نوشہرہ کی مس وزیر خاتون افسر قرۃ العین جنھوں نے سیلاب میں گھر گھر جا کر لوگوں کی جانیں بچائیں
میں ایک خاتون ہوں لیکن یہاں مجھے کام مردوں کی طرح کرنا پڑتا ہے اور اب تو یہ فرق بھی ختم ہے، ہم نے لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا ہے اس کے لیے مجھے ڈنڈا بھی اٹھانا پڑا ہے۔‘
خیبر پختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ شہر نوشہرہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرۃ العین وزیر کی ڈنڈا اٹھائے لوگوں کے دروازے پر جا کر انھیں محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ ان کی کاوشیں رنگ بھی لائیں جب انھوں نے تمام افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔
یوں اس علاقے میں اب تک ان کی کوشش کے باعث سیلاب سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے ۔
خاتون افسر کا دبنگ انداز
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ مشکل کام ہے کیونکہ لوگ سمجھ نہیں رہے تھے کہ کتنا بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔
سیلاب کی وارننگ آنے کے فوری بعد انھوں نے اعلانات کروائے کہ لوگ اپنا علاقے چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں لیکن اس پر عملدر آمد نہیں ہو رہا تھا اور جب حالات انتہائی سنگین ہونے جا رہے تھے تو اس وقت انھوں نے خود جا کر لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا شروع کر دیا تھا۔
اتوارکی صبح دس بجے بھی وہ فیلڈ میں تھیں جب انھیں فون کیا گیا جبکہ سنیچر اور جمعہ کے دن انھوں نے اسی صورتحال میں کام کیا جب سیلابی ریلا شہر میں داخل ہو رہا تھا۔
وہ دریا کے کنارے آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ان دیہاتوں میں بھی گئیں جہاں پانی موجود تھا اور وہ اس پانی سے گزر کر ایک ایک گھر جا کر لوگوں سے یہی کہتی رہیں کہ ’خدا کے لیے یہاں سے چلے جائیں کیونکہ بڑے سیلابی ریلے کا خطرہ ہے۔‘
خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں خاتون افسر کا اس طرح ایکشن لینا اور سختی سے پیش آنا کم ہی ایسا دکھائی دیتا ہے لیکن انھوں نے یہ کر دکھایا اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ ایک خاتون ہونے کے ناطے یہ کتنا مشکل ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے فیلڈ میں اب 12 سال ہو چکے ہیں اور اب میرے لیے یہ خاتون اور مرد کا فرق ختم ہو گیا ہے، اب ہم سب مل کر کام کرتے ہیں یہ نہیں کہ میں خاتون ہوں، ہاں یہ درست ہے کہ مجھے میرے عملے کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے میرے ساتھ پولیس اور اور دیگر عملہ موجود ہوتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پانی میں جانا اور گھر گھر جا کر لوگوں کو نکالنا اس لیے مشکل تھا کہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں کہ کیا ہو سکتا ہے اور انھیں سمجھانے کے لیے میں خود وہاں گئی۔‘
سوشل میڈیا پر ان کے ڈنڈا اٹھائے ایک ایک گھر جا کر دروازے پر دستک دینے کی ویڈیو سامنے آئی تو ایک خاتون کی اس طرح دبنگ کارروائی کو اس وقت سراہا گیا جس میں سیلابی ریلا بغیر کوئی جانی نقصان کے گزر گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا ان کی ڈیوٹی تھی اور اس کے لیے مرد اور خاتون کی بات نہیں ہے اب ہم سب ایک طرح کے ہیں بس کام کرنا ہوتا ہے۔‘
’لوگوں کی حفاظت ضروری ہے‘
سوات کے مختف علاقوں میں سیلاب کی تباہی کے مناظر دیکھنے کے بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ اب سیلاب چارسدہ اور نوشہرہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ سیلاب جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب کسی وقت نوشہرہ اور چارسدہ پہنچے گا اس لیے نوشہرہ اور چارسدہ کی انتظامیہ کو ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا۔
قرۃالعین وزیر نے بتایا کہ انھیں اس کے لیے اپنے حکام، محکمہ انہار اور پی ڈی ایم اے کی معاونت حاصل تھی اور وہ ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھیں، ’اسی کے مطابق کام کیا اور اللہ نے اس میں اب تک کامیابی دی ہے۔‘
سیلابی ریلے سے پانی نوشہرہ کے اندر شہر تک پہنچا ہے جس میں نوشہرہ پریس کلب ، تبلیغی مرکز اور دیگر علاقے زیر آب آئے ہیں۔ سیلابی ریلے سے کچے مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اتوار کے روز بھی وہ اپنی ڈیوٹی پر ہیں اور بعض علاقے جہاں خطرہ ہے وہاں موجود ہیں تاکہ لوگوں کو محفوظ کیا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ان لوگوں کو محفوظ مقامات پر تمام بنیادی سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔
لوگ کیوں گھر خالی نہیں کر رہے؟
نوشہرہ اور چارسدہ میں انتظامیہ کی جانب سے بار بار اعلانات کے باوجود مکانات خالی نہ کرنے پر مقامی لوگوں سے پوچھا تو ان کی کہنا تھا کہ ان کے گھروں سے چلے جانے کے بعد ان کے مکانات میں چوری کا خظرہ ہوتا ہے۔
محمد شفیق نے بتایا کہ سال 2010 میں جب سیلاب آیا تھا تو وہ اپنے گھر کو تالا لگا کر محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے تھے مگر جب واپس آئے تو ان کے علاقے میں گھروں میں چوری ہوئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب انھوں نے خواتین اور بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے اور ہر گھر سے مرد علاقے میں ڈیوٹی دیتے ہیں تاکہ ان کے گھروں میں چوری نہ ہو سکے۔
قرۃالعین پہلی مرتبہ میدان میں نہیں آئیں؟
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ یہ خاتون افسر پہلی مرتبہ اس طرح میدان میں ایکشن میں آئی ہیں۔
چار سال پہلے جب وہ پشاور میں اسسٹنٹ کمشنر تھیں اور شہر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری تھے تو اس وقت ان کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جب وہ ایک ویگو گاڑی میں بیٹھی تھیں اور انھوں نے عملے سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ تاجر ان کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔
اس کے علاوہ انھوں نے ملاوٹ اور مضر صحت اشیا کی فروخت کے خلاف بڑی کارروائیاں کی تھیں جس میں انھوں نے شہر کے ایک، ایک ہوٹل اور دوکانوں پر چھاپے مارے تھے اور بڑی مقدار میں مضر صحت اشیا تلف کر کے دکانداروں کے خلاف کارروائیاں کی تھیں۔ مقامی سطح پر اس وقت بھی ان کی ان کارروائیوں کو سراہا گیا تھا۔
انھوں نے اس وقت بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایک خاتون ہونے کے ناطے انھیں معلوم ہے کہ کچن کتنا اور کیسے صاف رکھا جاتا ہے اور وہ اس پر عمل درآمد کے لیے ان ہوٹلز کی کچن دیکھتی ہیں تاکہ لوگوں کو صاف اور بہتر کھانا مل سکے۔
انھوں نے کہا تھا کہ انھیں ان کی فیملی کی جانب سے مکمل سپورٹ حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ فیلڈ میں بہتر کام کر سکتی ہیں۔