نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان اور کراچی بم دھماکہ شیریٹن ہوٹل

نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان اور کراچی بم دھماکہ شیریٹن ہوٹل

نیوزی لینڈ کا دورہ پاکستان اور کراچی بم دھماکہ شیریٹن ہوٹل دھماکے کی کہانی راشد لطیف، شعیب اختر اور مارک رچرڈسن کی زبانی

آج سے 19 برس قبل، مئی کی آٹھ تاریخ کی صبح ہوئی تو کراچی کے پرل کانٹیننٹل ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے پاکستان اور نیوزی لینڈ کے کرکٹرز کے ذہنوں میں دوسرے ٹیسٹ میچ کے علاوہ کوئی دوسری بات نہ تھی جو کچھ دیر بعد ہی نیشنل سٹیڈیم میں شروع ہونے والا تھا۔

ہر کوئی اسی کی تیاری میں مگن تھا۔ کچھ کھلاڑی ناشتہ کر رہے تھے۔ کچھ اپنے کمروں میں تیار ہو رہے تھے۔ لیکن کسی نے بھی نہ سوچا ہو گا کہ اگلے چند لمحات میں انھیں دل دہلانے والی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔

نیوزی لینڈ کے کرکٹرز کو سٹیڈیم لے جانے والی بس تیار کھڑی تھی کہ اچانک ان کے ہوٹل کے سامنے ہی واقع شیریٹن ہوٹل کی سڑک پر زور دار دھماکہ ہوا۔ یہ ایک کار بم دھماکہ تھا جس کا ہدف فرانسیسی انجینئرز تھےجو شیریٹن ہوٹل سے نکل کر اپنی بس میں سوار ہوئے تھے۔

یہ فرانسیسی انجنئیر آگسٹا آبدوز کی تیاری کے سلسلے میں پاکستان آئے ہوئے تھے اور اس دھماکے کے نتیجے میں گیارہ فرانسیسی انجینئرز سمیت سترہ افراد ہلاک ہو گئے۔

دھماکے کے کچھ دیر بعد نیوزی لینڈ کے کرکٹرز خوف کے عالم میں ہوٹل کے سوئمنگ پول کے سامنے جا بیٹھے اور پھر آئی سی سی میچ ریفری مائیک پراکٹر، پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر بریگیڈئر (ریٹائرڈ) منور رانا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم کے منیجر جیف کروو نے ہنگامی طور پر طلب کردہ پریس کانفرنس میں یہ دورہ ختم کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے کرکٹرز کے لیے یہ ایک خوفناک صورتحال تھی اور وہ آج بھی یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لرز جاتے ہیں۔

‘شعلے میں لپٹی بس کو اوپر جاتے دیکھا’

پاکستانی وکٹ کیپر بیٹسمین راشد لطیف کہتے ہیں کہ وہ دھماکے والی صبح دیر سے اٹھے تھے۔

’غسل لینے کے بعد میں فجر کی قضا پڑھ رہا تھا کہ جیسے ہی سلام پھیرا ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ میرا کمرہ پہلی منزل پر تھا۔ میں نے شعلے میں لپٹی بس کو اوپر جاتے دیکھا۔ میرے کمرے کی کھڑکی کے شیشے ٹوٹ چکے تھے۔ ہمارے کمروں کے دروازے بند ہو گئے تھے۔ میں بڑی مشکل سے دروازہ کھول پایا۔ میرے سامنے شعیب اختر کے کمرے کا دروازہ نہیں کھل رہا تھا۔ میں نے اور وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں نے لاتیں مارکر دروازہ کھولا اور انھیں باہر نکالا۔’

‘تباہی کا منظر اور خوف کا عالم’

اس سیریز میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان وقاریونس اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دھماکے کے بعد کھلاڑی بہت زیادہ خوفزدہ ہو گئے تھے۔

‘تمام لفٹیں بند تھیں اور ہمیں سیڑھیوں کے راستے نیچے آنا پڑا تھا۔ ہوٹل کی لابی تباہ حال منظر پیش کر رہی تھی۔ ہر طرف شیشے ہی شیشے بکھرے ہوئے تھے اور کوئی بھی چیز صحیح سلامت نہیں تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ عمارت کسی بھی وقت گر جائے گی۔اس وقت کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہوا کیا ہے؟ آج اتنا عرصہ ہو جانے کے بعد بھی جب اس واقعے کو یاد کرتے ہیں تو جسم میں بجلی سی دوڑ جاتی ہے۔’

گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، ٹیسٹ میچ لنچ ٹائم کے بعد شروع ہوجائے گا’

کراچی
شعیب اختر نے صرف 11 رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کرکے نیوزی لینڈ کو پہلی اننگز میں صرف 73رنز پر آؤٹ کردیا تھا

فاسٹ بولر شعیب اختر اس واقعے کو اس طرح یاد کرتے ہیں۔

‘میں صوفے پر بیٹھا تھا کہ اچانک کھڑکی کے پردے کے پیچھے مجھے آگ نظر آئی اور اتنی زوردار آواز آئی کہ مجھے لگا کہ میرے کان کے پردے پھٹ گئے ہوں۔ اس واقعے کی وجہ سے آج بھی مجھے دائیں کان سے صحیح سنائی نہیں دیتا۔’

شعیب اختر کہتے ہیں: ‘راشد لطیف نے میرے کمرے کا دروازہ توڑ کر مجھے باہر نکالا تھا۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ آخر یہ ہوا کیا ہے؟ کیا کسی نے حملہ کر دیا ہے؟ میں صرف اتنا کر سکا کہ اپنا پاسپورٹ اپنے ساتھ لینا نہیں بھولا اور باہر نکل آیا۔ کوریڈور میں افراتفری مچی ہوئی تھی۔ کوئی ادھر بھاگ رہا تھا، کوئی دوسری طرف۔ جب ہم سب نیچے آئے تو میں نے دیکھا کہ نیوزی لینڈ کے کرکٹرز بیٹھے ہوئے رو رہے تھے۔وہ بہت خوفزدہ نظر آرہے تھے۔’

شعیب اختر کا کہنا ہے: ‘مجھے اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک افسر کی اس بات پر بہت حیرانی ہوئی کہ وہ کہہ رہے تھے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ٹیسٹ میچ لنچ ٹائم کے بعد شروع ہو جائے گا۔’

شعیب اختر بتاتے ہیں: ’اس واقعے کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ مجھے کراچی آتے ہوئے ڈر خوف محسوس ہوتا تھا حالانکہ میں نے کراچی میں ہڑتالیں اور فائرنگ بھی دیکھی تھی۔ ان دنوں تو میں پیدل الکرم سکوائر سے نیشنل اسٹیڈیم جایا کرتا تھا لیکن میں نے زندگی میں کبھی بم دھماکہ نہیں دیکھا تھا۔‘

‘دھماکہ پانچ منٹ بعد ہوتا تو ہم بھی زد میں آجاتے’

نیوزی لینڈ کی اس ٹیم میں اوپنر مارک رچرڈسن بھی شامل تھے۔ انھوں نے بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ ان کی بس پانچ منٹ بعد سٹیڈیم کے لیے روانہ ہونے والی تھی۔

‘اگر یہ دھماکہ پانچ منٹ بعد ہوتا تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہم بھی براہ راست اس کی زد میں آجاتے۔’

مارک رچرڈسن کہتے ہیں: ‘میں اپنے کمرے میں تھا اور نیچے جانے کے لیے تیار تھا کہ یہ دھماکہ ہوا اور شیشے کا دروازہ نیچے آ گرا۔ خوش قسمتی سے میں محفوظ رہا۔’

کیوی
کیوی کپتان سٹیون فلیمنگ وطن واپس جانے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے

مارک رچرڈسن کہتے ہیں: ‘یہ دورہ بڑے خوشگوار انداز میں بلا کسی خوف و خطر جاری تھا۔ ہم لوگ کھانے کے لیے اپنے ہوٹل سے باہر بھی گئے تھے لیکن اس ایک واقعے نے سب کچھ بدل دیا۔ یہ دل دہلانے کے مترادف تھا۔’

مارک رچرڈسن ازراہ تفنن کہتے ہیں: ‘اگر بم دھماکہ نہ بھی ہوتا تب بھی ہم شعیب اختر کے ہاتھوں نہ بچتے جو اس دورے میں زبردست بولنگ کررہے تھے۔’

یاد رہے کہ اس سیریز میں پاکستان نے لاہور میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں سٹیفن فلیمنگ کی اس نیوزی لینڈ ٹیم کو اننگز اور 324 رنز سے شکست دی تھی جو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی پانچویں سب سے بڑی فتح ہے۔

اس میچ میں انضمام الحق نے329 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی جبکہ شعیب اختر نے صرف 11 رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کر کے نیوزی لینڈ کو پہلی اننگز میں صرف 73رنز پر آؤٹ کردیا تھا۔

‘دورہ جاری رکھنے کا سوال ہی نہیں تھا’

کراچی
دھماکے سے پرل کانٹیننٹل ہوٹل کی لابی کو شدید نقصان پہنچا تھا

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق ڈائریکٹر بریگیڈئر منور رانا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں اس واقعے کے بعد ہمیں مغربی ذرائع ابلاغ اور آئی سی سی میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا حالانکہ بورڈ نے سکیورٹی کے انتظامات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور وہ خود اس کی نگرانی کر رہے تھے۔

‘مجھے یاد ہے کہ اس واقعے کے فوراً بعد میں نے نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو مارٹن سنیڈن سے فون پر بات کی تھی اور انھیں بتایا تھا کہ اس واقعے کا کرکٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے، کوئی اور اس حملے کا ہدف تھا۔ لیکن میں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ یہ واقعہ اتنا بڑا ہے اور تمام کرکٹرز کے سامنے ہوا ہے لہٰذا اگر اپ اس دورے کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔’

منور رانا اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں کہ اس واقعے کے کچھ دیر بعد ہی آئی سی سی میچ ریفری مائیک پراکٹر نے پریس کانفرنس کر کے دورہ ختم کرنے کا اعلان کرنے میں جلد بازی کی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر ٹیمیں نیشنل سٹیڈیم پہنچ جاتیں اور ٹاس ہونے کے بعد میچ شروع ہو جاتا اور پیچھے یہ واقعہ ہوا ہوتا تو پھر شاید نیوزی لینڈ والوں کو یہ یقین دہانی کرانی آسان ہوتی کہ وہ محفوظ ہیں۔

‘لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس کے باوجود نیوزی لینڈ والے کھیلنے کے لیے تیار نہ ہوتے کیونکہ اس واقعے کا بہت گہرا اثر ہوا تھا۔’

بریگیڈئر منور رانا اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس خفیہ اداروں کی ایسی رپورٹس موجود تھیں کہ کراچی میں دہشت گردی ہو سکتی ہے لہٰذا دوسرا ٹیسٹ میچ بھی کراچی کے بجائے لاہور ہی میں کروا دیا جائے۔

‘انڈیا نے اس وقت ہمارا بہت ساتھ دیا’

اس واقعے کے وقت لیفٹننٹ جنرل توقیر ضیا پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین تھے۔

اس واقعے کے پاکستانی کرکٹ پر رونما ہونے والے اثرات کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے کا گہرا اثر ہوا تھا کیونکہ نیوزی لینڈ نے بعد میں پاکستان آکر کھیلنے سے انکار کر دیا تھا اور اگر نیوزی لینڈ انکار کرد ے تو پھر اس کا اثر یقیناً دیگر سفید فام ممالک پر بھی پڑنا تھا لیکن اس موقع پر انڈیا نے پاکستان کا بڑا ساتھ دیا۔

‘ایشیئن کرکٹ کونسل کے پلیٹ فارم سے ان ملکوں کو باور کرایا گیا کہ اگر وہ پاکستان آ کر نہیں کھیلے تو پھر ایشیائی ٹیمیں بھی ان کے ممالک میں جا کر نہیں کھیلیں گی۔

’ظاہر ہے کہ کوئی بھی ملک انڈیا کو ناراض کرنا نہیں چاہتا تھا۔ یہ اسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم اگلے ہی سال پانچ ون ڈے انٹرنیشنل میچوں کی سیریز کھیلنے پاکستان آئی تھی۔’

لیفٹننٹ جنرل توقیر ضیا کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم اس واقعے میں ٹارگٹ نہیں تھی لیکن یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا واقعہ ہمارے ملک میں ہوا اور ایسی جگہ ہوا جہاں دونوں ٹیمیں ٹھہری ہوئی تھیں۔

‘سب سے بڑا خوف تو نیوزی لینڈ کے کرکٹرز کو اس بات کا یقیناً ہو گا کہ ہم بھی سفید فام ہیں، آج فرانسیسی انجنئیرز پر حملہ ہوا تو کل ہم پر بھی ہو سکتا ہے۔’

کراچی
مارچ 2002 میں آسٹریلوی بورڈ نے پاکستان دورے سے قبل سکیورٹی معاملات کے لیے ٹیم بھیجی تھی لیکن مئی ہمیں ہونے والے دھماکے کے بعد اس نے پاکستان آنے سے انکار کردیا

واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کے بعد 2002 میں آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کو بھی پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن اس نے پاکستان آنے سے انکار کردیا اور یہ سیریز متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی تھی۔

‘بدقسمتی نیوزی لینڈ کے تعاقب میں’

نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم اگرچہ خوش قسمتی سے کبھی بھی براہ راست کسی بھی دہشت گرد حملے کا نشانہ نہیں بنی لیکن ساتھ ہی قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی نظروں کے سامنے ہونے والے اس قسم کے واقعات کی وجہ سے ان کی کرکٹ ضرور متاثر ہوئی ہے۔

کراچی کے واقعے سے پہلے 1987 میں بھی انھیں سری لنکا کا دورہ اس وقت ادھورا چھوڑ کر وطن واپس جانا پڑا تھا جب دوسرے ٹیسٹ میچ سے قبل کولمبو میں ٹیم ہوٹل کے قریب بم دھماکہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور نیوزی لینڈ ٹیم کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا کہ وہ فوری طور پر وطن واپس لوٹ جائے۔

اس واقعے کے بعد سری لنکا پانچ سال تک کسی بین الاقوامی میچ کی میزبانی نہیں کر سکا تھا اور جب 1992 میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوئی تو نیوزی لینڈ ہی وہ ٹیم تھی جس نے سری لنکا کا دورہ کیا۔

لیکن شومئی قسمت کہ اس دورے میں بھی دہشت گردی کا ایک اور واقعہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں اگرچہ نیوزی لینڈ ٹیم کا دورہ جاری رہا لیکن اس کے پانچ کھلاڑیوں نے دورہ جاری رکھنے سے انکار کر دیا اور وطن واپس چلے گئے۔

ستمبر 2001 میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے پاکستان کے دورے پر روانہ ہوئی تھی اور ابھی وہ سنگاپور پہنچی تھی کہ نائن الیون کا واقعہ پیش آ گیا جس کے نتیجے میں یہ دورہ ختم کر دیا گیا اور ٹیم وہیں سے وطن واپس لوٹ گئی۔

نیوزی لینڈ کرکٹ حکام کو نائن الیون کے واقعے کے پیش نظر خاص طور پر پشاور میں کھیلنے پر سخت تحفظات تھے جہاں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا جانا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *