نور مقدم کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت بارہ ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی ہے۔
اس کیس کے ملزمان میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی بھی شامل ہیں۔ اور دیگر ملزمان میں افتخار، جمیل، جان محمد کے علاوہ تھراپی ورک کے طاہر ظہور سمیت چھ ملزمان پر بھی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
جمعرات کو اس مقدمے کی سماعت کے دوران تمام ملزمان کی موجودگی میں فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی اور تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تاہم فرد جرم عائد ہونے سے پہلے نور مقدم کے قتل کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ نور مقدم کا قتل انہی کے ہاتھوں سے ہوا تھا۔
انھوں نے عدالت کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں کہ ’مجھے سزا دینی ہے یا معافی اور یہ بھی بتائیں کہ میرے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔‘
ظاہر جعفر نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’پھانسی دے دیں یا معافی دے دیں میں جیل میں نہیں رہ سکتا‘۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ انھیں گھر میں قید کر دیں کیونکہ ملزم ظاہر جعفر نے دعویٰ کیا کہ جیل میں ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔
سماعت کے دوران اس مقدمے میں شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل رضوان عباسی جب مرکزی ملزم کا بیان عدالت میں پڑھ رہے تھے تو اسی دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ہاتھ جوڑے اور عدالت سے معافی مانگی۔ انہوں نے کہا کہ وہ جیل کی سلاخوں میں مرنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی بھی شادی ہونی چاہیے اور بچے ہونے چاہییں۔
ملزم ذاکر جعفر کے وکیل رضوان عباسی نے جب مرکزی ملزم کا بیان پڑھنا جاری رکھا تو ظاہر جعفر نے اونچی آواز میں کہا کہ ’یہ میرا وکیل نہیں ہے مجھے بولنے کا موقع دیا جائے‘ جس پر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ وہ اس مقدمے کے شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل ہیں
مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے کہا کہ وکیل صاحب جو کچھ ان کے بارے میں کہہ رہے ہیں وہ بے بنیاد ہے ۔
انہوں نے کہا کہ وقوعہ کے روز ان کی اور نور مقدم کی لڑائی ہوئی تھی اور اس دوران وہ بھی غصے میں تھیں اور ’میں بھی غصے میں تھا‘۔
ظاہر جعفر نے نور مقدم کا سر دھڑ سے الگ کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’قربانی اسلام میں بھی جائز ہے‘ اور نور مقدم نے ’خود کو قربانی کے لیے پیش کیا تھا‘۔
واضح رہے کہ ظاہر جعفر پر الزام ہے کہ انھوں نے نور مقدم کو قتل کرنے کے بعد ان کا سردھڑ سے الگ کر دیا تھا۔
ظاہر جعفر نے اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک فون کال کرنا چاہتے ہیں جس کی اجازت دی جائے تاہم عدالت نے اس کی اجازت نہیں دی۔
دوسری جانب ملزم ذاکر جعفر کے وکیل نے اپنے دلائل میں یہ موقف اختیار کیا کہ ملزمان پر فرد عائد کرنے کے لیے شواہد ناکافی ہیں۔
اس مقدمے کے شریک ملزم اور سکیورٹی گارڈ افتخار کا دعویٰ تھا کہ ظاہر جعفر اور نور مقدم کے درمیان دوستی تھی اور نور مقدم کا دو سال سے وہاں آنا جانا تھا۔ مختصر بیان کے بعد شریک ملزم نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک غریب آدمی ہیں اور انہیں کیا پتہ تھا کہ ظاہر جعفر نور مقدم کو قتل کر دیں گے۔
اس کے بعد ظاہر جعفر نے دوبارہ مداخلت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ملزمان نے نور مقدم کو مارا ہے۔ اس کے بعد ظاہر جعفر نے عدالت کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا ان پر فد جرم عائد کی جا رہی ہے یا نہیں۔
اس مقدمے کے مرکزی ملزم نے کمرہ عدالت میں موجود نور مقدم کے والد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کی بیٹی آپس میں محبت کرتے تھے اور ’ہمارا تین سال سے تعلق تھا‘۔
ظاہر جعفر نے شوکت مقدم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میری زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ مجھے بچا سکتے ہیں‘۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ ’میری زندگی لینا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں‘ ۔
اس سے قبل ملزمان کی طرف سے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ ان پر فرد جرم کی کارروائی موخر کی جائے تاہم عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی۔
عدالت نے استغاثہ کو بیس اکتوبر کو گواہان کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔