مہران ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی کیس ’دیت تو مل جائے گی مگر انصاف نہیں مل سکا
’لگتا ہے میرے دونوں بازو کٹ گئے ہوں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ایک دن ہی میرے تینوں لعل ختم ہو جائیں گے۔ میں نے سوچا تھا کہ اپنی اور میاں کی ضعیف عمر میں میرے بچے میرا سہارا بنیں گے لیکن میرا سب کچھ چھن گیا۔ بسا بسایا گھر تھا، سب ٹھیک چل رہا تھا۔ اب تینوں بیٹوں کے بچے سیلانی کے یہاں سے راشن لے کر پیٹ بھرتے ہیں۔ کیا سے کیا ہو گیا۔‘
کراچی کے ایک قدیم علاقے عثمان آباد کے ایک چھوٹے سے مکان کے باہر 70 سالہ زرینہ بیگم ایک کمسن بچی کو گود میں لیے بیٹھی ہیں۔ دونوں کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ ان کو کسی آنے والے کا انتظار ہے۔ اُن کے چہرے پر افسردگی واضح ہے کیونکہ اس بچی کے والد اور زرینہ بیگم کے تین بیٹے چند دن قبل ہی ایک فیکٹری میں لگنے والی آگ میں جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔
زرینہ بیگم کا غم بہت بڑا ہے۔ اُنھوں نے ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین بیٹوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھتے دیکھے تھے۔ اور جنازے بھی ایسے جن کی شکلیں جھلس جانے سے ناقابل شناخت ہو چکی تھیں۔
کراچی کے کورنگی انڈسٹریل ایریا کے علاقے مہران ٹاؤن میں واقع بی ایم لگیج کمپنی کی فیکٹری میں رواں برس اگست میں لگنے والی آگ میں جل کر ہلاک ہونے والے 17 مزدوروں میں تین اُن کے بیٹے تھے۔
گذشتہ روز ایک مقامی عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ فیکڑی مالکان اور ہلاک ہونے والے مزدوروں کے لواحقین میں دیت کا معاملہ طے پا گیا ہے۔
مقامی عدالت نے کمپنی مالک حسن میتھا کو عارضی ضمانت دیتے ہوئے ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کو 42 لاکھ روپے فی خاندان ادا کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔
آتشزدگی کے اس واقعے کے بعد کمپنی مالک کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
’کسی نے آ کر نہ پوچھا کہ کھانے کو بھی ہے؟‘
زرینہ بیگم کے تین بیٹے، 37 سالہ عرفان، 33 سالہ فرمان اور 30 سالہ فرحان فیکٹری میں کام کرنے گئے مگر پھر واپس نہ آئے۔ تاہم زرینہ بیگم کے سب سے بڑے بیٹے 40 سالہ افضال، جو اسی فیکٹری میں کام کرتے تھے، اس واقعے میں محفوظ رہے۔
افضال اس روز صبح اپنے تینوں بھائیوں کے ساتھ فیکٹری میں موجود تھے جہاں ایکسپورٹ کوالٹی کے بیگز تیار ہوتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے تینوں بھائی اوپر والی منزل پر موجود تھے جب سیڑھیوں کے قریب پڑے ڈھیر سارے بیگز میں آگ لگی۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آگ اس قدر پھیل جائے گی۔ میں نے بجائے اوپر جانے کے دوسروں ساتھیوں کے ساتھ کوشش کی کہ آگ کو سپرے سے بجھاؤں۔ لیکن جیسے ہی سپرے کیا تو آگ مزید بھڑک اٹھی اور شعلے بلند ہونے لگے۔‘
افضال کے مطابق ان کے تینوں بھائی چیختے چلاتے رہے لیکن ہنگامی اخراج کا کوئی بھی راستے نہ ہونے کے باعث اور دوسری منزل پر کھڑکیوں میں ’جیل نما‘ سلاخوں کے نصب ہونے کے باعث عرفان، فرمان، فرحان پہلے دم گھٹنے سے مرے اور پھر آگ نے ان کے جسموں کو خاکستر کر دیا۔
’فائر بریگیڈ کو مسلسل کال کی مگر وہ نہ آئے۔ میں خود اُن کو بلانے بھی گیا۔ لیکن جب وہ آئے تو ان کی گاڑی میں پانی نہیں تھا۔ چند لمحوں میں ہی سب تباہ و برباد ہو گیا۔ لاشوں کو نکالنے کے لیے مشینری بلائی گئی۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب لاشوں کو نکالنے کے لیے وہ شاول آ سکتا تھا تو جس وقت آگ لگی تو یہ کیوں نہیں آیا۔‘
افضال صرف ہاتھ ملتے رہے اور اپنے بھائیوں کی مدد کی پکاریں ان کے کانوں میں گونجتی رہیں جو آج بھی انھیں ستاتی ہیں۔
اس سانحے کے بعد اس غریب و متوسط طبقے کے علاقے میں ’بڑے بڑے‘ لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ افضال بتاتے ہیں کہ ’ہر پارٹی آئی۔۔ گھر تک تو راستہ تنگ تھا تو چورنگی پر تنبو لگایا گیا اور ہم سے بہت سے وعدے کیے گئے۔ لیکن آج تک ایک پھوٹی کوڑی نہیں دی گئی۔ میں بھی بے روزگار ہو چکا ہوں کیونکہ فیکٹری ہی نہ رہی۔ کرائے کے گھر ہیں۔ سب ختم ہو گیا۔‘
افضال نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عدالت نے اُنھیں معاوضہ دلوانے کی ضمانت دی ہے لیکن ابھی تک ان کے ہاتھ کچھ آیا نہیں ہے۔
’وہ تو مر چکے، ہم روز مرتے ہیں‘
آتشزدگی کا شکار ہونے والی مہران ٹاؤن کی فیکٹری ایک رہائشی علاقے میں واقع تھی۔ اس فیکٹری کے عین سامنے والے پلاٹ نما مکان میں 22 سالہ کاشف اپنے پانچ بہن بھائیوں اور والدین کے ساتھ رہتے تھے جو اس آگ میں جل کر ہلاک ہوئے۔
کاشف کی والدہ سلمیٰ بی بی نے بی بی سی اردو کے بتایا کہ قریب 10 بجے جب آگ لگی تھی تو وہ بھاگتے ہوئے فیکٹری کے اندر گئیں لیکن معلوم یہ ہوا کہ جس ڈیپارٹمنٹ میں ان کا بیٹا کام کر رہا تھا اس کا دروازہ بند تھا اور اخراج کا کوئی ہنگامی راستہ موجود نہ تھا۔
’میرے سامنے اندر پھنسے لوگ بشمول میرا بیٹا چیختے رہے کہ ہمیں بچا لو مگر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ میں نے چوکیدار سے پوچھا کہ آخر اوپر والے ڈیپارٹمنٹ کا دروازہ کیوں بند ہے تو اس نے کہا اس کی چابیاں مالک لے گیا ہے۔‘
سلمیٰ بی بی کے مطابق کاشف کا ایک ہی خواب تھا کہ وہ کسی طرح کام کرنے باہر چلا جائے اور اپنے گھر کے حالات بہتر کرے۔ ’اس کو امید تھی کہ سیٹھ اسے دبئی لے جائے گا۔ سب جانتے تھے، اس نے سب کو بتایا تھا۔ لیکن وہ تو مر چکا اور اب ہم روز مرتے ہیں۔‘
سلمیٰ بی بی کے مطابق اُنھوں نے ہی سب سے پہلے جا کر شریف آباد تھانے میں مقدمہ درج کروایا تاکہ اُنھیں انصاف ملے۔
’ہمارے پاس سب آئے، سیٹھ کے رشتے دار بھی اور کہا کہ ہمیں ڈھیر سارا پیسہ دیں گے، کیس نہ کرو۔ لیکن مجھے اب انصاف چاہیے۔ کوئی روپیہ پیسہ نہیں۔ جس 10 لاکھ کی حکومتی امدا کا اعلان ہوا تھا اس کے لیے بھی در در ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اور اب جج صاحب اور ڈی سی صاحب کی وجہ سے ہم کو دیت ملنے کی امید ملی ہے۔ ان کا بڑا احسان ہے ہم پر، لیکن انصاف تو تب ہوتا جب مجرموں کو سزا ملتی۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ فیکٹری میں باہر نکلنے کے سب راستے بند تھے تو جرم تو کیا گیا نہ۔‘
اس رپورٹ کے لیے جب کمپنی مالک حسن میتھا کا مؤقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کے وکیل حسان صابر نے کہا: ’یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی اور دروازے بند کر دیے گئے تھے، ایسا یہاں بھی ہوا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ حالانکہ جو دروازہ بند تھا وہ چھت کا تھا جو عموماً بند ہی ہوتا ہے اس سے کیا لینا دینا۔‘
انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ ’اس دروازے کی چابی تفتیشی افسر کے مطابق خود سلمیٰ بی بی نے پولیس کے حوالے کیں اور کہا کہ چوکیدار وہ چابیاں چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ اور اگر ایسا تھا ہوا تو پولیس کیا کر رہی تھی، دروازہ کیوں نہ کھولا گیا۔‘
حسان صابر کے مطابق غلطی ان اداروں کی ہے جن کا کام حفاظت فراہم کرنا اور آگ کو بجھانا تھا۔ ’جب فائر بریگیڈ کا عملہ جائے وقوعہ پر پہنچا ہے تو ان کے پاس پہلے پانی نہیں تھا۔ جو دیگر اشیا آگ بجھانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں وہ بھی نہیں تھیں اور نہ عملے نے مخصوص لباس پہن رکھا تھا جس سے وہ اندر جا کر آگ بجھانے کا کام کرتے۔‘
’کمپنی کا ساز و سامان مزدوروں کی جان سے زیادہ قیمتی تھا‘
فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے سعد ایدھی جب اس دن جائے وقوعہ پر پہنچے تو اُنھوں نے دیکھا کہ فیکٹری کی ساری کھڑکیوں پر سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ صرف اس وجہ سے تھا کیونکہ مالک کو اپنے ساز و سامان کی زیادہ فکر ہو گی کہ کہیں کوئی چوری نہ ہو جائے۔ لیکن ان سلاخوں کی وجہ سے مزدور جل کر ہلاک ہو گئے۔ سب سے پہلے ہم اس منزل پر پہنچے جس میں آگ لگی تھی۔ وہ دروازہ ٹوٹا ہوا تھا۔ لگ رہا تھا کہ اس کو اندر سے مزدوروں نے توڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ ایک چھت کا دروازہ بھی تھا لیکن اس پر تالا لگا تھا۔ جس سے مزدور بُری طرح پھنس گئے تھے۔‘
سعد نے دعویٰ کیا کہ جب ایدھی کا پہلا ڈرائیور جائے وقوعہ پر پہنچا تو اس کو کمپنی کے گارڈ نے اندر جانے سے منع کر دیا اور دروازہ بند کر دیا۔ ’وہ بار بار یہی بات دہراتا کہ جب تک سیٹھ حکم نہیں دیتا وہ دروازہ نہیں کھولے گا۔‘
ان کے مطابق آخری جھلس جانے والی میت تقریباً پانچ گھنٹے بعد نکالی گئی۔
قصوروار کون؟
سپریم کورٹ کے سینیئر ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کی رائے میں قصوروار فیکٹری کے مالک اور ان اداروں کے عہدیداران ہیں جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ فیکٹری میں حفاظتی قوانین لاگو کروائیں۔
اُنھوں نے سنہ 2012 میں کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں آتشزدگی میں 250 سے زائد مزدوروں کی ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر علی انٹر پرائزز کے مالکان اور ان کے قصوروار ملازمین کے خلاف کارروائی ہوتی تو شاید یہ واقعہ نہ ہوتا۔ یہ واقعہ اس لیے بھی رونما ہوا کیونکہ ان اداروں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی جن کی غفلت کی وجہ سے بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی تھی۔‘
فیصل صدیقی نے مزید بتایا کہ یہ فیکٹری کئی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی تھی جس میں سندھ فیکٹریز ایکٹ 2015، سندھ اوکوپیشنل اینڈ سیفٹی ایکٹ 2017 اور سندھ اینوائرنمنٹ پروٹیکشن ایکٹ 2014 سرفہرست ہیں۔
’فیکٹری میں جل کر ہلاک ہونے والوں کے لواحقین ناصرف کورٹ سے رجوع کر کے معاوضہ لے سکتے ہیں بلکہ سندھ ورکرز کمپنسیشن ایکٹ2015 کی رو سے بھی حکومتِ سندھ پابند ہے کہ ان خاندان کو معاوضہ ادا کرے۔‘
’فیکٹری غیر قانونی طور پر کام کر رہی تھی‘
ڈپٹی کمشنر کورنگی سلیم اللہ اوڈھو نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ یہ فیکٹری غیر قانونی تھی کیونکہ اس کا پلاٹ رہائشی علاقے میں تھا۔
’اس پلاٹ کے لیے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں درخواست دی گئی کہ مالکان ایک رہائشی مکان بنانا چاہتے ہیں۔ مگر اُنھوں نے یہاں فیکٹری کھڑی کر دی جو کہ غیر قانونی ہو جاتی ہے۔‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ اگر اس پلاٹ کو فیکٹری بنا بھی دیا تھا تو کسی حادثے سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ انتظام کرنا مالکان کی ذمہ داری تھی۔
’اس فیکٹری میں جو واقعہ ہوا اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ جب آگ لگی تو لوگ نکل نہیں پائے اور اُن کا دم گھٹ گیا۔ یہ فیکٹری مالکان کی ذمہ داری تھی۔ اور اس کے علاوہ ہمارے اداروں کی بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ لیبر ایکٹ 2015 کے تحت ڈپٹی کمشنر کو ایسی تمام فیکٹریوں کے لیے انسپکٹر بنایا گیا ہے اور اسی کی ذمہ داری ہے کہ متعلقہ اداروں سے ان فیکٹریوں کا دورہ کروائے۔‘
اُن کے مطابق ’لیکن بد قسمتی سے ہوا یہ کہ میں نے اپنا چارج 26 کو لیا اور 27 اگست کو یہ حادثہ پیش آ گیا۔ اس علاقے میں میری حدود کے اندر 71 فیکٹریاں ہیں جن کی میں نے جانچ پڑتال کروائی ہے۔‘
ڈی سی کورنگی سلیم اللہ نے مزید کہا کہ ان کے اختیار میں صرف یہ ہے کہ وہ نوٹس بھیج کر فیکٹری کو انتباہ کریں، لیکن فیکٹری کو سیل کر دینے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے۔
دوسری جانب کمپنی مالک کے وکیل حسان صابر کا کہنا تھا کہ یہ پلاٹ در اصل اُن کے مؤکل نے 2019 سے کرائے پر لے رکھا تھا اور اُنھیں نہیں معلوم تھا کہ یہ رہائشی علاقے میں واقع ہے۔
’کراچی کے اندر جتنی فیکٹریاں ہیں، سب میں سلاخیں لگی ہوئی ہیں، کسی میں اخراج کا راستہ نہیں ہے۔ میں نے عدالت میں بھی کہا کہ سٹی کورٹ میں ضلع غربی کی چھ منزلہ نئی عمارت بنی ہے، آگ یا ہنگامی اخراج کا رستہ اُس میں بھی نہیں ہے۔ اور جو آگ بجھانے والے سپرے لگے ہیں وہ بھی ایکسپائر ہو چکے ہیں۔ لہٰذا ہنگامی اخراج کا راستہ بنانا ہماری ذمہ داری نہیں تھی۔ یہ اس کی ذمہ داری تھی جس نے یہ عمارت بنائی تھی۔ (راستہ) ہونا ضرور چاہیے تھا، میں اس بات کا قائل ہوں۔‘
حسان صابر کا دعویٰ ہے کہ عمارت دراصل کسٹم بانڈڈ ویئر ہاؤس تھی جس میں رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کا کام صرف باہر سے مال منگوا کر باہر برآمد کرنا ہوتا ہے۔
تاہم یہ نکتہ ابھی عدالتی طور پر حل طلب ہے۔
اس سانحے میں بچ جانے والے ملازم افضال کا کہنا ہے کہ ’کیونکہ ہمیں سیٹھ تنخواہیں مناسب دیا کرتے تھے اس لیے ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ اپنے کارڈ بنوائیں اور یہ کہ رجسٹریشن بھی ہوتی ہے۔ اس حادثے کے بعد ہم نے ان اداروں جیسے ای او بی آئی اور سیسی کے نام پہلی دفعہ سنے ہیں۔