ٹوئٹر پر سیاستدانوں کو بہت زیادہ بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے
آن لائن زیادتی کے متعلق بی بی سی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ برطانیہ کے اراکین پارلیمنٹ کو روزانہ 3000 سے زیادہ جارحانہ ٹویٹس بھیجی جاتی ہیں۔
چھ ہفتوں کے دوران ارکان پارلیمنٹ کے متعلق کیے گئے تیس لاکھ ٹویٹس کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ 130,000 سے زیادہ ٹوئٹس کو یعنی 20 میں سے ایک کو زہریلا قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایم پی جیس فلپس کا کہنا ہے کہ بدسلوکی کی حد نے ایک غیر پائیدار ثقافت کو جنم دیا ہے جہاں اب سیاست دان اہم ایشوز پر اپنی بات کہنے سے ڈرتے ہیں۔
ٹویٹر نے اس تحقیق پر ابھی تک تبصرہ نہیں کیا ہے۔
ہماری تحقیقات میں پتہ چلا کہ ارکان پارلیمنٹ کے متعلق کیے گئے 130,000 سے زیادہ ٹویٹس کو ممکنہ طور پر زہریلا کہا جا سکتا تھا جبکہ 20,000 شدید زہریلے تھے۔
جن 20 ارکان اسمبلی کو زیادہ تر زہریلے تبصروں کا سب سامنا کرنا پڑا وہ تمام کابینہ یا شیڈو کابینہ کے رکن نہیں تھے۔
برمنگھم یارڈلے سے لیبر ممبر پارلیمان جیس فلپس نے کہا کہ سیاست دان تسلیم کرتے ہیں کہ سخت تنقید ان کے کام کا حصہ ہے، لیکن انھوں نے کہا کہ حد اس وقت پار کی گئی جب استعمال کی جانے والی زبان جنس پرست، نسل پرست یا حد سے زیادہ جنس کے متعلق ہو گئی۔
انھوں نے کہا کہ ’افسوس کی بات ہے کہ خواتین سیاستدانوں کو تھوڑے بہت ڈھکے چھپے انداز میں یا مکمل طور پر براہ راست ریپ اور جنسی تشدد کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
’جب یہ کسی موضوع کے بارے میں نہیں بلکہ آپ کس طرح نظر آتے ہیں اور آپ کے بچوں اور خاندان کے بارے میں ہوتا ہے تو حد پار ہو جاتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ ایسے ساتھیوں کے بارے میں جانتی ہیں جنھوں نے سوشل میڈیا پر ردعمل سے بچنے کے لیے بریگزٹ اور شام میں فوجی مداخلت سمیت متعدد معاملات پر اپنے اصولوں کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
وسیع پیمانے پر ہونے والی تحقیقات میں، بی بی سی کے شیئرڈ ڈیٹا یونٹ نے ایک ٹول ’پرسپیکٹیو‘ کو استعمال کیا، یہ ایک ایسا ٹول ہے جو مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے آن لائن زہریلے تبصروں کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ ٹول گوگل کے ایک تحقیقی یونٹ ’جگزا‘ نے تیار کیا ہے اور یہ ایک زہریلے تبصرے کی تعریف کچھ اس طرح کرتا ہے: ’بدتمیز، بے ادب یا نامعقول‘ اور ایسا جو ممکنہ طور پر ’کسی کو بات چیت چھوڑنے پر مجبور کر سکتا ہے۔‘
ٹیم نے مارچ سے اپریل کے وسط تک ان تمام ٹویٹس کا تجزیہ کیا جن میں اراکین پارلیمان کا ذکر تھا۔
سابق وزیر اعظم بورس جانسن کو زہریلے سمجھے جانے والے ٹویٹس کی سب سے زیادہ تعداد 19,000 موصول ہوئی، جو انھیں موصول ہونے والے ٹوئٹس کی کل تعداد کا تقریباً چار فیصد تھی۔
جن دیگر ممبران پارلیمان کو سب سے زیادہ جارحانہ ٹویٹس کا سامنا کرنا پڑا ان میں سابق کلچر سکریٹری نادین ڈوریز (9,000)، رشی سنک (9,000)، جو اس وقت وزیرِ خزانہ تھے، اور لیبر رہنما سر کیئر سٹارمر (8000) شامل ہیں۔
تاہم، زہریلے ٹویٹس کا سب سے زیادہ تناسب حاصل کرنے والے ارکان پارلیمان اس وقت بیک بینچر تھے۔
ان میں مینسفیلڈ سے تعلق رکھنے والے کنزرویٹو ایم پی بین بریڈلی بھی تھے۔ چینل 4 کی نجکاری کی بات کرنے کے بعد سینکڑوں زہریلے ٹویٹس میں ان کا ذکر کیا گیا۔
شیڈو فنانشل سیکرٹری جیمز مرے نے جب ایک ریڈیو انٹرویو میں ٹرانس جینڈر کے حقوق کے بارے میں بات کی تو ایک ہی دن میں 300 سے زیادہ زہریلے ٹویٹس میں ان کا ذکر ہوا۔
اور بشپ آکلینڈ کی ایم پی ڈیہنا ڈیوسن کو اس وقت اشتعال انگیز ٹویٹس کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے اکیڈمی ایوارڈز کے دوران کرس راک پر حملے کے بعد اداکار ول اسمتھ کو ایک کھلا تنقیدی خط لکھا۔
انھوں نے بی بی سی ریڈیو ٹیز کو بتایا کہ انھیں موصول ہونے والی بدسلوکی کی کچھ ٹوئٹس بہت ہی بری تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ لوگوں نے مجھے یہاں تک کہا کہ میرے مردہ والد کس طرح شرم سے مجھے دیکھ رہے ہوں گے۔’اس میں بہت سی جنسی طور پر واضح چیزیں ہیں۔‘
تحقیقات سے پتا چلا کہ خواتین اراکین پارلیمنٹ کو اپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں “موٹی” اور “جاہل” کہلانے اور جنسی زبان کا نشانہ بننے کا زیادہ امکان ہے۔
ورجینیا کروسبی 2019 میں نارتھ ویسٹ ویلز میں Ynys Môn سیٹ کے لیے منتخب ہوئیں اور کہا کہ انہیں سوشل میڈیا پر متعدد پرتشدد دھمکیاں موصول ہوئی ہیں جن میں پھانسی اور زہر دینے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔
تحقیقات سے پتا چلا کہ خواتین اراکین پارلیمان کو اپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں ’ضدی‘ اور ’جاہل‘ کہا جاتا تھا اور جنس کے متعلق گندی زبان کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
ورجینیا کروسبی 2019 میں نارتھ ویسٹ ویلز میں ینس مون (Ynys Môn) (سیٹ کے لیے منتخب ہوئی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں سوشل میڈیا پر متعدد مرتبہ پرتشدد دھمکیاں موصول ہوئی ہیں جن میں پھانسی اور زہر دینے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔
پروگرام 5Live سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’یہ بالکل خوفناک ہے۔ میرے تجربے کے مطابق ہم ایک وبا (کی فضا) میں ہیں اور یہ صرف ٹویٹر پر نہیں ہے، یہ تمام قسم کے سوشل میڈیا پر ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ معاشرے کو واقعی اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
’میں کیوں چھوڑ گئی‘
میون ویلی سے کنزرویٹو ایم پی فلک ڈرمنڈ نے 2021 میں ٹویٹر کو خیرباد کہہ دیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے پلیٹ فارم اس لیے چھوڑا کیونکہ ٹرول گمنام ٹویٹر ہینڈلز کے پیچھے چھپ سکتے تھے۔
انھوں نے کہا: ’آپ نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں، یہ صرف برا ہے، اور مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ جب سے میں اس سے باہر آئی ہوں میری ذہنی صحت بہت بہتر ہو گئی ہے۔‘
ایلن جوڈسن تھنک ٹینک ڈیموس میں سینٹر فار دی اینالیسس آف سوشل میڈیا کی سربراہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا جس طرح بحث کا رخ موڑ رہا ہے اور بدسلوکی کو معمول بنا رہا ہے، وہ
تیزی سے ’جمہوری طور پر خطرناک‘ ہوتا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’عوام کو اپنے اراکین پارلیمان پر تنقید کرنے کے قابل ہونا چاہیے اور اراکین پارلیمان کو جوابدہ ہونا چاہیے، یہ جمہوریت کے لیے اہم ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ممبران پارلیمان عوام کو سن کر اور ان کے تجربے پر مبنی ووٹ نہیں کر رہے بلکہ وہ صرف خوف کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔
فلپس نے کہا کہ کچھ موضوعات پر آن لائن بات کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’آپ کو آن لائن اور یقینی طور پر ٹویٹر پر جس قسم کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ٹویٹر اب بحث کرنے کی جگہ نہیں ہے۔
’ٹرانس (لوگوں پر بحث) بالکل ایسا مسئلہ ہے جہاں آپ اس چیز کو بڑے پیمانے پر دیکھ سکتے ہیں۔ چاہے آپ کا نقطہ نظر کچھ بھی ہو لوگ اس پر بات ہی نہیں کرنا نہیں چاہتے ہیں اور ممبران پارلیمان کی اکثریت کا نقطہ نظر اہم ہوتا ہے۔
’اس جگہ پر جیتنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے – یہ بہت خوفناک ہے۔‘
کیا کیا جا سکتا ہے؟
پچھلے مہینے، دنیا کے امیر ترین شخص، ایلون مسک نے، ٹویٹر پر اپنا 44 ارب ڈالر کا ٹیک اوور مکمل کر لیا، اس کے چند دن بعد انھوں نے اعلان کیا کہ فی الحال ٹوئٹر کی ماڈریشن کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
ڈیموس اور مسز فلپس دونوں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے سخت ضابطے کی ضرورت ہے۔
جوڈسن نے کہا کہ زہریلے پن کو کم کرنے میں چیلنج یہ بھی ہے کہ تجارتی ماحول میں بھی کام کرنے والی کمپنیوں کو آزادانہ اظہار خیال کی جگہ کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ممکنہ طور پر ’کلکس یا لائکس یا شیئرز‘ ملنے والا مواد ’سب سے زیادہ دور کرنے والا، تقسیم کرنے والا اور زہریلا‘ ہو سکتا ہے۔
بی بی سی نے جواب کے لیے ٹوئٹر سے رابطہ کیا تھا، لیکن فرم جواب دینے سے قاصر تھی۔
ٹویٹر نے پہلے کہا ہے کہ وہ بدسلوکی سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے جیسا کہ اس کی ’نفرت انگیز طرز عمل‘ کے متعلق پالیسی میں بیان کیا گیا ہے۔
اس کی ویب سائٹ پر لکھا ہے: ’ہم نفرت، تعصب یا عدم رواداری سے پیدا ہونے والی بدسلوکی کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں، خاص طور پر وہ بدسلوکی جو ان لوگوں کی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشش کرتی ہے جو تاریخی طور پر پسماندہ ہیں۔‘
کمپنی نے پہلے بھی نشاندہی کی تھی کہ اس کے پاس دیگر سوشل میڈیا کمپنیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ کھلا پلیٹ فارم ہے، جو محققین کو ’عوامی گفتگو کو بڑھانے اور تحقیق کرنے‘ کی اجازت دیتا ہے۔