انٹرنیشنل ڈے فار ویمن اِن سائنس وہ پاکستانی خواتین جو مشکلات کے باوجود سائنسی تعلیم کی شمع روشن کرنے میں کوشاں ہیں
میرے دو بچے ہیں، مگر ان کی پیدائش سے پہلے کام کی زیادتی اور حوصلہ افزا ماحول نہ ہونے کے باعث میرے کئی دفعہ مِس کیرج بھی ہوئے۔ یہ دور یقیناً زندگی کا ایک مشکل ترین دور تھا جب بچوں کی پیدائش کے بعد مجھے اپنی فیلڈ میں کامیاب رہنے کے لیے شدید مقابلے کا سامنا تھا مگر میرے شوہر اور فیملی کی مدد ہر قدم پر میرے ساتھ رہی جس کے باعث ہی میں یہ سب کچھ کرنے کے قابل ہوئی۔ میرے والدین نے ابتدا سے ہی میرے ذہن میں یہ بات بٹھائی کہ کوئی بھی بڑا کام مشقت اور قربانیوں کے بغیر سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔‘
یہ کہنا ہے پاکستان میں سائبر سکیورٹی میں پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی حاضر سروس خاتون سائبر سکیورٹی تجزیہ کار ڈاکٹر فوزیہ ادریس ابڑو کا جن کا تعلق سندھ کے ایک دیہی علاقے سے ہے۔
انھوں نے مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ جامشورو سے الیکٹرانکس میں ڈگری کے بعد سٹی یونیورسٹی لندن سے کرپٹولوجی میں پی ایچ ڈی کی اور اب پاکستان کی مسلح افواج کے سائبر سیکیورٹی ونگ سے وابستہ ہیں۔ مال وئیر کی شناخت اور روک تھام، نیٹ ورک اور موبائل سکیورٹی، مشین لرننگ، انٹرنیٹ آف تھنگز اور مصنوعی ذہانت ڈاکٹر فوزیہ ابڑو کی خصوصی دلچسپی کے شعبے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ‘میں اپنے آبائی علاقے کی پہلی خاتون ہوں جو انجینئر بنی اور پھر پاک آرمی میں شامل ہوئی۔ میں پاکستانی مسلح افواج کی پہلی خاتون پی ایچ ڈی اور پاکستان کی پہلی خاتون ہوں جس نے سائبر سکیورٹی میں پی ایچ ڈی کی
ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ ‘میں نے ابتدا میں الیکٹرانکس انجینئرنگ اور بعد ازاں پاک آرمی کا انتخاب کیا، جنھیں عموماً مردوں کی اجارہ داری والے شعبے سمجھا جاتا ہے۔ مگر میں ہمیشہ سے ہی رسک لینے اور ایسے چیلنجنگ کام کرنے کی خواہاں تھیں جو پاکستانی خواتین خصوصاً نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک مثبت اور روشن مثال بن سکے۔’
ان کا کہنا ہے کہ بہت سی نو آموز فیلڈز میں پہلی خاتون بننے کے اعزاز کا ذکر کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ‘اپنے تجربات شیئر کر کے میں پاکستانی خواتین کو کچھ غیر معمولی کرنے کی طرف راغب کرنا چاہتی ہوں۔ اگر آپ عزم رکھتی ہیں اور یہ جانتی ہیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے تو راہ کی مشکلات تو ضرور ہوتی ہیں مگر آپ کو روک نہیں سکتیں۔’
ان کا کہنا ہے کہ ‘پاکستانی خواتین کو جن بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں صنفی بنیاد پر تعصب، جنسی ہراس، صنفی امتیازات، اور ایسے کلچر کا مکمل فقدان ہے جہاں سائنسی فیلڈز میں خواتین کے کام کرنے کو معیوب نہ سمجھا جائے بلکہ مرد و خواتین کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔’
پاکستان میں سائیر سکیورٹی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان نے 2019 میں اپنی سائبر سکیورٹی پالیسی پر کام کا آغاز کیا تھا مگر یہ کام اب تک تعطل کا شکار ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس وہ فریم ورک نہیں ہے جس کے ذریعے پہلے اس سے متعلق مختلف سٹیک ہولڈرز ایک پالیسی تشکیل دیں اور بعد ازاں سائبر سکیورٹی پروفیشنلز اس کا تجزیہ کر سکیں۔’
پاکستان میں معاشرتی رویوں، سماجی و مذہبی حدود و قیود کے باعث خواتین سٹیم (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی) میں کیریئر بنانے سے کتراتی ہیں۔
لیکن اس شعبے میں ڈاکٹر فوزیہ اکیلی پاکستانی خاتون نہیں ہیں جنھوں نے نہ صرف روایتی طور پر مردوں کے لیے مختص سائنس کے شعبوں میں کامیاب کیریئر بنایا ہے بلکہ اندرون ملک وسائل کی قلت کے باوجود سائنسی تعلیم کی شمع روشن کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
’پاکستان میں سٹیم ایجوکیشن کی ترویج میری زندگی کا مشن ہے’
ایسی ہی ایک اور پاکستانی خاتون زرتاج احمد پاکستان سپیس سائنس ایجوکیشن سنٹر کی چیف ایگزیکٹو آفیسر اور پیشے کے لحاظ سے سافٹ ویئر انجینئر ہیں جو پاکستان میں خلائی سائنس کی ترویج کے لیے ایک عشرے سے مسلسل کوشاں ہیں۔
ان کے قائم کردہ ادارے میں بچوں کو سٹیم ایجوکیشن کے جدید طریقۂ کار کے ذریعے ہینڈز آن پروگرام کروائے جاتے ہیں تاکہ ان میں وہ صلاحیتیں پیدا کی جا سکیں جنھیں دنیا آج ‘ٹوینٹی فرسٹ سینچری سکلز’ کے نام سے جانتی ہے جو آگے چل کر کالج اور یونیورسٹی میں نوجوانوں کے بہت کام آتی ہیں۔
زرتاج بتاتی ہیں کہ ’وہ جب سافٹ ویئر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ مستقبل میں بچوں کو روبوٹکس اور سپیس سائنس کی تعلیم دے رہی ہوں گی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ‘زندگی میں کچھ واقعات اس طرح ہوتے ہیں کہ انسان کو پتا بھی نہیں چلتا اور وہ خود بخود ایک خاص سمت میں چل پڑتا ہے اور پھر کڑی سے کڑی ملتی چلی جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور آج پاکستان میں سٹیم ایجوکیشن کی ترویج میری زندگی کا مشن ہے۔’
انھوں نے بتایا کہ ‘میری 2002 میں شادی ہوئی تو میں ملازمت کرتی تھی مگر بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی دیکھ بھال کی وجہ سے اسے جاری رکھنا مشکل ہو گیا لہذا میں نے بچوں کی خاطر کام سے بریک لی اور سات برس بعد دوبارہ اپنی پروفیشنل زندگی میں آنے کی کوشش کی۔ چونکہ میں ٹیکنالوجی کی فیلڈ سے وابستہ تھی تو یہ جانتی تھی کہ ٹیکنالوجی میں بہت تیزی سے تبدیلیاں ہوتی ہیں اور گھر بیٹھنے کی وجہ سے میں ان سے متعلق آگاہ نہیں تھی۔ میں نے 2011 میں ایک سکول ‘حق اکیڈیمی’ جوائن کی جو میری زندگی تبدیل کر دینے والا تجربہ ثابت ہوا۔ جہاں میں نےابتدائی طور پر بچوں کو تعلیم دی اور بعدازاں ان کے لیے روبوٹکس اینڈ سٹیم سٹوڈیو بنایا۔’
زرتاج کہتی ہیں کہ ‘سٹیم یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں خواتین کی تعداد کم ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک یہ ہے کہ صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں یہ سوچ عام ہے کہ اگر کوئی لڑکی سائنس میں تعلیم حاصل کرنا چاہ رہی ہے تو وہ ڈاکٹر بن جائے یا پھر ایم ایس کے بعد لڑکیوں کے لیے ٹیچنگ ہی مخصوص ہے۔ سائنس کے علاوہ بزنس، فنانس اور ریسرچ وغیرہ میں بھی خواتین کی تعداد ابھی مردوں سے بہت کم ہے۔ جس کا حل یہی ہے کہ خواتین دوسروں کی رائے کی بنیاد پر کوئی شعبہ اختیار نہ کریں بلکہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق از خود فیصلہ کریں کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہیں۔’
وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے علاوہ قومی سطح پر بھی بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت اور پرائیویٹ ادارے ملازمتوں میں خواتین کی حوصلہ افزائی کریں اور ساتھ ہی سٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دیا جائے۔ عموماً گھریلو اور ملازمت کے مسائل کے باعث بہت سی باصلاحیت خواتین گھر بیٹھ جاتی ہیں اور لہذا نوجوان لڑکیاں یا بچوں والی خواتین اپنے ذاتی بزنس کو شروع کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے خوابوں اور آگے بڑھنے کی لگن پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے جب ابتدا میں سافٹ ویئر انجینیئر کی حیثیت سے نوکری کی تو پچاس مردوں میں ایک اکیلی خاتون تھی اور ہمارے ہاں مرد خواتین باس کو آسانی سے برداشت نہیں کرتے۔ ان کی تعلیمی قابلیت اور کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہیں اور ان کی ہدایات پر پوری طرح عمل نہیں کرتے جو بعض اوقات بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر میری فیملی، دوستوں اور کام کے ساتھیوں میں ایسے مرد بھی تھے جو مجھے ہر قدم پر سپورٹ کرتے رہے۔‘
پاکستان میں خلائی سائنس کی ترویج کے ساتھ ساتھ زرتاج بین الاقوامی سطح پر جانے جانی والی روبوٹکس ٹرینر بھی ہیں اور اب تک اپنی ٹیم کے ساتھ بہت سے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں جن میں فرسٹ لیگو لیگ اور ڈیسٹی نیشن امیجنیشن قابل ذکر ہیں۔
زرتاج کہتی ہیں کہ ’اپنے سٹوڈیو میں بچوں کو سکھاتے ہوئے ایک استاد سے زیادہ دوست ہوتی ہوں جو خود بھی ان کے ساتھ نت نئے تجربات سے سیکھ رہی ہوتی ہے، ہمیں سکولوں میں ایسے دوستانہ ماحول کی ضرورت ہے۔ آج کل کی نوجوان نسل بہت جلد حالات سے دلبرداشتہ ہوکر ملک چھوڑ جاتی ہے، والدین اور اساتذہ کو اس رویے کی نفی کرنی چاہیے کیونکہ یہ ہمارا وطن ہے اور ہم ہی نے اس کے نظام کو درست کرنا ہے۔‘
’خواتین کو ورک کلچر میں انسان سے زیادہ مشین سمجھا جاتا ہے‘
ندا اطہر پاکستان انوویشن فاؤنڈیشن نیشنل سٹیم سکول کی ڈائریکٹر ہیں۔ یہ ایک انوکھا رہائشی تربیتی پروگرام ہے جس کے لیے انتہائی احتیاط کے ساتھ پاکستان بھر کے سکول و کالجز سے ایسے طلبا اور طالبات کاانتخاب کیا جاتا ہے جو سٹیم مضامین اور عملی سائنس میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہوں۔
اس ٹریننگ پروگرام میں بچوں میں از خود تحقیق کرنے کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔
ندا بتاتی ہیں کہ انھوں نے اس پروگرام کا آغاز 2016 میں لاہور یونیورسٹی آف منجمنٹ سائنسز (لمز) کے تعاون سے کیا تھا۔ پانچ برسوں میں کیڈٹ کالج حسن ابدال میں ایک سمر کیمپ، حبیب پبلک سکول میں سٹیم لیڈر سمر ری ٹریٹ کے علاوہ وہ اب تک سٹیم ایجوکیشن سے متعلق کئی دیگر پروگرام سیریز کروا چکی ہیں۔
اس میں ملک بھر سے معروف اساتذہ کے تعاون سے ایڈوانسڈ فزکس کے انٹرن شپ پروگرام بھی شامل ہیں۔
ندا بتاتی ہیں کہ ‘نیشنل سٹیم سکول اس نظریے پر تخلیق کیا گیا کہ پڑھائی صرف کلاس یا لیکچر پر ختم ہونے کے بجائے عملی انداز میں کروائی جائے تا کہ بچوں میں از خود تحقیق کرنے اور کچھ دریافت کرنے کی صلاحیت پروان چڑھائی جائے۔ ٹریننگ سیشنز میں ہم خاص طور پر بائیولوجی، سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ، مصنوعی ذہانت اور خلائی سائنس سے متعلق تجربات پر زور دیتے ہیں جو ہمارے سکولوں میں مکمل طور پر نظر انداز کیے جاتے ہیں۔’
پاکستانی تعلیمی نظام سے متعلق ندا کا کہنا تھا کہ ‘سکولوں اور کالجز میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے اس کا عملی سائنس سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ بچے صرف رٹا لگا رہے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ جو قوانین وہ کتابوں میں پڑھ رہے ہیں انھیں عملی طریقۂ کار سے کس طرح با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ بچوں میں از خود سوچنے، تجربہ کرنے اور مسائل کے حل ڈھونڈنے کا رجحان پیدا کرنے کا کوئی تصور پاکستانی تعلیمی نظام میں نہیں ہے۔’
‘یہی وجہ کہ نیشنل سٹیم سکول اور سٹیم ایکس کے پروگرام کے لیے جب ہم نے پاکستان کے بہترین سکول و کالجز سے ٹاپ کرنے والے طلبا طالبات کا انتخاب کیا تو وہ بھی عملی سائنس ‘کنسیپٹ’ سے متعلق سوالات کے جوابات دینے سے قاصر تھے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس طرح کے ماحول میں ہمیں بچوں کو سکھانے میں کتنی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’
ندا کہتی ہیں کہ ‘ان کا شمار سٹیم کی ترویج میں کام کرنے والی ان چند خواتین میں ہوتا ہے جنھیں والدین اور شوہر کی مکمل سپورٹ حاصل رہی اور شاذ و نادر ہی صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر انھیں ادراک ہے کہ سب کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے میں فیملی سپورٹ کا فقدان، صنفی تعاصب اور دیگر سماجی پابندیوں کے باعث سائنس میں ایسی رول ماڈلز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جنھیں دیکھ کر نوجوان لڑکیاں سٹیم فیلڈ میں آگے آئیں۔’
‘پاکستان میں خواتین کے لیے ورک کلچر کچھ ایسا ہے جہاں انھیں انسان سے زیادہ مشین سمجھا جاتا ہے۔ گھریلو اور بچوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ سائنس جیسی کسی مشکل فیلڈ میں کام کرنے کے لیے بہت زیادہ ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ یہاں نہ خواتین کو مناسب میٹرنٹی چھٹیاں دی جاتی ہیں، نہ ہی گھریلو مسائل یا بچوں کے باعث ورکنگ آور میں کوئی سہولت ملتی ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین پر بوجھ بہت زیادہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں عموماً ذمہ داریوں کی تقسیم کے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ایک عورت جو بیوی بھی ہے، ماں بھی اور ایک بیٹی و بہن بھی، وہ پورے خاندان کو جوڑے رکھنے کے علاوہ بچوں کی پرورش کی بھاری ذمہ داری بھی ادا کرتی ہے۔’
ان کا کہنا ہے کہ ‘خواتین کے لیے یہ یقین دہانی ضروری ہے کہ آپ کا کنبہ آپ کے کیریئر کی ضرورتوں کو سمجھتا ہے اور ان ذمہ دریوں کو نبھانے میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ صرف اسی طرح سٹیم جیسے مشکل اور محنت طلب شعبے میں خواتین پوری یکسوئی اور ایمان داری کے ساتھ کام کرتے ہوئے دیگر خواتین کے لیے رول ماڈل بن سکتی ہیں۔