نرسوں کا عالمی دن طبی خدمات انجام دینے والوں نے عالمی وبا کے دوران زندگی کیسے بسر کی
دنیا بھر میں کووڈ۔19 سے جنگ میں نرسیں پیش پیش رہیں، مگر اس کام نے ان پر گہرے منفی ذہنی اور جسمانی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ نرسوں کے بین الاقوامی دن کے موقع پر اٹلی میں طبّی نگہداشت فراہم کرنے والوں نے، جنھوں نے وبا کے آغاز پر بی بی سی سے بات کی تھی، اب بتایا کہ اس دوران پہنچنے والے صدمات سے نمٹنے کے لیے انھوں نے کیا تدابیر اختیار کیں۔
‘ہم نے جو دیکھا ہے وہ نہیں بھولتا‘
انھوں نے اس عرصے کے دوران درپیش صورتحال کو تصاویر میں قید کرنے کا فیصلہ کیا۔
تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب اس صورتحال کو نیو نارمل یا نیا معمول سمجھ لیا گیا اور لوگوں نے انھیں ہیرو ماننا چھوڑ دیا تو ان کے رفقائے کار وبا کی پہلی لہر سے کیسے نبرد آزما ہوئے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’میں اس وقت کو کبھی بھولنا نہیں چاہوں گا۔ جلد ہی یہ سب تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ اگرچہ ہنگامی صورتحال پہلی کی سی نہیں رہی، مگر ہمیں اپنے چاروں اطراف اندھیرا نظر آتا ہے۔
’ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم زخم خوردہ ہیں۔ ہم نے جو دیکھا وہ ہمارے اندر رچ بس گیا ہے۔‘
اس دوران پاؤلو کے لیے ایک بڑی تبدیلی وقوع پذیر ہوئی: وہ باپ بن گئے ہیں۔
’ہم نے اپنی بیٹی کا نام وکٹوریا رکھا ہے، جس کا مطلب ہے فتح۔ ایسی تباہ کن صورتحال کے اندر دنیا میں ایک نئی زندگی کو جنم دینے نے ہماری بہت ہمت بندھائی۔‘
پاؤلو کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس کے دوران پیش آنے والے واقعات کے منفی اثرات اب بھی برقرار ہیں اور وہ صدمے سے نہیں نکل پائے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس عرصے میں ان کے کئی رفقائے کار نے بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کیا، جو موت اور صعوبتوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے کا اعلان تھا۔
’میری بیٹی اس کیفیت سے نکلنے میں میری بہت مدد کر رہی ہے، میں گھر لوٹتا ہوں، اسے دیکھتا ہوں، جواب میں وہ مسکرا دیتی ہے، اور میری تمام تھکن دور ہو جاتی ہے۔‘
‘یہ میری جیت تھی‘
فروری 2020 میں اٹلی عالمی وبا کا مرکز بن گیا تھا۔
مارٹینا بینڈیٹی نے، جو انتہائی نگہداشت کے شعبے میں نرس ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت ان کا یقین متزلزل ہوگیا تھا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی تھیں کہ انھیں نرس رہنا بھی چاہیئے یا نہیں۔
مگر پھر ان کا یقین بحال ہوگیا اور اب وہ اپنے پیشے کو بہت ’شاندار‘ سمجھتی ہیں، مگر ساتھ ہی خبردار کرتی ہیں کہ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔
’مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میری عمر دس سال زیادہ ہوگئی ہے۔ میں بہت شوخ اور چنچل ہوا کرتی تھیں ۔۔۔ وہ شخصیت اب نہیں رہی۔‘
انھوں نے لکھنے میں پناہ ڈھونڈی اور سونے سے پہلے اپنے جذبات کو قلمبند کرنا شروع کیا۔ جو بعد میں ایک ای بک (برقیاتی کتاب) کی شکل میں شائع ہوا۔
ماریٹنا کہتی ہیں کہ ان مریضوں کے ساتھ کام کرنا مشکل تھا جو کوروناوائرس کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، مگر جس نے انھیں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں پہنچا دیا تھا۔
’مجھے ایسے مریضوں کا علاج کرنا پڑا جو سوشل میڈیا پر دوسروں کو ورغلاتے تھے کہ ماسک نہ پہنیں اور نرسوں کو جھوٹا کہتے تھے۔‘
مارٹینا کہتی ہیں کہ وہ بعض ایسے مریضوں کی سوچ بدلنے میں کامیاب رہی ہیں۔
’ایک منکرِ کووِڈ نے ہسپتال سے خارج ہونے کے بعد فیس بک پر بالکل اس کے برعکس پوسٹ کی جیسی وہ پہلے کرتے تھے۔ یہ میرے لیے جیت سے کم نہ تھا۔‘
‘میں نے وہ توانائی محسوس کی جس کا مجھے علم نہ تھا‘
ڈاکٹر سرینا بوریلو کا کہنا ہے کہ عام طور پر مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کو ایمرجنسی پر بوجھ سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ ہنگامی حالت سے نمٹنے کی رفتار سست کر دیتے ہیں۔ مگر انھیں سمجھانے، ان پر ذمہ داری ڈالنے اور ان کے ساتھ خوشی اور غم شریک کرنے سے وہ آپ کی ٹیم کے اضافی رکن بن جاتے ہیں۔ اور اس طرح کام آسان ہو جاتا ہے۔‘
ایک تحقیق کے مطابق وبا کے دوران نوے فیصد نرسوں نے کبھی اپنا پیشہ بدلنے کے بارے میں نہیں سوچا بلکہ انھیں اس پر فخر کا احساس ہوا۔
الیزا نانینو کہتی ہیں ’وبا نے اس بات کی توثیق کی کہ میں صحیح پیشے سے وابستہ ہوں۔ مجھے وہ توانائی ملی جو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ جب میں نے لوگوں کو مرتے دیکھا تو میں روئی، مگر میں نے لوگوں کی زندگی بھی بچائی۔ یہ ایک انمول احساس ہے۔‘
الیزا کہتی ہیں کہ گھر آکر بھی جب ان کی توجہ کام پر سے نہیں ہٹتی تھی تو وہ کھانا پکانا شروع کر دیتی تھیں جس سے انھیں مدد ملی۔ یہ کھانا وہ ہسپتال میں اپنے رفقائے کار میں بانٹ دیتی تھیں۔
اپنے ساتھی عملے کو ان کا سب سے اہم مشورہ یہ ہی ہوتا تھا کہ وہ جنھیں نہیں بچا سکے اس کے لیے وہ اپنے اندر احساس جرم پیدا نہ ہونے دیں۔
’وبا کے دوران سب کی جان بچانا ناممکن ہے۔ آپ کے بس میں جو ہے وہ کریں، مگر کسی احساس جرم کے ساتھ گھر نہ جائیں۔‘
مارٹینا کے لیے دوستوں یا خاندان والوں سے بات کرنا مشکل تھا کیونکہ جس کیفیت سے وہ گزر رہی تھیں وہ اس کا پورا ادراک نہیں کر سکتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ان کے رفقائے کار تھے جو ایسے وقت میں کام آئے۔
’کسی بحران سے نمٹنے والی نرسوں کو میرا مشورہ یہ ہے کہ مل کر کام کریں۔
’جب آپ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں تو اسے چھپانا وقت کا ضیاع ہے۔ اپنے طور پر آپ کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ رفقائے کار سے بات کریں، ہو سکتا ہے کہ وہ بھی ایسی ہی کیفیت سے گزر رہے ہوں۔‘
‘ذہنی سکون‘
ڈاکٹر بریلو کو خدشہ ہے کہ عالمی وبا کے نتیجے میں بہت سے ڈاکٹروں اور نرسوں کو ایسے تجربات کا سامنا رہے گا جن کے منفی اثرات کئی مہینوں بلکہ سالوں تک قائم رہ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر بریلو کہتی ہیں کہ ‘جب بالآخر آپ کو جو ہوا اس پر سوچنے کا وقت ملتا ہے تو لوگ وہ سب کچھ بھولنے لگتے ہیں، اور آپ زیادہ ہلکان محسوس کرتے ہیں۔’
وہ کہتی ہیں کہ ہسپتالوں کو چاہیے کہ اپنے عملے کے لیے نفسیاتی مدد فراہم کرنے کے انتظامات کریں اور انھیں اپنا خیال رکھنے کی ترغیب دیں۔
اس میں اپنے مشاغل کو، جو وبا کی وجہ سے چھوٹ گئے ہیں، پھر سے شروع کرنا، اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا، اور کھیل کود جیسی سرگرمیاں شامل ہیں۔ وہ خود بھی ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
’میں اپنے شوہر کے ساتھ پہاڑوں پر جانے کا سوچ رہی ہوں، کہیں فطرت کے قریب تر، سب سے الگ تھلگ، جہاں میں اپنا ذہنی سکون پھر سے تلاش کر سکوں۔