میری روز رحیم یار خان میں خاتون پولیس افسر کا خودکشی سے پہلے والدہ کے نام پیغام، ’میری بیٹیوں کی شادی کسی انسان سے کرنا
میری روز جب اپنے کمرے سے بھاگتی ہوئی اپنی والدہ کے کمرے میں پہنچیں تو انھیں مسلسل قے ہو رہی تھی۔ زار و قطار روتے ہوئے انھوں نے اپنی والدہ کے پاؤں پکڑ لیے اور کہا ’مجھے معاف کر دیجیے گا‘ اور اس کے بعد انھوں نے اپنی دو بیٹیوں کو اپنے گلے سے لگا لیا۔
میری روز کے والد ہدایت بھٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ اپنی بیٹی کا شور سُن کر وہ ساتھ والے کمرے سے بھاگ کر وہاں پہنچے اور اپنی بیٹی کی بگڑتی حالت دیکھ کر انھوں نے فوری طور پر ریسکیو کو کال کیا اور جلد ہی ایمبولینس کے ذریعے میری روز کو ہسپتال پہنچا دیا گیا۔
اس وقت تک گھر والوں کو معلوم نہیں تھا کہ میری زہریلی گولیاں کھا چکی تھیں اور اب کچھ ہی دیر میں ان کی موت واقع ہونے والی تھی۔
پولیس سب انسپکٹر میری روز نے اپنے کمرے میں موجود آئینے ہر لپ سٹک سے لکھ کر اپنی والدہ کے نام ایک پیغام چھوڑا تھا۔ والدہ سے معافی مانگنے کے بعد انھوں نے لکھا کہ ’دعا کرنا کہ میری جان آسانی سے نکل جائے۔‘
لپ سٹک ہی کی مدد سے انھوں نے آئینے پر یہ بھی لکھا تھا کہ ’میری بیٹیوں کی شادی کسی انسان سے کرنا جو ذمہ داری اٹھا سکے‘ لیکن صوبہ پنجاب کی رہائشی میری روز کے اس پیغام پر گھر والوں کی نظر اس وقت پڑی جب انھیں ہسپتال منتقل کیا جا چکا تھا اور ڈاکٹروں کے مطابق اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی۔
میری کے والد بتاتے ہیں کہ پہلے ان کی بیٹی روتی ہوئی اُوپری منزل پر واقع اپنے کمرے سے دوڑتی ہوئی نیچے آئیں اور اپنی والدہ سے لپٹ گئی تھیں۔
’انھیں مسلسل قے آ رہی تھی۔ وہ ماں سے کہہ رہی تھی کہ مجھے معاف کر دو۔ اس نے اپنی دونوں چھوٹی بچیوں کو بھی سینے سے لگایا۔‘
ان کے والد کے مطابق ڈاکٹروں نے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے تک میری روز کی جان بچانے کی کوشش کی۔ ان کا معدہ صاف کر کے زہر نکالنے کی کوشش کی جاتی رہی، وہ اُس وقت بھی پولیس کی وردی میں تھیں۔
میری روز کے ساتھی پولیس اہلکار، پولیس افسران اور علاقے کے پولیس انچارج بھی اس وقت تک موقع پر پہنچ گئے تھے۔ ان کے والد ہدایت بھٹی نے بتایا کہ ’جب ایس ایچ او صاحب نے مجھ سے کہا کہ بس اب دعا کریں، میں سمجھ گیا کہ وہ نہیں رہی۔‘
میری روز نے زہر کھا کر خودکشی کر لی تھی۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ ان کے خاوند بھی پولیس میں ملازم تھے اور ان دنوں لاہور میں تعینات تھے۔
ابتدائی طور پر میری روز کے گھر والوں کو معلوم نہیں ہو پایا تھا کہ میری روز نے ایسا کیوں کیا لیکن پھر ان کی نظر میری روز کے آئینے پر لکھے پیغام پر پڑی اور پولیس کے مطابق میری نے اس کے علاوہ ’ایک آخری تحریری نوٹ بھی چھوڑا تھا۔‘
خاتون پولیس افسر نے خودکشی کیوں کی؟
میری روز پنجاب پولیس میں انویسٹیگیشن آفیسر تھیں۔ وہ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی تفتیش کرنے والے سیل میں تعینات تھیں اور کئی سنگین نوعیت کے واقعات کی تحقیقات کرتی رہی تھیں۔
ان کے ساتھی اور پولیس کے اعلیٰ افسران ان کے کام کے معترف تھے۔ رحیم یار خان کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر علی ضیا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میری روز ضلع میں پولیس کے چند بہترین اور لائق اہلکاروں میں سے ایک تھیں۔ وہ بڑی محنت سے ہر ایک کیس کی تحقیقات کرتی تھیں۔‘
ڈی پی او علی ضیا کے مطابق وہ باقی ساتھی خواتین پولیس اہلکاروں کی نمائندگی بھی کرتی تھیں اور اُن اعلیٰ افسران سے ان کے ہر قسم کے مسائل بھی حل کرواتی تھیں۔
میری روز کے پیغام اور ان کے آخری نوٹ سے یہ اشارہ مل رہا تھا کہ روز اور ان کے خاوند کے درمیان سب ٹھیک نہیں تھا۔
ان کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ کئی دن سے دونوں میاں بیوی میں بات چیت بند تھی اور وہ الگ الگ کمروں میں رہ رہے تھے۔
موت کی وجہ کیا بنی؟
ہدایت بھٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جس گھر میں رہتے تھے، میری روز اور ان کے خاوند کی رہائش بھی اسی گھر کی بالائی منزل پر تھی۔
سنہ 2014 میں ان دونوں نے ایک ہی بیچ میں پولیس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ میری روز کے والد کے مطابق ان کی بیٹی اور داماد نے اپنی پسند سے اور گھر والوں کی مرضی سے شادی کی تھی۔ ابتدائی طور پر وہ دونوں ایک ہی ضلع میں تعینات تھے۔
’لیکن کچھ مہینے بعد اس کے خاوند نے اپنا تبادلہ لاہور میں کروا لیا تھا اور وہ لاہور چلے گئے تھے۔ پھر وہ ہر کچھ عرصے بعد یہاں آتے رہتے تھے۔‘
ہدایت بھٹی نے دعویٰ کیا کہ انھیں ایسا محسوس ہوا تھا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے دونوں بیوی کے درمیان کچھ ناچاقی چل رہی تھی۔
’ہم نے اپنی بیٹی سے اس بارے میں پوچھا بھی تھا کہ کیا مسئلہ ہے لیکن اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ کوئی مسئلے کی بات نہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘
روز کے والد نے بتایا کہ انھیں بعد میں معلوم ہوا تھا کہ وہ دونوں اکٹھا ایک ہی جگہ ہر رہنا چاہتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے سب انسپکٹر روز سے کہا تھا کہ وہ یا تو لمبی چھٹی لے لیں یا پھر نوکری چھوڑ دیں اور ان کے ساتھ آ کر رہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ انھیں یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ ان کی بیٹی نے لمبی چھٹی کے لیے ضلعی پولیس آفیسر کو درخواست بھی دی تھی لیکن وہ منظور نہیں ہوئی تھی۔ ان کے والد کے مطابق اسی روز ہی وہ پریشان گھر آئیں تھیں اور انھوں نے خودکُشی کر لی۔
’وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی تھی مگر اسے چھٹی نہ ملی‘
میری روز کے والد ہدایت بھٹی کے مطابق تین چار روز قبل روز کے خاوند لاہور سے آئے ہوئے تھے لیکن وہ دونوں الگ الگ کمروں میں رہ رہے تھے، آپس میں بات بھی نہیں کرتے تھے۔
’جس دن وہ واپس گئے تھے اس کے پندرہ منٹ بعد ہی روز گھر آئیں اور انھیں نہیں معلوم تھا کہ وہ چلے گئے ہیں۔ انھوں نے والدین سے پوچھا تھا کہ کیا وہ چلے گئے ہیں۔‘
سب انسپکٹر میری روز کے والد ہدایت بھٹی کے مطابق جب ان کی چھٹی کی درخواست ڈی پی او نے منظور نہیں کی تھی تو اس دن وہ جلدی گھر واپس آ گئی تھیں۔
’اکثر وہ دیر تک واپس گھر آتی تھی۔ کام بہت زیادہ ہوتا تھا۔ اسے عدالتوں میں بھی پیش ہونا ہوتا تھا، تحقیقات کے سلسلے میں وہ شہر سے باہر بھی چلی جاتی تھیں۔ اس روز ان کے گھر جلدی آنے پر گھر والوں کو تشویش ہوئی لیکن میری روز نے بتایا کہ وہ تھکی ہوئی ہیں اور آرام کرنے کمرے میں جا رہی ہیں۔‘
ہدایت بھٹی کے مطابق اس کے تھوڑی دیر بعد ہی انھوں نے زہر کھایا تھا اور اس کے کچھ دیر بعد ان کی موت ہو گئی تھی۔
’چھٹی نہ ملنے کو ان کی موت سے نہیں جوڑا جا سکتا‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈی پی او علی ضیا نے بتایا کہ اپنی موت کے روز میری روز ڈی پی او کے دفتر نہیں آئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چھٹی نہ ملنے کو ان کی موت کی وجہ سے نہیں جوڑا جا سکتا۔
’پولیس محمکے میں کام کرنے والے افسران سے لے کر اہلکاروں تک سب کو شاید چھٹی کا مسئلہ ہوتا ہے تاہم ایسا نہیں کہ کسی کو انتہائی شدید نوعیت کی مجبوری ہو اور اس کو چھٹی نہ دی جائے۔‘
ڈی پی او علی ضیا کے مطابق اگر ایک جگہ سے چھٹی نہ ملے تو پولیس اہلکار اس سے اوپر کے افسر کے پاس درخواست لے کر جا سکتا ہے یا پھر اس سے بھی اوپر جا سکتا ہے ’لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے کوئی اتنا انتہائی قدم اٹھا لے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ میری روز کی موت سے قبل ان کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں آئی تھی کہ خاتون پولیس اہلکار کسی گھریلو پریشانی کا شکار تھیں اور اس کی نوعیت کیا تھی ’ورنہ محکمہ ضرور ان کی مدد کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ میری روز کے کیس میں خاتون پولیس اہلکار نے اپنا ایک آخری نوٹ چھوڑا ہے جس میں انھوں نے واضح طور پر یہ لکھا تھا کہ ان کی خودکشی کی وجہ گھریلو ناچاقی تھی۔
’تحقیقات کے دوران یہ پولیس کے لیے ایک انتہائی مرکزی نوعیت کا ثبوت ہوتا ہے۔ اس میں مرنے والے نے واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ کیوں اپنی جان لینے پر مجبور ہوا‘ تاہم ڈی پی او علی ضیا نے اس نوٹ کے مزید مندرجات بتانے سے معذرت کر لی۔
ان کا کہنا تھا کہ میری روز کا خاندان پہلے ہی صدمے سے گزر رہا تھا اور یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ وہ ان کے خاندان کو مزید اذیت سے نہ گزاریں۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس اس حوالے سے تحقیقات کر رہی تھی اور معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے میری روز کے لاہور میں تعینات خاوند سے بھی پوچھ گچھ کی تھی جبکہ مزید تحقیقات جاری ہیں۔