نادرا نے خواتین کے شناختی کارڈ اور رجسٹریشن میں کیا

نادرا نے خواتین کے شناختی کارڈ اور رجسٹریشن میں کیا

نادرا نے خواتین کے شناختی کارڈ اور رجسٹریشن میں کیا تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں؟

شادی کے بعد خواتین کو یہ اجازت دی جائے گی کہ آیا وہ اپنے شناختی کارڈ پر والد کا نام برقرار رکھنا چاہتی ہیں یا اس کی جگہ خاوند کا نام لکھوانا چاہتی ہیں۔۔۔‘

یہ بیان دو روز قبل پاکستان میں قومی رجسٹریشن کے ادارے نادرا کی جانب سے خواتین کی رجسٹریشن بڑھانے کے لیے پالیسیوں پر نظرثانی کے بعد جاری کیا گیا تھا۔

تاہم اس بارے میں سوشل میڈیا پر خواتین یہ سوال پوچھتی نظر آ رہی ہیں کہ آخر اس پالیسی کے ذریعے کیا تبدیلی متعارف کروائی گئی ہے۔

سوشل میڈیا پر صارفین کے پیغامات پر نظر دوڑائی جائے تو اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں خواتین کے شناختی حقوق کے حوالے سے کتنا ابہام پایا جاتا ہے۔

گلوکارہ میشا شفیع کہتی ہیں کہ ’ان کے لیے شادی کے بعد شناختی کارڈ پر اپنا نام تبدیل نہ کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی تھی۔‘ جبکہ ان کے جواب میں ایک صارف نے لکھا کہ ’ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ شناختی کارڈ پر اپنے سابقہ شوہر کا نام لکھیں۔‘

چیئرمین نادرا محمد طارق ملک نے بی بی سی سی کو بتایا کہ ’خواتین کو بااختیار بنانے، ان کی رجسٹریشن اور وراثت سمیت ان کے ہر حق کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اب ہم نے انھیں ان کے نام پر مکمل اختیار دے دیا ہے، وہ چاہیں تو شادی کے بعد بھی اپنا نام نہ تبدیل کرائیں اور اگر شوہر سے علیحدگی ہو جائے تو پھر انھیں یہ اختیار ہے کہ وہ اپنا نام اپنی آزادانہ مرضی سے تبدیل کروا سکیں اور کوئی ان سے سوال نہ کرے کہ ایسا کیوں اور یہ کیا۔‘

ان کے مطابق اس وقت نادرا کی پالیسی یہ ہے کہ خواتین کے خلاف سماجی تعصب کی ہر صورت میں حوصلہ شکنی کی جا سکے۔

شناختی کارڈ

خواتین کے لیے نادرا کے حقوق میں تبدیلی آئی ہے؟

طارق ملک تسلیم کرتے ہیں کہ یہ نادرا کی ایک ’غیر اعلانیہ‘ پالیسی تھی کہ جب کوئی خاتون طلاق کے بعد اپنا نام تبدیل کرانے آتی تھی تو اس سے طلاق نامہ طلب کیا جاتا تھا اور تصدیق کی دیگر دستاویز تک کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔

ان کے مطابق ایسے سوالات سے تنگ آ کر بہت سی خواتین سرے سے نادرا کا رُخ ہی نہیں کرتی تھیں۔

لیکن اب وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ’مردوں کے مقابلے خواتین کی کم رجسٹریشن‘ کی وجوہات کا پتا چلایا جا سکے اور اس عمل میں رکاوٹ بننے والے عوامل کا سدباب بھی ممکن ہو سکے گا۔

خواتین

ان کے مطابق اس وقت پاکستان میں پانچ کروڑ پچاس لاکھ مرد جبکہ چار کروڑ پچاس لاکھ خواتین رجسٹرڈ ہیں، جس سے ’ایسا لگتا ہے کہ شاید پاکستان میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے‘ جو کہ درست نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فرق ہر جگہ ہی سامنے آ رہا ہے تاہم اب نادرا نے خواتین کے لیے ایسی سہولیات کا اہتمام کیا ہے کہ وہ آسانی سے گھر بیٹھے بھی اپنی رجسٹریشن کرا سکیں گی اور ان کی کال پر نادرا کی گاڑی جس میں زنانہ عملہ ہو گا ان کے گھر پہنچ جائے گی۔

دیہی خواتین کی رجسٹریشن میں نمایاں اضافہ

طارق ملک کے مطابق گذشتہ 100 دنوں میں خواتین کی رجسٹریشن میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس میں 80 فیصد خواتین دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

ان کے مطابق ثقافتی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نادرا نے مردان اور پشاور میں خواتین عملے پر مشتمل رجسٹریشن کے لیے دو سینٹرز قائم کیے ہیں جہاں ڈیٹا آپریٹر سے لے کر مینیجر تک سب خواتین ہی ہیں۔ ایسے سینٹرز دیگر علاقوں میں بھی قائم کیے جائیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ ’نادرا میں ہم نے اجتماعی رجسٹریشن کا شعبہ قائم کر دیا ہے، جس کی سربراہ ایک خاتون کو بنایا ہے۔‘

طارق ملک کے مطابق اب نادرا کی خواتین کو متحرک کیا ہے کہ وہ نہ صرف خواتین بلکہ خواجہ سرا اور اقلیتوں کی رجسٹریشن کے عمل کو بھی آسان بنائیں۔‘

چیئرمین نادرا کے مطابق جن علاقوں میں رجسٹریشن کم تھی وہاں مقامی اور بین الاقوامی اداروں کے اشتراک سے رجسٹریشن کے عمل کو آگے بڑھایا ہے۔ ’اگر خواتین رجسٹریشن نہیں کرائیں گی تو وہ صحت، تعلیم، احساس پروگرام اور گھریلو تشدد کی رپورٹ نہیں کروا سکیں گی۔‘

تلسی
تلسی کا کہنا ہے کہ وہ خود خواتین کے ساتھ جا کر دستاویزات پوری کرنے میں ان کی مدد کریں گی

ایک سماجی کارکن نے پانچ ہزار ہندو خواتین کو رجسٹر کرایا

چیئرمین نادرا طارق ملک کے مطابق سندھ کے شہر جیکب آباد میں ایک سماجی کارکن نے پانچ ہزار ہندو خواتین کو رجسٹر کرانے میں نادار کی مدد کی ہے۔

’اب یہ خواتین نام سے لے کر جائیداد تک اور کام سے لے کر حق رائے دہی تک کا تمام سفر اپنی شناخت سے ہی کر سکیں گی۔‘

طارق ملک کے مطابق اب نادرا نے ایسے مردوں کے خلاف بھی مہم چلائی ہے جو خواتین کو رجسٹریشن نہیں کرانے دیتے تاکہ وہ وراثت میں شریک نہ ہو سکیں۔ ’اب ایسے مردوں کو نادرا کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں کہ اپنے خاندان کی تمام خواتین کی رجسٹریشن جلد سے جلد یقینی بنائیں۔‘

اب خواتین یہ بھی تصدیق کر سکتی ہیں کہ ان کے شوہر نے خفیہ شادی تو نہیں کی ہے؟

چیئرمین نادرا طارق ملک کے مطابق عوام کے ڈیٹا تک عوام کو رسائی دیتے ہوئے نادرا نے ایک ایسی سروس بھی متعارف کرائی ہے کہ جس سے کوئی اپنے خاندان کی تصدیق کے لیے 8009 پر مکمل معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق نادرا ابھی تک چار کروڑ خاندانوں کی تصدیق کا عمل مکمل کر چکا ہے۔

ان کے مطابق اب خواتین اس سروس سے یہ پتا بھی چلا سکتی ہے کہ کہیں ان کے شریک حیات نے کسی اور کو خفیہ طور پر تو شریک حیات نہیں بنا رکھا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *