ورلڈ فوڈ ڈے دنیا کے قحط زدہ خطے جہاں عوام چوہے کا گوشت، ہڈیاں، مٹی اور کھالیں کھا کر پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں
قحط، غربت، جنگ، بیماری۔۔۔ ایسے بہت سے عوامل ہیں جو ہمارے کھانے پینے کے عمل کو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں۔
غیر معمولی حالات میں مایوسی کا شکار لوگ زندہ رہنے کے لیے کیچڑ، کیکٹس کے پھل، پھول، چوہے، ضائع شدہ ہڈیاں یا جانوروں کی کھال کا سہارا لیتے ہیں۔
شدید بھوک، غذا اور غذائیت کی کمی دنیا کے کئی حصوں میں روزمرہ کا چیلنج ہے اور اس کا پیمانہ واقعی بہت بڑا ہے: اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ ’ہر رات تقریباً 82 کروڑ افراد بھوکے سوتے ہیں‘ اور ’34 کروڑ شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
خوراک کے عالمی دن (16 اکتوبر) سے پہلے بی بی سی نے دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے چار لوگوں سے بات کی جنھوں نے شدید بھوک کا تجربہ کیا، اور ان سے پوچھا کہ وہ کیسے زندہ بچ گئے۔
’چوہا ہی واحد گوشت ہے جسے میں برداشت کر سکتی ہوں‘
جنوبی انڈیا سے تعلق رکھنے والی رانی کہتی ہیں: ’میں بچپن سے ہی چوہے کھاتی رہی ہوں اور مجھے کبھی صحت کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ میں اپنی دو برس کی پوتی کو چوہے کھلاتی ہوں۔ ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں۔‘
49 برس کی رانی چنئی کے قریب رہتی ہیں اور ملک کی سب سے پسماندہ کمیونٹی میں سے ایک سے تعلق رکھتی ہیں۔ انھوں نے پانچ سال کے بعد سکول چھوڑ دیا تھا۔
انڈیا کے ذات پات پر مبنی درجہ بندی کے سماجی ڈھانچے میں یہاں کے لوگوں کو برسوں سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے اور رانی ایک این جی او کے لیے کام کرتی ہیں جو اپنی برادری، ارولا، کے لوگوں کو بچاتی ہے جو جبری مشقت کا شکار ہیں۔
رانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم ہمیشہ قصبوں اور دیہاتوں سے باہر رہتے تھے۔ ہمارے والدین اور دادا دادی نے ہمیں بتایا کہ بعض اوقات ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔۔ یہاں تک کہ زیر زمین سبزی یعنی ’کُھمبی‘ بھی نہیں۔ ان مشکل وقتوں میں چوہوں نے ہمیں انتہائی ضروری خوراک فراہم کی تھی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میں نے انھیں بہت چھوٹی عمر سے پکڑنا سیکھا تھا۔‘
کسی بھی حالت میں گزارہ کرنے کی ماہر رانی نے بچپن میں حاصل کی تھی اب وہ اپنے ہی خاندان کو کھانے میں مدد کرتی ہیں، وہ ہفتے میں کم از کم دو بار چوہے کا گوشت پکاتی ہیں۔
ارولا کے عوام دھان کے کھیتوں میں پائے جانے والے چوہوں کی ایک خاص قسم کھاتے ہیں جو عام طور پر گھروں میں پائے جاتے ہیں۔
رانی کا کہنا ہے کہ ’ہم چوہوں کی کھال کو چھیلتے ہیں اور گوشت کو آگ پر پکا کر کھاتے ہیں۔ بعض اوقات ہم اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹتے ہیں اور اسے دال اور ایملی کی چٹنی کے ساتھ پکاتے ہیں‘۔
چوہوں کا اپنے بلوں میں چھپایا ہوا اناج بھی ارولا کے لوگ اکٹھا کرتے ہیں اور کھاتے ہیں۔ رانی کا کہنا ہے کہ ’میں مہینے میں صرف ایک بار چکن یا مچھلی کھانے کی استطاعت رکھتی ہوں۔ چوہے وافر مقدار میں دستیاب ہیں اور مفت ہیں۔‘
’میں نے گدلا پانی پیا اور لوگوں کو لاشوں سے گوشت کھاتے ہوئے دیکھا‘
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ صومالیہ کو تباہ کن قحط سالی کا سامنا ہے اور ملک میں 40 سال کی بدترین خشک سالی نے پہلے ہی دس لاکھ سے زائد افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔
سات بچوں کی چالیس برس کی ماں شریفو حسان علی بے گھر ہونے والوں میں سے ایک ہیں۔
انھوں نے اپنا گاؤں چھوڑا اور زیادہ تر پیدل چلتے ہوئے 200 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کیا۔۔ لوئر شیبل ریجن سے دارالحکومت موغادیشو کے مضافات میں ایک عارضی بستی تک پہنچنے میں انھیں پانچ دن لگے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’سفر کے دوران ہم نے دن میں صرف ایک بار کھانا کھایا۔ جب زیادہ کھانا نہیں تھا تو ہم نے بچوں کو کھلایا اور ہم بھوکے رہ گئے‘۔
دارالحکومت کے راستے میں انھوں نے کچھ چونکا دینے والے مناظر دیکھے۔
حسان علی کا کہنا ہے کہ ’دریا مکمل طور پر خشک ہو چکا ہے۔ یہاں برسوں سے پانی بہت کم ہے، اس لیے ہمیں کیچڑ والا پانی پینا پڑا۔‘
ان کے مطابق ’میں نے موغادیشو جاتے ہوئے سینکڑوں مُردہ جانور دیکھے۔ لوگ لاشوں اور جانوروں کی کھالیں بھی کھا رہے ہیں۔‘
حسان علی کے پاس 25 گائیں اور 25 بکریاں تھیں۔ خشک سالی میں سب جانور ہلاک ہو گئے۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘بارش نہیں ہے اور میرے کھیت میں کچھ بھی نہیں اُگ رہا ہے۔‘
اب وہ دوسرے لوگوں کے کپڑے دھو کر روزانہ دو ڈالر سے بھی کم کماتی ہیں۔ یہ پیسے روز کے کھانے کے لیے بھی کافی نہیں ہیں۔
ان کے مطابق ’میں اس کے ساتھ مشکل سے ایک کلو چاول اور سبزیاں خرید سکتی ہوں، اور یہ ہر ایک کے لیے کبھی بھی کافی نہیں ہوتا۔ یہ خشک سالی ہم پر بہت مشکل ہے۔‘
انھیں امدادی ایجنسیوں سے کچھ مدد ملتی ہے، لیکن وہ کہتی ہیں کہ یہ کافی نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔‘
‘میرے خاندان کا انحصار ناکارہ جِلد اور ہڈیوں پر ہے’
گذشتہ دو برسوں سے ساؤ پاؤلو سے تعلق رکھنے والی 63 برس کی دادی لِنڈنالوا ماریا ڈا سلوا ناسیمینٹو مقامی قصابوں کی طرف سے ضائع کی گئی ہڈیاں اور جلد کھا رہی ہیں۔
یہ ریٹائرڈ ملازم جو اب پنشنر ہیں کے پاس انھیں، ان کے شوہر، ایک بیٹے اور دو پوتوں کا پیٹ پالنے کے لیے صرف چار ڈالر کا یومیہ بجٹ ہے۔
وہ گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں، اس لیے مختلف قصابوں کے پاس جاتی ہیں اور مرغی کے گوشت کے چھیچھڑے اور کھالیں خریدتی ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی فی کلو قیمت بھی تقریباً 0.70 ڈالر ہے۔
ان کے مطابق ’میں ان ہڈیوں کو گوشت کے ٹکڑوں کے ساتھ پکاتی ہوں جو جلد میں رہ جاتی ہیں۔ میں ذائقہ کے لیے پھلیاں شامل کرتی ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ چکن کی کھال کو بغیر تیل کے پین میں فرائی کیا جاتا ہے اور اس کے بعد جمع ہونے والی چربی کو جمع کر کے محفوظ کیا جاتا ہے۔ وہ اسے خالی برتنوں میں رکھتی ہیں اور بعد میں اس میں دیگر کھانے فرائی کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں پھل، سبزیاں یا میٹھی چیزیں خریدنے کے بارے میں سوچتی بھی نہیں۔ اس سے پہلے میرے پاس گوشت اور سبزیوں سے بھرا فریزر تھا اور فریج میں بند گوبھی، ٹماٹر، پیاز، بہت کچھ تھا۔ آج یہ خالی ہے اور میرے پاس پھلوں کے پیالے میں صرف ایک پیاز ہے۔‘
لِنڈنالوا وبائی امراض کے دوران اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں اور ان کا بیٹا بھی بے روزگار ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں مقامی کیتھولک چرچ کی مدد پر اور ان لوگوں کے کھانے کے عطیات پر انحصار کرتی ہوں جنھیں میں جانتی ہوں۔ اس طرح میں زندہ رہتی ہوں۔‘
برازیلین نیٹ ورک فار فوڈ سکیورٹی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق برازیل میں تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جون میں جاری ہونے والی نئی تحقیق میں یہ بھی پایا گیا کہ نصف سے زیادہ آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔
لِنڈِنالوا کہتی ہیں کہ ’قصاب اکثر کہتے ہیں کہ ان کے پاس ہڈیاں بھی نہیں ہیں۔‘ ان کے مطابق خوراک کو محفوظ رکھنے کے لیے اسے جتنا ممکن ہو کم کھانا چاہیے۔‘
’میں اور میرے بچے سرخ کیکٹس (ایک قسم کے خار دار پودے) پر گزارہ کر کے زندہ ہیں‘
ان کے مطابق ’نہ بارش ہوتی ہے اور نہ فصل ہوتی ہے۔ ہمارے پاس فروخت کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میں چاول کھانے کی استطاعت نہیں رکھتی۔‘
25 برس کی فیفینیا دو بچوں کی ماں ہیں جو بحر ہند کے جزیرے مڈغاسکر سے تعلق رکھتی ہیں۔
دو سال سے ہونے والی بہت کم بارشوں نے فصلوں اور مویشیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق یہ صورتحال دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو فاقہ کشی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
فیفینیا امبواسری قصبے میں رہتی ہیں جو خشک سالی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔
وہ اور ان کے شوہر پانی فروخت کر کے گزر بسر کر رہے ہیں۔
انھوں نے یونیسیف کے ایک مترجم کے ذریعے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں پیسہ کماتی ہوں تو میں چاول یا کاساوا خریدتی ہوں۔ جب میرے پاس کچھ نہیں ہوتا تو مجھے سرخ کیکٹس کا پھل کھانا پڑتا ہے یا بغیر کچھ کھائے سونا پڑتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’یہاں کے زیادہ تر لوگ کیکٹس کا پھل کھاتے ہیں۔ اس کا ذائقہ تھوڑا ایملی جیسا ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ہم اسے پچھلے چار ماہ سے کھا رہے ہیں اور اب میرے دونوں بچے ’ڈائِریا‘ میں مبتلا ہیں۔‘
ڈبلیو ایف پی نے گذشتہ سال رپورٹ کیا تھا کہ جنوبی مڈغاسکر میں ’لوگ اپنی بھوک مٹانے کے لیے املی کے رس، کیکٹس کے پتے، جنگلی جڑوں کے ساتھ سفید مٹی کھا رہے تھے۔‘
یہ پھل فیفینیا کے خاندان کو زندہ رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن یہ ان کو مطلوبہ وٹامنز اور معدنیات فراہم نہیں کرتا ہے۔ ان کا چار برس کا بچہ ان بہت سے لوگوں میں شامل ہے جو غذائی قلت کی وجہ سے کمزوری کا شکار ہے۔
فیفینیا کہتی ہیں کہ ’اگر ہمارے پاس تھوڑی سی بارش بھی برسے تو ہم کچھ فصل حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم میٹھے آلو، کاساوا اور پھل کھا سکتے ہیں اور ہمیں کیکٹس کا پھل کھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘
ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ بھوک ہے۔
یہ اس ’بڑے پیمانے پر بھوک کے بحران کا ذمہ دار چار عوامل کو ٹھراتا ہے: تنازع، المناک ماحولیاتی تبدیلیاں، کووڈ 19 وبائی امراض کے معاشی نتائج اور بڑھتے ہوئے اخراجات۔
سنہ 2022 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو ایف پی کے ماہانہ آپریٹنگ اخراجات سنہ 2019 کی اوسط سے 73.6 ملین امریکی ڈالر زیادہ ہیں جو کہ ایک حیران کن 44 فیصد اضافہ بنتا ہے۔
آپریٹنگ اخراجات پر اب جو اضافی خرچ کیا جاتا ہے اس سے پہلے ایک ماہ کے لیے چالیس لاکھ لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔
رپورٹ کے مطابق صرف پیسہ ہی بحران کو ختم نہیں کرے گا: جب تک تنازعات کو ختم کرنے کے لیے سیاسی عزم اور گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کا عزم نہ ہو تو ’بھوک کے اصل محرکات بلا روک ٹوک جاری رہیں گے۔‘