وزیراعظم شہباز شریف کے دورِ حکومت میں کتنی مہنگائی ہوئی اور پاکستان کی معاشی کارکردگی کیسی رہی؟
اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی سربراہی میں بننے والی مخلوط حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد جس شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا وہ معیشت کا شعبہ تھا۔
مخلوط حکومت میں شامل تینوں بڑی جماعتوں، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام ف، کی طرف سے تحریک انصاف کی حکومت پر ملکی معیشت کو اس نہج تک لانے کے الزام عائد کیا جہاں پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ پیدا ہوا۔
گذشتہ ڈیڑھ سال کی حکومت کے بعد ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور معیشت کو واپس پٹڑی پر لانے کے دعوے کیے گئے ہیں تاہم دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور دوسرے معاشی اشاریے بھی گراوٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔
جہاں گذشتہ ڈیڑھ سال میں ڈالر کی قیمت میں سو روپے سے زائد کا اضافہ ہوا وہیں بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں تاریخ کے بڑے اضافے دیکھے گئے۔ ملک پر چڑھے قرض میں اضافہ جبکہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب رقوم بھیجنے میں کمی کا رجحان دیکھا گیا۔
شہباز شریف کی سربراہی میں ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں پاکستان کی معاشی کارکردگی کیسی رہی؟ اس حوالے سے بی بی سی نے معیشت کے اُن مختلف شعبوں کا جائزہ لیا گیا جن سے عام آدمی کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ذیل میں دیے گئے اعدادو شمار کا ذریعہ حکومتی ادارے ہیں۔
ڈالر
پاکستانی معیشت میں ڈالر کی قدر ایک اہم معاشی اشاریہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی قدر میں کمی یا اضافہ ملکی معیشت کے دوسرے اشاریوں کے ساتھ ایک عام آدمی کی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے روز ڈالر کی قیمت 184 پاکستانی روپے تھی جو نو اگست یعنی موجودہ حکومت کے خاتمے کے دن 287 روپے تھی۔
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے بعد ڈالر کی قدر کو مستحکم کرنے کے متعدد دعوے کیے مگر ڈالر شتر بےمہار کی مانند بے قابو رہا اور وہ وقت بھی آیا جب ڈالر کا سرکاری ریٹ 300 روپے کی حد تک چلا گیا۔
ڈالر کی قیمت میں موجودہ حکومت کے ڈیڑھ سالہ دور میں سو روپے سے زائد کا اضافہ ہوا جو ماضی کی کسی حکومت کے دور میں اس رفتار سے نہیں بڑھا۔ ملکی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والے تاریخی اضافے کا جائزہ لیا جائے تو اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کی بحالی میں تعطل اور پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف معاہدے کی شرائط کو پورا نہ کرنا تھا۔
موجودہ حکومت کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اگست 2022 میں آئی ایم ایف کے پروگرام کو بحال کروا لیا تھا تاہم ان کی وزارت خزانہ سے رخصتی کے بعد اسحاق ڈار اس پروگرام کو مسلسل نو مہینے تک بحال کروانے میں ناکام رہے اور پھر جون 2023 میں پرانے پروگرام کی بحالی کی بجائے نو مہینوں کے لیے ایک نیا پروگرام منظور ہوا۔
تاہم پروگرام میں بحالی میں تاخیر کی وجہ سے پاکستانی روپے پر بے پناہ دباؤ بڑھا اور ملک میں بیرونی ذرائع سے ڈالر کے ذرائع سکڑے تو ڈالر کی قلت پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے درآمد کے لیے ایل سیز نہ کھل پائیں تو دوسری جانب ڈالر بھی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔
موجودہ سال مئی میں ڈالر کی قدر ایک بار 300 روپے تک چلی گئی جس میں آئی ایم ایف پروگرام کے منظور ہونے کے بعد کچھ کمی ہوئی تاہم موجودہ حکومت اپنے دور اقتدار کے اختتام پر ڈالر کی قیمت گذشتہ حکومت کے دور کے مقابلے میں سو روپے سے زیادہ پر چھوڑ کر جا رہی ہے۔
مہنگائی کی شرح اور روزمرہ اشیا کی قیمتیں
تحریک انصاف کی حکومت کے اختتام پر پاکستان میں مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد تھی جو موجودہ حکومت کے دور میں جولائی کے مہینے کے اختتام پر 28.3 فیصد پر بند ہوئی ہے۔ مخلوط حکومت کے ڈیڑھ سالہ دور میں مہنگائی کی شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر رواں سال مئی میں 38 فیصد تک بھی پہنچی۔
اسی طرح روز مرہ استعمال کی مختلف اشیا کی قیمتوں کر جائزہ لیا جائے تو ڈیڑھ سالہ دورِ حکومت میں ان میں کافی بڑا اضافہ نظر آتا ہے۔ پاکستان میں آٹے کی قیمت اپریل 2022 میں 58 روپے فی کلو تھی جو جولائی 2023 کے اختتام پر 141 روپے فی کلو تھی۔
اسی طرح چینی کی قیمت سابقہ حکومت کے آخری دنوں میں 88 روپے فی کلو تھی جو موجودہ حکومت کے اختتام پر 140 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ اپریل 2022 میں پیاز کی قیمت 40 روپے فی کلو تھی جو اب 59 روپے فی کلو ہے، ٹماٹر 86 روپے فی کلو تھا جو اب 91 روپے فی کلو پر دستیاب ہے۔
اسی طرح ڈھائی کلو کا گھی کا ڈبہ اپریل 2022 میں 1137 روپے کا تھا جو اب 1467 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ دال مسور کی فی کلو قیمت اپریل 2022 میں 214 روپے تھی جو اب 275 روپے ہے، برائلر چکن 287 روپے تھا جو اب 429 روپے پر موجود ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کی شرح اور روز مرہ اشیا کی قیمتوں میں ہونے والے بڑے اضافے کی وجہ ڈیڑھ سال کے دوران معیشت سے جڑے مسائل ہیں۔ ملک میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے دالوں، گھی، گندم اور دوسری اشیائے خورد و نوش کے درآمدی کارگوز کی کلیئرنس دیر سے ہوئی یا پھر ہو ہی نہیں سکی جس کی وجہ سے سپلائی چین میں تعطل آیا اور دوسری طرف ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ان کی درآمد پر لاگت بھی بڑھی کیونکہ پاکستان خوردنی اشیا یا ان کی تیاری مین استعمال ہونے والے خام مال کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔
موجودہ حکومت اگرچہ مہنگائی کو کم کرنے کے دعوے کے ساتھ برسر اقتدار آئی تھی تاہم اس کے دور حکومت کے اختتام پر یہ تحریک انصاف کی حکومت کے مقابلے میں مہنگائی کی دگنی شرح چھوڑ کر جا رہی ہے۔
پٹرول، بجلی و گیس کی قیمتیں
پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں ایک اہم فیکٹر پٹرول اور بجلی و گیس کی قیمتیں بھی ہیں۔
ملک میں گذشتہ ڈیڑھ سال میں مہنگائی کی بلند ترین شرح کی ایک وجہ پٹرول، بجلی و گیس کی قیمتوں میں ہونے والا بے پناہ اضافہ بھی رہا، جن کی قیمتوں میں کسی بھی ماضی کی حکومت کے مقابلے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔
پٹرول کی فی لیٹر قیمت تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے یعنی اپریل 2022 میں 150 روپے تھی اور آج یہ قیمت تقریباً 273 روپے فی لیٹر ہے۔
سابقہ حکومت کے فیصلے کے تحت نئی حکومت نے ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں پیٹرول کی قیمت نہیں بڑھائی مگر 26 مئی کو حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے شرائط کے تحت پٹرول پر تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک ہی دن میں 80 روپے سے زائد کا اضافہ کر دیا۔
اس تاریخی اضافے کے بعد یہ سلسلہ تھم نہ سکا جس کی ایک بڑی وجہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ملک میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والا اضافہ بھی تھا۔ پاکستان پیٹرول کی ضرورت پوری کرنے کے لیے 85 فیصد تک پیٹرول درآمد کرتا ہے۔
اگر حکومتی اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو گذشتہ ڈیڑھ سال کی اتحادی حکومت نے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 120 روپے تک کا اضافہ کیا ہے۔
بجلی کی قیمتیں بھی ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں بہت زیادہ بڑھیں جس کی وجہ آئی ایم ایف کی یہ شرط تھی کہ بجلی کے شعبے کا 2500 ارب روپے کا گردشی قرضہ ختم کرنا ہے جس کے لیے قیمتیں بڑھانی ہوں گی۔
اپریل 2022 میں سو یونٹ تک بجلی خرچ کرنے والے گھرانے فی یونٹ 9.50 روپے قیمت ادا کر رہے تھے جو آج 16.48 روپے تک پہنچ گیا۔ اسی طرح 200 سے 300 یونٹ کے درمیان بجلی خرچ کرنے والے صارفین جو اپریل 2022 میں فی یونٹ 12.62 روپے ادا کر رہے تھے آج وہ 27.14 روپے فی یونٹ ادا کر رہے ہیں۔
اسی طرح 700 یونٹ سے زائد ماہانہ بجلی خرچ کرنے والے صارفین اپریل 2022 میں 22.22 روپے فی یونٹ ادا کر رہے تھے اور اب وہ اس بجلی قیمت 42.72 روپے فی یونٹ ادا کر رہے ہیں۔
گیس کی قیمتوں میں بھی گذشتہ ڈیڑھ سال میں بڑا اضافہ ہوا اور 50 یونٹ فی ایم ایم بی ٹی یو گیس استعمال کرنے والے صارفین جو اپریل 2022 میں اس کی قیمت 121 روپے ادا کر رہے تھے اب یہ گیس انھیں 150 روپے میں دستیاب ہے ۔ 500 ایم ایم بی ٹی یو ماہانہ استعمال کرنے والوں کو گیس موجودہ دور میں 3100 روپے میں مل رہی ہے جو ڈیڑھ سال پہلے 1460 روپے میں دستیاب تھی۔
پاکستان کا قرضہ
پاکستان پر مجموعی قرضوں کے حجم میں گذشتہ ڈیڑھ سال میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔
مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2022 کے اختتام پر ملک پر مجموعی قرضے (اندرونی و بیرونی) 43000 ارب روپے تھے۔
ملک کے مرکزی بینک کی جانب سے اب تک مئی 2023 تک کے قرضے کے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں جن کے مطابق ملک کا مجموعی قرضہ 58962 ارب روپے ہو چکا ہے۔ اس طرح 13 مہینے کے عرصے میں ملک پر قرضوں کے حجم میں تقریباً 16000 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
پاکستان کے قرضوں میں ہونے والے اس اضافے کی ایک بڑی وجہ ڈالر کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہے کیونکہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ایک جانب بیرونی قرضے کو بڑھا دیتا ہے تو دوسری جانب حکومت کی جانب سے مقامی بینکوں سے بہت زیادہ قرضہ حاصل کیا گیا ہے تاکہ مالیاتی خسارے کو پورا کیا جا سکے۔
بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم
بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم ملک کے بیرونی فنانسنگ کا ایک اہم شعبہ ہے جس کے تحت کرنٹ اکاؤنٹ میں توازن لایا جاتا ہے۔
سابقہ حکومت کے دور اقتدار کے خاتمے پر ماہانہ ترسیلات زر کا جائزہ لیا جائے تو مارچ 2022 میں 2.8 ارب ڈالر ترسیلات زر ہوئے جو اپریل 2022 میں 3.1 ارب ڈالر ہو گئے تاہم اس کے بعد ان میں مسلسل کمی ہوئی۔ رواں سال جنوری کے مہینے میں یہ رقوم دو ارب ڈالر کی سطح سے نیچے آ گئیں۔
جون کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستانیوں کی جانب سے 2.2 ارب ڈالر ترسیلات زر ہوئے۔
ترسیلات زر میں ہونے والی کمی کے بارے میں تحریک انصاف کی جانب سے دعوے کئے گئے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں تاہم اس کی کچھ دوسری بنیادی وجوہات ہیں جن میں ایک سب سے بڑی وجہ ملک میں ڈالر کے سرکاری اور اوپن ریٹ کے درمیان بہت زیادہ فرق رہا ہے جس کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے سرکاری چینل کی بجائے حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجی گئیں کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام سے پہلے سرکاری اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ میں بیس سے پچیس روپے کا فرق رہا ہے۔
ٹیکس وصولی
موجودہ حکومت کے ڈیڑھ سال کے عرصے میں اکثر معاشی اشاریے گراوٹ کا شکار ہوئے تاہم اس عرصے میں ٹیکس وصولی میں اضافہ دیکھا گیا۔
ملک میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 30 جون 2023 کو ختم ہونے والے مالی سال میں 7144 ارب روپے جمع کیے جو ملکی تاریخ میں ایک سال میں سب سے زیادہ ٹیکس وصولی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے اپریل 2022 میں خاتمے کے وقت مالی سال 22-2021 کے پہلے نو مہینوں میں ملک میں ٹیکس کی وصولی 4382 ارب روپے تھی جو اس مخلوط حکومت کے دور حکومت میں مالی سال 23-2022 کے پہلے نو مہینوں میں 5155 ارب رہی اور یہ اضافہ 17.5 فیصد تھا۔
پاکستان میں ٹیکس وصولی کا زیادہ ہدف آئی ایم ایف شرائط کے تحت رکھا گیا تاکہ ملک کے بجٹ خسارے کو کم کیا جا سکے تاہم اس ٹیکس وصولی کے لیے حکومت کی جانب ایک جانب تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی تو دوسری جانب سیلز ٹیکس کی شرح سترہ سے اٹھارہ فیصد اور لگژری اشیا پر اس کی شرح 25 فیصد کر دی گئی۔