نون لیگ اور تحریک انصاف سیاسی اختلافات

نون لیگ اور تحریک انصاف سیاسی اختلافات

نون لیگ اور تحریک انصاف سیاسی اختلافات کے باوجود آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کے لیے ایک صفحے پر کیسے ہیں؟

پاکستان میں اس وقت مرکزی اور پنجاب و خیبر پختونخوا میں مخالف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہونے کی وجہ سے سیاسی کشیدگی اور تناؤ کی کیفیت ہے۔

مرکز میں پاکستان مسلم لیگ نون کی سربراہی میں پی پی پی، جے یو آئی ایف اور دوسری جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے مختلف امور پر شکایات رہتی ہیں تو دوسری جانب پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو مرکزی حکومت کے بارے میں تحفظات ہیں۔

ایک دوسرے پر آئے روز الزامات کی بھرمار کے باوجود مرکزی اتحادی حکومت اور پنجاب و خیبر پختونخوا کی تحریک انصاف کی حکومتیں ایک معاملے پر ایک صفحے پر ہیں اور پاکستان کے موجودہ مالی سال کے پہلی سہ ماہی میں مرکزی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں نے اس پر یکسوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ممکن کر دکھایا۔

یہ معاملہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے قرضے کی قسط ریلیز کرنے کے لیے دوسری شرائط کے علاوہ ایک بنیادی شرط ملک کے پرائمری بجٹ کو سرپلس کرنا ہے۔

چاروں صوبوں خاص کر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی تحریک انصاف کی حکومتوں کی جانب سے پرائمری بجٹ سرپلس کرنا اس لحاظ سے نمایاں ہے کہ چند مہینے قبل سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی دونوں صوبوں کے وزرائے خزانہ سے ٹیلی فونک گفتگو کی ایک آڈیو لیک میں شوکت ترین نے دونوں کو کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کو شرائط پوری نہ کرنے کے بارے میں بتائیں۔

آڈیو لیک کے منظر عام پر آنے کے بعد شوکت ترین پر آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو سبوتاژ کرنے پر تنقید کی گئی۔

اسی طرح تیمور جھگڑا کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرط کے صوبائی حکومت کا بجٹ سرپلس کرنے سے معذوری کا اظہار کیا گیا تھا، جب انھوں نے اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو اس سلسلے میں خط لکھا تھا تاہم ٹیلی فونک گفتگو کی آڈیو لیک اور تیمور جھگڑا کی جانب سے خط لکھنے کے باوجود آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے قرض پروگرام کی بحالی منظوری دی  جس کے تحت اگست کے آخر میں ملک کو 1.1 ارب ڈالر کی قسط ملی تھی۔

اگلی قسط کے حصول کے لیے آئی ایم ایف پاکستان کے لیے نویں نظر ثانی جائزے کے لیے جلد اجلاس بلانے والا ہے اور اس سے پہلے جہاں پاکستان دوسری شرائط کو پوری کرنے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے، وہیں پر پاکستان کی جانب سے پرائمری بجٹ سرپلس کرنے کی شرط پوری کر دی گئی ہے جو وفاقی حکومت کی جانب سے پہلی سہ ماہی کے لیے جاری کردہ اعداد و شمار سے واضح ہے۔

مہنگائی

پرائمری بجٹ کیا ہوتا ہے؟

بجٹ ایک عام فہم سا لفظ ہے جو پہلے مئی جون کے مہینوں میں زیادہ تر زیر بحث آتا تھا تاہم اب پاکستان میں کئی سال سے منی بجٹ بھی آتے رہتے ہیں اس لیے بجٹ اور منی بجٹ کے الفاظ اب پورا سال سننے کو ملتے ہیں۔

لیکن پرائمری بجٹ کی اصطلاح کیا ہے اور آئی ایم ایف نے اسے سرپلس کرنے کی شرط کیوں عائد کی، اس کے بارے میں پاکستان کی وزارت خزانہ سے ماضی میں منسلک رہنے والے ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے بتایا کہ ’بجٹ تو آمدن اور اخراجات کا تخمینہ ہوتا ہے۔ اگر آمدن زیادہ اور اخراجات کم ہوں تو بجٹ سرپلس ہوگا اور اگر اخراجات زیادہ اور آمدن کم ہو تو یہ خسارے کا بجٹ ہوگا۔‘

انھوں نے کہا ’پرائمری بجٹ آمدن اور ایسے اخراجات ہوتے ہیں جن میں سود کی ادائیگی شامل نہیں ہوتی۔‘

انھوں نے کہا کہ پرائمری بجٹ میں اگر آمدن ایسے اخراجات سے زیادہ ہو جس میں سود کی ادائیگی شامل نہ ہو تو یہ پرائمری بجٹ سرپلس ہو گا اور اگر اخراجات سود کی ادائیگی نکال کر بھی آمدن سے زیادہ ہوں تو ایسا پرائمری بجٹ خسارے کا بجٹ ہوگا۔

پاکستان کے موجودہ مالی سال کے بجٹ میں اخراجات کا تخمینہ نو ہزار 118 ارب روپے لگایا گیا ہے جن میں تین ہزار 114 ارب روپے اس سال اندرونی و بیرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

آئی ایم ایف

وفاقی و صوبائی حکومتوں کا پرائمری سرپلس بجٹ کتنا رہا ؟

وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے پہلی سہ ماہی کے لیے جاری کردہ ملک کے مالیاتی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ زیر جائزہ مدت میں اگرچہ ملک کا مجموعی بجٹ خسارہ ایک فیصد رہا تاہم پرائمری سرپلس بجٹ 0.2 فیصد رہا جس کا مطلب ہے کہ پاکستان نے پہلی سہ ماہی میں قرضوں کی ادائیگی کے لیے ادا کیے جانے والے سود کو اس میں شامل نہیں کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے پہلی سہ ماہی میں 125 ارب روپے کا سرپلس پرائمری بجٹ دیا اور تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اس سہ ماہی میں تین ارب روپے کے لگ بھگ سرپلس پرائمری بجٹ رہا۔

مرکزی حکومت کی دوسری بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ میں قائم صوبائی حکومت کی جانب سے اس سہ ماہی میں جو سرپلس پرائمری بجٹ دیا گیا اس کی مالیت ساٹھ ارب روپے رہی۔ مرکزی حکومت میں مخلوط حکومت کا حصہ بلوچستان عوامی پارٹی کی سربراہی میں قائم بلوچستان حکومت نے اس سہ ماہی میں 29.5 ارب کا سرپلس پرائمری بجٹ دیا۔

پاکستان کی چاروں صوبائی حکومتوں نے اپنے پرائمری بجٹ کو سرپلس کیا جس کی وجہ سے ملک کا مجموعی طور پر پہلی سہ ماہی میں پرائمری بجٹ سرپلس ہوا جسے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت سرپلس رکھنا ہے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ پاشا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف نے پرائمری بجٹ کو سرپلس کرنے کے لیے کہا ہے اور اب تک کہ اعداد و شمار کے مطابق پرائمری بجٹ سرپلس ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس کے لیے وفاقی حکومت نے ریسورس موبلائزیشن کی اور اپنے مالیاتی معاملات میں مزید ڈسپلن لایا۔

انھوں نے کہا کہ صوبوں نے بھی اپنے ریونیو بڑھائے اور اس کے ساتھ ان کی مالیاتی حالت بھی اچھی ہے، جس کی وجہ سے یہ پرائمری بجٹ سرپلس ہوا۔

مہنگائی

سیاسی اختلافات کے باوجود پرائمری بجٹ کیسے سرپلس ہوا؟

موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں اگرچہ چاروں صوبوں کے پرائمری بجٹ سرپلس رہے۔

سندھ اور بلوچستان میں مرکز میں قائم مخلوط حکومت کے اتحادیوں کی حکومت ہے تاہم پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت جو اس وقت مرکزی حکومت کے خلاف سیاسی طور پر صف آرا ہیں اور اس حکومت کو گرا کر ملک میں فوری عام انتخابات چاہتی ہے تاہم مرکز کی اتحادی حکومت اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں نے آئی ایم ایف شرط کے تحت پرائمری بجٹ کو سرپلس کر دکھایا۔

خیبرپختونخوا کی جانب سے سرپلس پرائمری بجٹ ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب صوبے کی جانب سے وفاقی حکومت پر نیٹ ہائیڈل پرافٹ، کالعدم فاٹا کے صوبے میں انضمام شدہ اضلاع اور ترقیاتی بجٹ میں رقم نہ دینے یا کم دینے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کی جانب سے چند روز پہلے وفاقی حکومت کو فنڈز نہ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

فنڈز کی کمی شکایات کے باوجود صوبے کا پرائمری بجٹ سرپلس ہونے کے سلسلے میں بی بی سی نے جب تیمور جھگڑا سے اس سلسلے میں مؤقف لیا تو انھوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی شرط کے تحت پرائمری بجٹ کو سرپلس کرنا ہے۔

انھوں نے کہا ’ہم نے وفاقی حکومت کی اس سلسلے میں مدد کی تاہم دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے ایسی کشادہ دلی نظر نہیں آتی کہ وہ بھی اسی طرح ہمارے مسائل حل کرے جو مالی وسائل کی کمیابی کی وجہ سے صوبے کو درپیش ہیں۔‘

اگرچہ تیمور جھگڑا کی جانب سے اس پورے پراسس میں اکاونٹنگ سسٹم پر سوال اٹھایا گیا کہ جس طرح اعداد و شمار جمع کیے گئے اور ان کا تخمینہ لگایا گیا تاہم انھوں نے کہا وسیع تر لحاظ سے یہ اعداد وشمار صحیح ہیں۔

پنجاب کے وزیر خزانہ محسن لغاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کے بارے میں جو منصوبہ بندی کی گئی تھی، انھوں نے اس پر ہی عمل کیا۔

انھوں نے کہا سیاسی اختلافات تو چلے آر ہے ہیں لیکن آئی ایم شرط کے تحت پرائمری بجٹ کو سرپلس کرنا تھا۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت سے سیاسی اختلاف ہے لیکن آئی ایم ایف پروگرام ملک کے لیے ہے، اس لیے یہ کام کیا۔

مہنگائی

انھوں نے مستقبل میں پرائمری بجٹ کے سرپلس ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے جنوبی حصوں میں سیلاب کی وجہ سے کافی نقصانات ہوئے ہیں اور ان کی تلافی کے لیے اٹھنے والے اخراجات کے بعد ہی پتا چلے گا کہ پرائمری بجٹ کی کیا صورتحال رہتی ہے۔

ڈاکٹر عائشہ نے اس سلسلے میں کہا کہ وفاقی اور صوبوں کے درمیان تحفظات رہتے ہیں اور وہ انھیں حل بھی کر لیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت سے صوبوں کو شکایات ہیں تو وفاقی حکومت کے صوبوں کے بارے میں بھی تحفظات ہیں لیکن انھیں مناسب وقت اور فورم پر حل کر لیا جاتا ہے تاہم انھوں نے کہا کہ صوبوں کا سرپلس بجٹ کرنے کا اقدام ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اچھا کام کر رہے ہیں۔

پرائمری بجٹ سرپلس ہونے کے اعداد و شمار کیا صحیح ہیں؟

پاکستان کی وفاقی حکومت اور صوبوں کی جانب پہلی سہ ماہی میں پرائمری بجٹ سرپلس کرنے کے اعداد و شمار کے بارے میں ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا ’یہ اعداد و شمار اگر صحیح بھی ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پہلی سہ ماہی میں ترقیاتی اخراجات کم ہوتے ہیں کیونکہ اس عرصے میں فنڈز استعمال کرنے کی منصوبہ بندی چل رہی ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اخراجات سب سے زیادہ آخری سہ ماہی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس وقت فنڈز کے ضائع ہونے کے خدشے سے بچنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں تیزی سے اخراجات خرچ کرتی ہیں۔ اس لیے ملک کا پرائمری بجٹ پورے مالی سال میں کیا سرپلس رہتا ہے، یہ سال کے اختتام پر پتا چلے گا۔

انھوں نے کہا کہ اعداد و شمار کے ساتھ گڑبڑ کرنا پاکستان میں عام سی بات رہی ہے اور حکومتیں اپنی مرضی کے اعداد و شمار حاصل کرنے کے لیے ان میں ہیرا پھیری کرتی رہی ہیں اور آج بھی ایسا ہوتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *