کردار نہیں، وہ امیر اور طاقتور لوگ لیبیا میں مقیم ہیں۔ ہمیں تو رقم کا دسواں حصہ بھی نہیں ملتا۔‘

جب میں نے ان سے پوچھا کہ ان راستوں میں ہلاک ہونے والے افراد کا سوچ کر کیا انھیں ندامت کا احساس ہوتا ہے۔ اس سوال پر ان کا لہجہ تبدیل ہو گیا۔

انھوں نے جواب دیا ’مجھے بڑا افسوس ہوا۔ ہم اس پر بہت شرمندہ ہیں لیکن ہم کیا کریں؟ اگر ہم یہ کام نہیں کریں گے تو ہماری جگہ کوئی اور یہ کام کرے گا۔‘

مبینہ طور پرسمگلنگ میں ملوس افراد جیل میں
سمگلرز غیر قانونی تارکین وطن کو لیبیا کے راستے بڑی کشتیوں پر بٹھا کر یورپ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں

پاکستان کی معیشیت شدید بحران کا شکار ہے۔ پاکستانے روپے کی قیمت کافی گر چکی ہے اور مہنگائی کی شرح تقریباً 40 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ ان حالات میں لوگوں کی بڑی تعداد بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہی ہے جہاں کم آمدنی بھی اپنے ملک میں ملنے والی تنخواہ سے کہیں زیادہ ہے۔

گذشتہ سال ہونے والے ایک سروے میں یہ پتا چلا کہ 15 سے 24 سال کی عمر کے درمیاں 62 فیصد لڑکے اور نوجوان مرد ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ کچھ افراد قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی کوشش کریں گے جبکہ باقی متبادل راستے ڈھونڈیں گے۔

غیر قانونی طریقے سے ملک چھوڑنے والوں کے اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہے لیکن پاکستانی حکام نے ہمیں بتایا کہ یونان میں ہونے والے حالیہ حادثے کے بعد انھیں پاکستانیوں کی طرف سے استعمال ہونے والے نئے روٹ کی نشاندہی ہوئی ہے۔

لوگ دبئی سے مصر یا لیبیا ہوائی جہاز پر سفر کرتے ہیں اور پھر مشرقی لیبیا سے بڑی کشتیوں پر یورپ کا رخ کرتے ہیں۔

یونان حادثے میں پاکستانی حکام کی طرف سے تحقیقات کرنے والے محمد اسلم شنواری کہتے ہیں کہ دوسرے راستوں سے ڈی پورٹ ہونے والے افراد کی تعداد کم ہوئی ہے جیسے کہ ایران کے راستے سے۔ ترکی جیسے ممالک میں غیر قانونی طریقے سے آنے والے غیر ملکیوں کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے کم لوگ ان راستوں سے سفر کر رہے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سال 2023 کے پہلے چھ ماہ میں تقریباً 13 ہزار لوگ پاکستان سے لیبیا اور مصر گئے جبکہ سال 2022 میں تقریباً 7 ہزار لوگ گئے تھے۔ ان 13 ہزار میں سے 10 ہزار واپس نہیں آئے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں نہیں پتا کہ یہ لیبیا میں ہی ہیں یا کسی اور یورپی ملک چلے گئے ہیں۔‘

یہ حیرت کی بات ہے کہ یونان میں کشتی حادثے کے بعد پاکستانی پولیس کو اس روٹ کے بارے میں پتا چلا۔ فروری میں لیبیا سے ترکی اور پھر وہاں سے سفر کے دوران ڈوبنے والی کشتی میں پاکستانی موجود تھے۔

لیکن اسلم شنواری کہتے ہیں کہ ان روٹس کے متعلق تحقیقات کرنا کافی پیچیدہ ہوتا ہے کیونکہ گھر والے پولیس کے پاس آ کر نہیں بتاتے کہ کیا ہوا ہے۔

انھوں نے کہا ’لوگ سامنے آ کر شکایت درج نہیں کرواتے وہ عدالتوں کے باہر تصفیہ کر لیتے ہیں۔ ہمارے لیے ان کیسز کے متعلق معلومات حاصل کرنا اور پیروی کرنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ یہ گھر والوں نے دینی ہوتی ہیں اور زیادہ تر ہمیں نہیں بتاتے۔‘

اس معاملے میں اضافی پیچیدگی یہ ہے کہ ان مسافروں کی بڑی تعداد قانونی طریقے سے ویزہ لے کر دبئی یا مصر جاتی ہے لہذا انھیں روکنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ سفر مزید مہنگا ہو جاتا ہے۔ لوگ 25 سے 30 لاکھ روپے اس سفر پر لگاتے ہیں۔

پاکستان غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اسلم شنواری مجھے بتاتے ہیں کہ اس خطرے سے کہ لوگ سمگلنگ کا شکار نہ ہوں انھوں نے 10 ہزار لوگوں کو بیرون ملک جانے سے روکا اور 20 ہزار پاکستانیوں کو واپس بلوایا۔

انھوں نے کہا ’ہمیں اس کا اندازہ نہیں کہ کتنے لوگ جا رہے ہیں۔‘

یہ راستہ لینے والے کچھ افراد لیبیا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک خاندان سے بات کرنے کے لیے ہم پنجاب کے ایک گاؤں میں گئے لیکن جلد ہی علاقے کے لوگ ہم سے ملنے پہنچ گئے۔

ان کے گھروں کے متعدد نوجوان کچھ ہفتوں پہلے لیبیا کے سفر پر نکلے تھے اور ابھی وہیں ہیں۔ یہ نوجوان اپنے عزیزوں اور دوستوں سے وائس نوٹس اور ویڈیو کے ذریعے مزید پیسوں کی بھیک مانگتے ہیں۔

ایک باپ نے ہمیں ایک ویڈیو دکھائی۔ اس میں کھڑکی کے بغیر کمرے میں 100 لوگ ہیں۔ کمرے کی دیواریں اور فرش سفید ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے گرمی سے بچنے کے لیے کپڑے اتارے ہوئے ہیں اور صرف زیر جامہ پہنا ہوا ہے۔ ان میں سے متعدد لوگ اس جگہ سے نکلنے کے لیے مدد مانگ رہے ہیں۔

بی بی سی کی نامہ نگار لاپتہ تارکین وطن کے اہل خانہ کے بیچ میں بیٹھی ہوئی ہیں
اہلخانہ نے بی بی سی کو اپنے لاپتہ رشتہ داروں اور دوستوں کی ویڈیوز دکھائیں

صورتحال کافی پیچیدہ ہے۔ ان کے اہلخانہ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کو سمگلرز نے روک کر رکھا ہوا ہے یا لیبیا کے حکام نے یا کسی اور نے۔ انھوں نے ہمیں اپنی شناخت اس ڈر سے چھپانے کا کہا ہے کہ کہیں ان سے بدلا لینے کے لیے ان کے پیاروں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔

ایک والد نے مجھے کہا ’وہ انھیں دو سے تین دن میں ایک بار کھانا دیتے ہیں۔ میرا بیٹا 18 سال کا ہے وہ بہت روتا ہے۔ وہ کہتا ہے ہم کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ پیسے ہم نے دیے اور ہم یہاں مر رہے ہیں۔‘

ان حالات میں بھی خاندان والے اس بارے میں متفق نہیں کہ اب وہ آگے کیا چاہتے ہیں۔ ابتدا میں جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ ان نوجوانوں کو بحفاظت یورپ تک کا سفر کرنے دیا جائے لیکن بعد میں انھوں نے کہا وہ چاہتے ہیں ان کے نوجوان واپس گھر آ جائیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کو اس معاملے کے بارے میں پتا ہے اور وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔

ہم نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود متعدد لوگوں سے بات کی وہ پولیس کی کارروائی اور خطرات کے باوجود غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے میں سر گرم ہیں۔

یورپ میں مقیم ایک سمگلر نے کہا کہ پاکستان سے آنے والے روٹ ابھی بھی کام کر رہے ہیں۔ پولیس نے بھی یہ بات تسلیم کی کہ لوگ اب بھی غیر قانونی طریقے سے ملک چھوڑ رہے ہیں۔

جن لوگوں سے ہم نے بات کی وہ یا تو خود جانا چاہتے ہیں یا اپنے بیٹوں کو بھیجنے کے لیے تیار ہیں لیکن سب نے بہتر زندگی کی امید کی بات کی۔

کچھ تو سماجی دباؤ کی بھی بات کرتے ہیں۔ ایک شخص نے بتایا کہ ان کے زیادہ تر کزنز اور بھائی اس سفر میں کامیاب رہے اور اب سماجی تقریبات میں ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ کیوں نہیں گئے۔

دوسروں نے بیرون ملک کمائے گئے پیسوں سے بنے گھروں کا ذکر کیا۔ ان کی رہائش کے قریب رہنے والے سمگلرز ان پر دباؤ ڈالتے ہوئے انھیں اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کا کہتے ہیں۔

کچھ کو اس سفر کا ذاتی تجربہ بھی تھا۔

 فرید حسین اور نجمہ حسین
خیال کیا جاتا ہے کہ فرید حسین اور نجمہ حسین کے دو بیٹے یونان میں کشتی الٹنے کے حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں

آٹھ سال پہلے فرید حسین غیر قانونی طریقے سے جرمنی گئے۔ وہ ترکی سے یونان، میسیڈونیا، سربیا، کروشیا، سلووینیا سے ہوتے ہوئے جرمنی پہنچے۔

چار سال بعد جب ان کے والد بیمار ہوئے تو ان کا خیال رکھنے کے لیے انھیں واپس آنا پڑا۔ پھر ان ہی کے سمگلر نے انھیں ان کے نوجوان بیٹے کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے آمادہ کیا۔

فرید حسین نے کہا ’وہ ہمیں یقین دلاتا تھا کہ یورپ بس ہمارے سامنے ہی ہے اور یہ کہ بچے وہاں جائیں گے اور اپنی زندگی بنائیں گے اور پھر تم جو چاہو گے خرید سکو گے۔‘

وہ کہتے ہیں ’میں نے سوچا ہم غریب لوگ ہیں۔ اگر وہ تعلیم بھی حاصل کر لیں تو انھیں ملازمت نہیں ملے گی اور ہمارے پاس زیادہ زمین بھی نہیں۔ مجھے لگا وہ جائیں گے، تعلیم حاصل کریں گے اور کام کریں گے۔‘

فرید حسین نے پلاٹ بیچا اور اس کے بعد ان کے دو بیٹے فرہاد اور توحید دبئی اور مصر سے لیبیا پہنچے۔

ان کے پاس بچوں کی ویڈیوز ہیں جن میں وہ جہاز پر بورڈنگ کرتے ہوئے پرجوش ہیں۔ ان کہ پاس لیبیا کے سیف ہاؤس کی ویڈیو بھی ہے جس میں درجنوں لڑکوں اور نوجوانوں کو فرش پر سویا دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد کسی اور کے موبائل فون سے صبح کے 4 بجے ان کا وائس نوٹ آتا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں ’ہم نکل رہے ہیں، والدہ کو بتائیں یہ ہمارا آخری پیغام ہے۔‘

کچھ دن بعد سمگلر ان سے رابطہ کرتے ہیں اور انھیں کہتے ہیں وہ مٹھائی تقسیم کریں ان کے بچے یورپ پہنچ گئے ہیں۔ وہ بھی اس پر جشن مناتے ہیں۔

اگلے دن ان کے کزن کی کال آتی ہے انھوں نے تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کی خبر دیکھی ہے۔ اس وقت تک سمگلرز عائب ہو جاتے ہیں۔

اس کے بعد گھر والوں کو بچوں کی طرف سے کوئی پیغام نہیں ملتا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 14 جون کو یونان کے قریب دونوں ڈوب گئے ہیں۔ ان کی عمر 18 اور 15 سال تھی۔ ان کے والدین کو شاید دفنانے کے لیے ان کی لاشیں نہیں ملیں گی۔

اب ان کی والدہ کہتی ہیں کہ وہ بچوں کا وائس نوٹ سن کر گھنٹوں روتی ہیں۔

فرید حسین کہتے ہیں ’اگر یہاں غربت ہے اور وہ بھوک سے مر جائیں، آپ کو نہیں جانا چاہیے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کوئی آپ کو کتنا قائل کرتا ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *