وہ شہر جو اپنی عمارتوں کے بوجھ تلے زمین میں دھنستے جا رہے ہیں
امریکی شہر نیو یارک میں عمارات کے وزن سے زمین دھنس رہی ہے اور دنیا بھر میں یہ واحد ساحلی شہر نہیں جسے اس مسئلے کا سامنا ہے۔ جیسے جیسے کنکریٹ کے ان جنگلات سے متصل سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے، یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا ان شہروں کو بچایا جا سکتا ہے؟
27 ستمبر 1889 کا دن تھا جب مزدوروں نے ٹاور بلڈنگ پر کام ختم کیا۔ یہ 11 منزلہ عمارت اپنے سٹیل کے ڈھانچے کی وجہ سے نیو یارک کی پہلی سکائی سکریپر عمارت تھی۔
ٹاور بلڈنگ تو اب موجود نہیں لیکن اس کی تعمیر نے ایسی ہی عمارات کا رواج ڈالا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
نیو یارک شہر کے 300 سکوائر میل رقبے پر 762 ملین ٹن وزنی کنکریٹ، شیشہ اور سٹیل موجود ہے۔ یہ تخمینہ امریکی جیولوجیکل سروے کی محققین نے لگایا ہے۔ اس میں عمارات میں موجود فرنیچر اور دیگر اشیا کا وزن شامل نہیں۔ نہ ہی اس میں وہ 85 لاکھ افراد شامل ہیں جو ان عمارات میں رہائش پذیر ہیں۔
اس تمام وزن کا اس زمین پر حیران کن حد تک اثر پڑ رہا ہے جس پر یہ عمارات تعمیر کی گئیں۔ مئی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نیو یارک میں زمین سالانہ ایک سے دو ملی میٹر کے حساب سے دھنس رہی ہے جس کی ایک وجہ ان عمارات کا دباؤ ہے۔
ماہرین کے لیے یہ تشویشناک امر ہے۔ سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح، جو سالانہ تین سے چار ملی میٹر کی رفتار سے بڑھ رہی ہے، کو بھی مدنظر رکھیں تو کسی بھی ساحلی شہر کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔
نیو یارک میں زمین کا دھنسنا نیا عمل نہیں اور نہ ہی اس شہر تک محدود ہے۔ ٹام پارسنز امریکی جیولوجیکل سروے کے پیسیفک کوسٹل اینڈ میرین سائنس سنٹر میں کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور نیو یارک کو بھی دیگر امریکی ساحلی شہروں میں اسی مسئلے کی مثال کے طور پر لینا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایسے تمام شہروں کو، جہاں لوگ زیادہ تعداد میں آباد ہو رہے ہیں اور جہاں سمندر کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے، اسی مسئلے کا سامنا ہے۔
ساحلی شہر کیوں ڈوب رہے ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن زمین پر اضافی دباؤ ڈالنے والی انسانی تعمیرات بھی ایک کردار ادا کر رہی ہیں اور یہ تعمیرات بہت زیادہ ہوتی جا رہی ہیں۔ 2020 میں انسان کی تعمیر کردہ اشیا تمام جانداروں کے مجموعے سے زیادہ بڑھ چکی تھیں۔
کیا ان شہروں کے سمندر میں ڈوب جانے سے قبل کچھ کیا جا سکتا ہے؟
دنیا میں کچھ شہر ایسے ہیں جو دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ تیزرفتاری سے ڈوب رہے ہیں۔ ان میں انڈونیشیا کا دارالحکومت جکارتہ بھی شامل ہے۔
اوشیانوگرافی کے پروفیسر سٹیون ڈی ہونڈیٹ کہتے ہیں کہ کچھ شہروں میں چند سینٹی میٹر سالانہ اوسط سے زمین دھنس رہی ہے۔
ڈی ہونڈیٹ 2022 میں شائع ہونے والی ایسی تحقیق کے مصنفین میں شامل ہیں جس میں دنیا بھر کے 99 شہروں میں زمین دھنسنے کی اوسط جانچنے کے لیے سیٹلائیٹ تصاویر کا استعمال کیا۔
انھوں نے لکھا کہ اگر موجودہ اوسط کے حساب سے ہی زمین دھنستی رہی تو یہ شہر ہماری توقع سے زیادہ پہلے شدید سیلابی کیفیت سے دوچار ہوں گے۔
ایسے شہروں کی فہرست میں اکثریت جنوب مشرقی ایشیا سے ہے۔ جکارتہ کہ چند حصے سالانہ دو سے پانچ سینٹی میٹر یعنی دو انچ تک کی اوسط سے دھنس رہے ہیں۔
یاد رہے کہ جکارتہ کی جگہ انڈونیشیا ایک متبادل دارالحکومت کی تعمیر پر کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ فلپائن کا منیلا، بنگلہ دیش کا چٹاگونگ، پاکستان کا کراچی اور چین کا تیانجن شہر بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان شہروں میں تواتر سے سیلاب آ رہے ہیں۔
ادھر میکسیکو سٹی سالانہ 50 سینٹی میٹر کی رفتار سے دھنس رہا ہے۔ انڈونیشیا میں سیمارانگ شہر دو سے تین سینٹی میٹر سالانہ اوسط جبکہ فلوریڈا میں ٹامپا بے کا شمالی حصہ چھ ملی میٹر کی اوسط سے دھنس رہا ہے۔
میٹ وئی کا کہنا ہے کہ اس عمل کا کچھ حصہ قدرتی طور پر ہوتا ہے تاہم انسانوں کی وجہ سے اس میں تیزی آتی ہے۔ صرف عمارات کا وزن ہی نہیں بلکہ زیر زمین پانی کی نکاسی اور زمین میں دبی گیسوں اور تیل کو نکالنے کا عمل بھی حصہ ڈالتا ہے۔
میٹ کا کہنا ہے کہ ان میں سے ہر عمل کا حصہ جگہ کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے ساحلی شہروں میں زمین دھنسنے کو سمجھنا پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ یہ بات جتنی ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو، اس کا حل نکالنا ہو گا۔ سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح سیلاب سے پہلے ہی کافی نقصان پہنچاتی ہے، یہ ایک ایسا طوفان ہے جو تمام کشتیوں کو ڈبو دے گا۔
ڈی ہونڈیٹ کا کہنا ہے کہ سطح سمندر میں اضافے کے اثرات پہلے زیر زمین ہوتے ہیں۔ ہماری اکثر انفراسٹرکچر سے جڑی چیزیں زمین کے نیچے دبی ہوئی ہیں، عمارات کی بنیادیں بھی اور سمندر کا پانی ان پر اثرات ڈالتا ہے جو زمین پر بہت دیر بعد نظر آتے ہیں۔
لیکن اس کا حل کیا ہے؟ ایک حل تو یہ ہے کہ مزید تعمیرات کو روک دیا جائے۔
ٹام کا کہنا ہے کہ عمارات کے نیچے زمین تعمیر کے ایک یا دو سال بعد بتدریج سنبھل جاتی ہے۔ اس لیے ان کے مطابق اس بات کو یقنی بنانا چاہیے کہ بڑی عمارات مضبوط سطح پر تعمیر ہوں جس سے زمین کے دھنسنے کے عمل کو کم کیا جا سکے۔
ایک اور حل یہ ہے کہ زمین سے پانی نکالنے کے عمل کو سست کر دیا جائے۔ ٹام اور ان کے ساتھی خبردار کرتے ہیں کہ شہروں میں آبادی میں اضافے سے زیر زمین پانی کی نکاسی میں اضافہ ہو گا اور تعمیرات بھی بڑھیں گی۔ اس لیے ان کے مطابق پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پائیدار حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
تاہم ایک اور حل یہ بھی ہے کہ ساحل کے ساتھ سیلاب کو روکنے کے لیے دیواریں تعمیر کی جائیں۔ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں اس مسئلے کے حل کے لیے دو کام کیے گئے ہیں۔
ایک جانب ساحل کے ساتھ دیواریں، پمپ سٹیشن اور سیلابی گیٹ تعمیر کے گئے ہیں اور دوسری جانب ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مشقیں کی جاتی ہیں اور سیلاب سے پیشگی خبردار کرنے والا نظام تیار کیا گیا۔
اکثر یہ کام شہریوں کو خود ہی کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے شہر کے مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھیں۔ 2021 کی ایک تحقیق کے مطابق جکارتہ، منیلا اور ہو چی من شہر میں باسیوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور ایسے اقدامات کیے جن سے سیلاب کی صورت میں نقصانات سے بچا جا سکے۔
ان میں ایک کارآمد قدم یہ تھا کہ زیر زمین پانی کے بڑے ٹینک تیار کیے گئَے جو سیلابی پانی کو آہستہ آہستہ خارج کرتے ہیں۔
مارٹن لمبلے ویون نامی کمپنی میں کام کرتے ہیں اور پانی کے اخراج پر مہارت رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آج کی دنیا کے مسائل اس وقت سے کافی مختلف ہیں جب شہروں میں نکاسی کا نظام متعارف کروایا گیا تھا۔
عین ممکن ہے کہ ہم پانی کی بڑھتی ہوئی سطح کے ساتھ جدت میں بھی اضافہ دیکھیں۔ 2019 میں اقوام متحدہ نے ایک اجلاس میں تیرتے ہوئے شہروں کے تصور پر بات کی۔
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو ختم کر کے موسمیاتی تبدیلی کو روکنا سمندر کی سطح میں اضافے کے عمل کو بھی سست رفتار کر سکتا ہے۔
ڈی ہونڈیٹ کا کہنا ہے کہ ’حکومتوں کو پریشان ہونا چاہیے۔ اگر ہم چند صدیوں میں بڑی تباہی سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں فوری طور پر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔‘