مہنگائی اور اخراجاتِ زندگی مہنگائی کے دور میں آپ چیزیں سستے داموں کیسے خرید سکتے ہیں؟
پاکستان میں اس وقت مہنگائی کے طوفان نے تو سب کو ہی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے لیکن ایک سوال عام ہے کہ اس سب کا حل کیا ہے؟
کوئی یہ پوچھ رہا ہے کہ گھر کا بجٹ کیسے بنائیں تو کوئی اس پریشانی سے دوچار ہے کہ پیٹرول کا خرچہ کیسے پورا ہو گا۔
ہر شخص اس مہنگائی کا توڑ کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی حل نکال رہا ہے۔
بہت سے لوگوں کے پاس اس کا ایک حل یہ ہے کہ مہنگی اشیا خریدنے کی بجائے وہی اشیا سیل سے خریدی جائیں تو آپ اچھی خاصی بچت کر سکتے ہیں۔
- آپ کی کہانی اور سوال: پاکستان میں جاری معاشی بحران اور مہنگائی کے آپ کی زندگی پر اثرات
‘برینڈز کو چھوڑ کر اب سیل سے شاپنگ کرتے ہیں‘
حمیرا دو بچوں کی ماں ہیں اور انھیں یہ پریشانی ہے کہ بچوں کے سکول کھلنے والے ہیں اور انھیں نئی کلاس کے لیے نئی چیزیں درکار ہوں گی۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ‘میں اور میرے شوہر دونوں ہی نوکری کرتے ہیں۔ پہلے ہم دونوں مل کر اتنا کما لیتے تھے کہ سوچے سمجھے بغیر کسی بھی برینڈ کے کپڑے، جوتے اور گھر کی روزمرہ کی چیزیں خرید لیتے تھے۔‘
‘جب ایک دم سے مہنگائی بڑھی تو ہم نے زیادہ خیال نہیں کیا اور پرانے انداز میں شاپنگ کی۔ جہاں ہمارے گھر کا مہینے کا سامان 25 ہزار روپے کا آتا تھا تو وہی سامان اب 40 ہزار کا آیا اور یہی حال کپڑوں، جوتوں اور گھر کی دیگر ایشا کا ہے۔ اس لیے اب ہم مہنگے سٹور پر جانے کی بجائے ان سٹورز پر جاتے ہیں جہاں سیل لگی ہوتی ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ‘یہ سب کرنے کا مقصد بس اتنا ہے کہ جہاں سے ہم پیسے بچا سکتے ہیں وہاں سے بچا لیں۔ کچھ سیلز بہت اچھی ہوتی ہیں لیکن کچھ سیلز عوام کے لیے صرف دھوکہ ہی ہوتا ہے۔‘
’افسوس ہوتا ہے ہم زندگی کی بنیادی چیزیں آرام سے نہیں خرید سکتے‘
اسی طرح اعتزاز احمد بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور پرائیوٹ سیکٹر کے ساتھ منسلک ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ‘میں نوکری کرتا ہوں اور ہمارے گھر میں تین افراد ہیں لیکن جس حساب سے مہنگائی بڑھ رہی ہے، لگتا ہے کہ خرچہ چھ افراد کا ہے۔‘
’اب ہم سوچتے ہیں کہ کپڑوں، جوتوں اور دیگر اضافی اشیا چھوڑ کر صرف کھانا پینا پورا ہو جائے تو وہی کافی ہے۔ پہلے ہم مہنگے چاول لے کر آتے تھے لیکن اب تو جو سستے مل جائیں وہی استعمال کر لیتے ہیں۔ جہاں سیل نظر آتی ہے وہاں سے چیزیں لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ میری اہلیہ بھی اب سیل سے ہی شاپنگ کرتی ہیں تاکہ پیسوں کی بچت ہو سکے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ‘میرے گھر میں صرف میں اکیلا کمانے والا ہوں۔ پہلے کپڑے یا کوئی اور چیز آرام سے لے لیا کرتے تھے۔ اب تو یہ انتظار بھی کرنا پڑتا ہے کہ کب سیل لگے تو خریداری کریں۔ جو چیز چاہیے ہوتی ہے ہم تو پہلے ہی اس کی ونڈو شاپنگ کر لیتے ہیں اور پھر سیل لگتی ہے تو فوراً اس چیز کو خرید لیتے ہیں۔‘
اپنے جذبات کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ‘ویسے اگر دیکھا جائے تو سیل میں سے شاپنگ کرنا ہمارے لیے فائدہ مند عمل ہے لیکن چیزوں کے لیے انتظار کرنا کبھی کبھی احساس محرومی بھی دلاتا ہے۔ اب تو افسوس بھی ہوتا ہے کہ ہم زندگی کی بنیادی چیزیں آرام سے نہیں خرید سکتے۔‘
سیل میں خریداری کا نقصان
اعتزاز احمد کہتے ہیں کہ ‘اگر مجھ سے پوچھا جائے تو پیسے بچانے کے لیے ہم سیل سے چیزیں خرید تو لیتے ہیں لیکن سیل میں لگی ستر فیصد چیزیں اکثر غیر معیاری ہوتی ہیں یا ان کی میعاد ختم ہونے والی ہوتی ہے۔ جہاں سیل کا فائدہ ہوتا ہے تو یہ نقصانات بھی ہیں کہ آپ ایک مخصوص چیز لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ آپ سو فیصد اپنی پسند سے چیز نہیں لے پاتے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ اکثر تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ دکاندار ہماری نفسیات سے کھیلتے ہیں۔
’اگر کوئی چیز سو روپے کی ہے تو سیل کا بورڈ لگا دیتے ہیں اور وہی چیز سو روپے میں ہی سیل میں فروخت کر رہے ہوتے ہیں اور ہم لوگ بیوقوف بنتے ہیں کہ سیل ہے، سستی مل رہی ہے اس لیے فوراً خرید لیتے ہیں۔‘
‘دنیا بھر میں سارا سال سیلز لگائی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں‘
عرفان اقبال شیخ ایف پی سی سی آئی (فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری) کے صدر ہیں اور الفتح سٹور کے مالک ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ رواں سال لوگوں کی قوت خرید میں 15 فیصد کمی آئی ہے۔
‘آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس بار ہر برینڈ اور دکاندار نے پہلے کی نبست سیلز زیادہ لگائی ہیں اور ایسا نہیں کہ دس اور پندرہ فیصد سیل لگی ہو۔ اس بار تیس، چالیس اور پچاس فیصد تک سیلز لگائی جا رہی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘ویسے تو دینا بھر میں پورا سال ہی سیل لگی ہوتی ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں۔ سارا سال تو نہیں لیکن سیل لگانے کا ٹرینڈ یہاں بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور لوگ اب تہواروں اور مخصوص دنوں سے منسلک سیلز لگا رہے ہیں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ خریداری کر سکیں۔‘
کیا ان سیلز کا کسٹمر اور دکاندار دونوں کو فائدہ ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں عرفان اقبال کا کہنا تھا کہ ‘سیل دونوں پارٹیوں کے لیے فائدہ مند ہے، کسٹمر کو بھی فائدہ ہوتا ہے لیکن یہاں زیادہ فائدہ دکاندار کو ہو رہا ہے۔‘
عرفان اقبال نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر چیز کا ایک سیزن ہوتا ہے۔ جیسے خواتین گرمیوں میں میک اپ زیادہ نہیں خریدتی ہیں۔ یہ سردیوں میں زیادہ فروخت ہوتا ہے کیونکہ شادیاں سردیوں میں زیادہ ہوتی ہیں لیکن دکاندار نے تو اپنا مال فروخت کرنا ہے۔‘
’اس لیے وہ آف سیزن سیل لگا دیتے ہیں کہ کم از کم خواتین فوری ضرورت نہ ہونے کے باوجود خریدیں گی تو سہی۔ یہی حکمت عملی ہر چیز کو فروخت کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور خریدار کی نفسیات سے کھیلا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’دیکھا جائے تو یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے کہ کاروبار کرنے والے شخص کا پیسہ مارکیٹ میں گردش کرتا رہے۔ جہاں پیسے کی گردش رک جاتی ہے وہاں مارکیٹ نیچے چلی جاتی ہے۔‘
عرفان اقبال شیخ کہتے ہیں کہ ‘اس کے علاوہ دکاندار سیل اس لیے بھی لگاتے ہیں تاکہ اپنی انوینٹری کو پرانی چیزوں سے خالی کر کے نئی اشیا لگائیں کیونکہ چیزوں کی معیاد ختم ہو رہی ہوتی ہے۔‘
’اس لیے سب سے پہلے ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس سٹاک کو نکالیں۔ یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ چیزوں کی میعاد ختم ہو گئی تو سارا پیسہ ضائع ہو جائے گا۔ اس لیے اسے سستے داموں بیچ کر کچھ تو پیسوں کی ریکوری ہو جائے۔‘
‘آج کل کوئی چیز اٹھا کر دیکھ لیں، ہمارا کسٹمر چاہتا ہے کہ اس کی ہر چیز اپ ڈیٹ ہو۔ کپڑے، جوتے یا کوئی اور استعمال کی چیز، انھیں ہمیشہ نئی کلیکشن سے کچھ نہ کچھ چاہیے ہوتا ہے۔‘
’اس لیے برینڈز کی بھی مجبوری بن گئی ہے کہ وہ ہر چند ہفتوں بعد اپنی نئی کلیکشن نکالتے ہیں۔ اس وجہ سے اپنا سٹوریج خالی کرنے کے لیے دکانداروں کو سیل لگانا پڑتی ہے۔‘