میانمار کے فوجی کہتے ہیں کہ ‘اس لڑکی کی چیخ کو میں بھول نہیں سکتا
بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں میانمار کی فوج کے سپاہیوں نے شہریوں کو قتل کرنے، ہراساں کرنے اور ریپ کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب انھوں نے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کا اعتراف کیا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
انتباہ: اس رپورٹ میں جنسی تشدد اور ہراساں کیے جانے کی تفصیلات شامل ہیں۔
‘انھوں نے مجھے بے گناہ لوگوں پر تشدد کرنے، لوٹنے اور قتل کرنے کا حکم دیا۔’
مونگ او کا کہنا ہے کہ ان کا خیال تھا کہ فوج میں ان کی بھرتی محافظ کے طور پر ہوئی ہے۔ لیکن وہ اس بٹالین کا حصہ تھے جس نے مئی سنہ 2022 میں ایک مٹھ یعنی خانقاہ میں چھپے شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں: ‘ہمیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ تمام مردوں کو ایک ساتھ کھڑا کریں اور پھر انہیں گولی مار دیں۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمیں خواتین اور بزرگوں کو بھی مارنا پڑا۔’
ایک کارپورل سمیت چھ فوجیوں اور ان کی زد میں آنے والے کچھ متاثرین کی شہادتیں میانمار کی فوج کی اقتدار پر قابض ہونے کے لیے بے چینی کی ایک نادر جھلک پیش کرتی ہیں۔ اس رپورٹ میں شامل میانمار کے تمام ناموں کو شناخت چھپانے کے لیے تبدیل کر دیا گیا ہے۔
یہ فوجی، جنھوں نے حال ہی میں فوج کی ملازمت چھوڑ دی ہے، فی الحال پیپلز ڈیفنس فورس (پی ڈی ایف) کی حفاظت میں ہیں۔ پی ڈی ایف ملیشیا گروپوں کا ایک نیٹ ورک ہے اور اس میں شامل لوگ میانمار میں جمہوریت کی بحالی کے لیے لڑ رہے ہیں۔
گذشتہ سال فوج نے ایک بغاوت کے ذریعے آنگ سان سوچی کی قیادت والی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ فوج اب مسلح بغاوت کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
گذشتہ سال 20 دسمبر کو وسطی میانمار کے گاؤں یامیئت کو فوج کے تین ہیلی کاپٹروں نے گھیر لیا۔ اور ان سے اترنے والے سپاہیوں کو لوگوں کو گولی مارنے کا حکم دیا گیا۔
کم از کم پانچ مختلف لوگوں نے ایک دوسرے سے الگ الگ بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ اس دن وہاں کیا ہوا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ فوج تین مختلف گروپوں میں داخل ہوئی اور مرد، خواتین اور بچوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔
میانمار کے جنگل میں نامعلوم مقام پر بات کرتے ہوئے کارپورل آنگ نے کہا کہ ‘ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ جس کو بھی دیکھیں گولی مار دیں۔’
وہ بتاتے ہیں کہ کچھ لوگ ایک ٹھکانے کو محفوظ سمجھ کر وہاں چھپ گئے تھے لیکن جب فوجی ان کی طرف بڑھنے لگے تو وہ بھاگنے لگے۔ ‘ہم نے ان بھاگنے والوں کو گولی مار دی۔’
کارپورل آنگ نے اعتراف کیا کہ ان کی یونٹ نے پانچ افراد کو ہلاک کرنے کے بعد دفن کر دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘ہمیں گاؤں کے ہر بڑے اور اچھے گھر کو آگ لگانے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔’
سپاہیوں نے پورے گاؤں میں گھوم کر گھروں کو آگ لگاتے رہے اور ‘جلا دو جلا دو’ چلاتے رہے۔
کارپورل آنگ نے خود چار عمارتوں کو آگ لگا دی۔ بی بی سی سے بات کرنے والے لوگوں نے بتایا ہے کہ کم از کم 60 مکانات جل گئے اور گاؤں کا بیشتر حصہ راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا۔
زیادہ تر لوگ گاؤں سے بھاگ نکلے لیکن ہر کوئی نہیں نکل سکا۔گاؤں کے وسط میں ایک مکان میں کچھ لوگ رہ گئے تھے۔
تھیہا کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے سے صرف پانچ ماہ قبل فوج میں شامل ہوئے تھے۔
بہت سے دوسرے فوجیوں کی طرح، انھیں کمیونٹی کی جانب سے شامل کیا گیا اور انھیں تربیت نہیں دی گئی۔ ان فوجیوں کو مقامی طور پر آنگھر-ست- تھار یا ‘کرائے کے فوجی’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس وقت انھیں دو لاکھ میانمار کھات (تقریباً 100 ڈالر یا 20 ہزار پاکستان روپے) کی معقول تنخواہ دی گئی۔ انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ اس گھر میں کیا ہوا تھا۔
انھوں نے ایک نوجوان لڑکی کو اس گھر میں لوہے کی سلاخوں کے پیچھے پھنسا ہوا دیکھا جسے وہ جلانے جا رہے تھے۔
وہ کہتے ہیں: ‘میں اس کی چیخ نہیں بھول سکتا۔ میں اسے اب بھی اپنے کانوں میں گونجتا سن سکتا ہوں اور وہ میرے دل میں بسی ہے۔’
جب انھوں نے اپنے کپتان کو یہ بات بتائی تو اس نے جواب دیا کہ ‘میں نے تم سے کہا ہے کہ جسے دیکھو اسے مار دو۔’
یہ سن کر تھیہا نے گھر کو آگ لگا دی۔ کارپورل آنگ بھی وہاں موجود تھے اور جب لڑکی کو زندہ جلایا گیا تو انھوں نے بھی اس کی چیخیں سنیں۔
وہ یاد کرتے ہیں: ‘اس کی چیخیں دل کے ٹکڑے کر رہی تھیں۔ ہم نے تقریباً 15 منٹ تک اس کی چیخیں سنیں۔ اس دوران گھر جلتا رہا۔’
بی بی سی نے اس لڑکی کے رشتہ داروں کا پتا چلایا اور انھوں اپنے جلے ہوئے گھروں کے باہر بی بی سی سے بات کی۔
اس لڑکی کے رشتہ دار یو میئنت نے بتایا کہ لڑکی ذہنی طور پر بیمار تھی۔ اس کے والدین اسے گھر پر چھوڑ کر کام پر چلے گئے تھے اور وہ گھر میں اکیلی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ‘اس نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی لیکن فوجیوں نے اسے روک دیا اور اسے جلنے دیا۔’
وہ واحد لڑکی نہیں تھی جسے ان فوجیوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
تھیہا کا کہنا ہے کہ انھوں نے پیسوں کے لیے فوج میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن جس طرح کے ظلم و ستم اسے کرنے پر مجبور کیا گیا اور جو کچھ اس نے دیکھا اس سے وہ لرز کر رہ گئے۔
انھوں نے خواتین کے ایک گروپ کے بارے میں بتایا جنھیں یا میئت میں گرفتار کیا گیا تھا۔
افسر نے اپنے ماتحتوں کو ان خواتین کو حوالے کرتے ہوئے کہا، ‘جو چاہو کرو۔’ تھیہا کا کہنا ہے کہ ان لڑکیوں کا ریپ ہوا لیکن وہ خود اس میں ملوث نہیں تھے۔
بی بی سی نے ان میں سے دو لڑکیوں کی شناخت کی ہے۔
پا پا اور کھن ہٹوے بتاتی ہیں کہ جب وہ فرار ہونے کی کوشش کر رہی تھیں تو راستے میں فوجی مل گئے۔ ان کا تعلق یا میئت گاؤں سے نہیں تھا بلکہ وہاں وہ ایک درزی کے پاس آئی تھیں۔
یہ لڑکیاں منتیں کرتی رہیں کہ وہ اس گاؤں کی نہیں ہیں اور نہ ہی پی ڈی ایف سے ان کا کوئی تعلق ہے لیکن فوجیوں نے ان کی ایک نہ سنی اور انھیں ایک مقامی سکول میں تین راتوں تک یرغمال بنا کر رکھا گیا۔ ہر رات فوجی بار بار شراب کے نشے میں ان کی عصمت دری کرتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘انہوں نے میری آنکھوں پر سارونگ (دھاری دار تہ بند) باندھا اور مجھے نیچے گرا دیا۔ میرے کپڑے اتار کر میرا ریپ کیا گيا۔’
پا پا کہتی ہیں: ‘میں چیختی رہی اور وہ میرا ریپ کرتے رہے۔’
انھوں نے سپاہیوں سے التجا کی کہ وہ انھیں چھوڑ دیں لیکن وہ باز نہ آئے۔ انھیں بندوق کی نوک پر مارا پیٹا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔
ان کی بہن کھن ہٹوے کانپتی ہوئی آواز میں بتاتی ہیں: ‘ہمیں یہ سب کچھ بغیر کسی مزاحمت کے برداشت کرنا پڑا کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ وہ ہمیں کو مار ڈالیں گے۔’
یہ لڑکیاں اتنی خوفزدہ تھیں کہ اپنے ریپ کرنے والوں کو ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں رہی تھیں۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ ان میں سے کچھ سادہ لباس میں تھے اور کچھ فوجی وردی میں تھے۔
تھیہا یادر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘جب بھی وہ کسی نوجوان لڑکی کو پکڑتے، تو اس کی عصمت دری کرتے ہوئے اور اسے طعنے دیتے اور کہتے کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ تم لوگ پی ڈی ایف حامی ہو۔’
یا میئت گاؤں میں ہونے والے حملے میں کم از کم دس افراد ہلاک اور آٹھ لڑکیوں کی تین دن تک عصمت دری کی گئی۔
وہ وحشیانہ قتل جس میں کرائے کے فوجی منگ او نے حصہ لیا وہ 2 مئی 2022 کو سیگینگ کے علاقے کے گاؤں اوہاکو فو میں رونما ہوا۔
اس نے اپنے 33 ویں ڈویژن (لائٹ انفنٹری ڈویژن 33) کے بارے میں جو دعویٰ کیا وہ ایک خانقاہ یا مٹھ میں لوگوں کو اکٹھا کرنے اور گولی مارنے کے بارے میں عینی شاہدین کی گواہی اور حملے کے فوراً بعد بی بی سی کو حاصل ہونے والی پرتشدد ویڈیوز سے مماثل ہے۔
اس ویڈیو میں 9 لاشیں قطار میں پڑی نظر آرہی ہیں، جس میں ایک خاتون اور ایک بزرگ کی لاشیں ایک دوسرے کے گرد پڑی نظر آرہی ہیں۔ ان سب نے سارونگ اور ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں۔
ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ اسے پیچھے اور قریب سے ریکارڈ کیا گیا تھا۔
ہم نے گاؤں والوں سے بھی بات کی جنھوں نے اس ظلم کو دیکھا۔ انھوں نے بزرگ کے پاس پڑی نوجوان عورت کو پہچانا۔ اور اس کا نام ما موے موے بتایا۔
اس کے ساتھ اس کا بچہ اور سونے کے زیورات سے بھرا ایک بیگ تھا۔ اس نے فوجیوں سے التجا کی کہ وہ ان کی چیزیں نہ چھینیں۔
اس موقع پر ہالا ہالا موجود تھیں لیکن وہ بچ گئیں۔ وہ کہتی ہیں: ‘اگرچہ اس کی گود میں ایک بچہ تھا، لیکن انھوں نے اس کا سامان لوٹ لیا اور اسے گولی مار دی۔ انھوں نے مردوں کو قطار میں کھڑا کیا اور ایک ایک کر کے سب کو گولی مار دی۔’
بچہ بچ گیا تھا اور اب اس کی دیکھ بھال اس کے لواحقین کر رہے ہیں۔
ہالا ہالہ کہتی ہیں کہ انھوں نے فون پر فوجیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ انھوں نے آٹھ سے نو افراد کو مار ڈالا ہے اور انھیں ‘مزا آيا’۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ‘یہ ان کا اب تک کا سب سے کامیاب دن تھا۔’
وہ بتاتی ہیں کہ جب فوجی گاؤں سے نکلے تو وہ جیت کے نعرے لگا رہے تھے۔
ایک اور عورت نے اپنے شوہر کو قتل ہوتے دیکھا۔ وہ کہتی ہیں: ‘اس نے پہلے اس کی ران میں گولی ماری اور پھر اسے لیٹنے کو کہا۔ پھر اسے کولہے پر اور آخر میں سر میں گولی مار دی۔’
وہ اصرار کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کا پی ڈی ایف سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ‘وہ تاڑی نکالنے کا کام کرتا تھے اور روایتی طریقے سے روزی کماتے تھے۔ میری ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ اب زندگی کیسے آگے بڑھے گی۔’
مانگ او کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہے۔ انھوں نے کہا: ‘میں آپ کو سب کچھ بتا دوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر کسی کو اس کے بارے میں معلوم ہو تاکہ وہ ہمارے جیسے انجام سے بچ سکیں۔’
بی بی سی سے بات کرنے والے تمام چھ فوجیوں نے وسطی میانمار میں گھروں کو جلانے کا اعتراف کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بغاوت کی حمایت کو سبوتاژ کرنے کا ایک منصوبہ بند طریقہ ہے۔
اور یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ فوج متعدد محاذوں پر جاری خانہ جنگی میں برتری برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
میانمار وٹنیس محققین کا ایک گروپ ہے جو میانمار میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ریکارڈ کرنے کے لیے دستیاب معلومات کا استعمال کرتے ہیں۔ اس گروپ نے پچھلے دس مہینوں میں 200 سے زیادہ گاؤں کو جلائے جانے کی رپورٹیں مرتب کی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حملوں کا پیمانہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور رواں سال جنوری اور فروری میں کم از کم 40 ایسے حملے ہوئے جبکہ مارچ اور اپریل میں یہ تعداد 66 تھی۔
میانمار کی فوج گاؤں کو جلا رہی ہے
یہ ڈیٹا 1 ستمبر 2021 سے 22 جون 2022 تک کا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ میانمار کی فوج گھروں اور دیہاتوں کو آگ لگانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسے سنہ 2017 میں رخائن صوبے میں روہنگیا لوگوں کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا چکا ہے۔
اس طرح کے حملے ملک کے پہاڑی اور نسلی علاقوں میں کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔ اسی نسلی ملیشیا میں سے کچھ اب پی ڈی ایف کو فوج کے خلاف خانہ جنگی میں ہتھیار اور تربیت حاصل کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ میانمار میں فوجیوں کو اپنی مرضی سے لوٹ مار اور قتل کرنے کی اجازت دینے کا یہ کلچر کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
کسی کو فوج کی طرف سے ہونے والے مظالم کا شاذ و نادر ہی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
لیکن پی ڈی ایف فوجیوں کے ہاتھوں قتل اور فوجیوں کے ملازمت ترک کرنے کی وجہ سے میانمار کی فوج کو بڑی تعداد میں کرائے کے فوجیوں اور ملیشیاؤں کی خدمات ضرورت ہے۔
سنہ 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک دس ہزار کے قریب فوجی اور پولیس اہلکار فوج سے فرار ہو چکے ہیں۔ سابق فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی تنظیم پیپلز ایمبریس نے یہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔
سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے تھنک ٹینک کے مائیکل مارٹن کہتے ہیں کہ ‘فوج کئی محاذوں پر جاری خانہ جنگی میں لڑ رہی ہے۔’
مارٹن کا کہنا ہے کہ ‘فوج میں لوگوں کی کمی ہے، افسروں کے رینک میں اور فوجی رینک میں بھی کیونکہ اسے بہت زیادہ نقصانات کا سامنا ہے اور نئی بھرتیوں میں مسائل ہیں۔ اس کے علاوہ سپلائی اور آلات کے مسائل بھی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ملک کے کئی حصوں میں بہت سے علاقوں پر کنٹرول کھو رہے ہیں۔
میگوے اور ساگینگ کے علاقے جہاں ظلم و ستم ہوئے وہ تاریخی طور پر فوجی بھرتی کے علاقے رہے ہیں۔ لیکن اب یہاں کے نوجوان پی ڈی ایف میں شامل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
کارپورل آنگ فوج چھوڑنے کی وجہ کے بارے میں واضح تھے۔ وہ کہتے ہیں: ‘اگر میں نے سوچا ہوتا کہ فوج ایک طویل جنگ میں جیت جائے گی تو میں کبھی بھی عوام کی طرف نہ آتا۔’
وہ کہتے ہیں کہ فوجی کبھی بھی اپنے اڈے کو تنہا نہیں چھوڑتے کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ پی ڈی ایف انھیں مار ڈالے گی۔
‘ہم جہاں بھی جاتے ہیں، صرف فوجی دستوں کے روپ میں جاتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم حاوی ہیں۔’
ہم نے اس تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آنے والے الزامات کو میانمار کی فوج کے ترجمان جنرل زا من تون کے سامنے پیش کیا۔ ایک بیان میں انھوں نے فوج کے شہریوں پر حملہ کرنے اور انھیں ہلاک کرنے کے الزام کی تردید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں بیان کردہ دو چھاپے دونوں جائز اہداف تھے اور مارے جانے والے ‘دہشت گرد’ تھے۔
انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ فوج دیہاتوں کو آگ لگا رہی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ پی ڈی ایف آتشزنی اور گاؤں پر حملہ کر رہی ہے۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ خانہ جنگی کب اور کیسے ختم ہوگی لیکن ایسا لگتا ہے کہ میانمار کے لاکھوں لوگ دہشت زدہ زندگی گزاریں گے۔
اور امن قائم ہونے میں وقت لگے گا اس وقت تک ریپ کا شکار کھن ہتوے جیسی خواتین استحصال اور تشدد کے خطرے سے دوچار رہیں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد وہ جینا نہیں چاہتی تھیں اور ان کے ذہن میں کئی بار اپنی جان لینے کا خیال بھی آیا ہے۔
انھوں نے ابھی تک اپنے منگیتر کو اپنی روداد نہیں بتائی ہے۔
گرافکس: اگنیا ادزیکیا، ارون سوپریادی اور ڈیویز سوریا