موت کی کشتی کا سفر مجھے اپنے بیٹے کی چیخیں سنائی دیتی ہیں کہ ماں، میں مر رہا ہوں
’جس لمحے ہم کشتی پر سوار ہوئے تو کپتان کو احساس ہو گیا کہ ہم نہیں جا پائیں گے۔ وہ چلایا: ’ہمیں واپس لے جاؤ! تم ہمیں موت کی طرف دھکیل رہے ہو۔‘
32 سالہ حمیدہ بحیرۂ روم میں 150 سے زیادہ تارکین وطن کو لے جانے والی کشتی کے ڈوبنے سے پہلے کے آخری لمحات کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کشتی کے ’کیپٹن اسامہ کو بندوق دکھا کر دھمکایا گیا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں ’سمگلر بلال دیب کے بھائی یوسف نے بندوق نکالی اور کہا ’اگر آپ کشتی پر سوار نہیں ہوئے تو ہم آپ کے بچوں سے شروع کریں گے۔‘
ستمبر کی ایک تاریک رات میں، تقریباً 300 سے 400 افراد شام کی سرحد کے قریب لبنان کے شمال میں طرابلس کے قریب باڑ لگے کھیتوں میں بنی ایک عمارت میں گئے۔ ان سب نے سمگلروں کو یورپ لے جانے کے لیے کشتی میں سوار ہونے کے لیے ہزاروں ڈالر ادا کیے تھے۔ دو دن کے اندر، ان میں سے 100 سے زیادہ مرنے والے تھے۔
حمیدہ مستو، ان کا شوہر، ان کے تین بچے اور ان کے بہرے والد مسافروں میں شامل تھے۔ انھوں نے فارم میں چھ دن اور راتیں گزاری تھیں، جہاں انسانی سمگلروں نے انھیں اٹلی جانے والی کشتی پر سوار ہونے سے پہلے انتظار کرنے کو کہا تھا۔
وہ اٹلی پہنچنے سے پہلے ایک گروپ کے طور پر سفر کے بارے میں پراعتماد تھے۔ ابو فراس ایک بروکر تھے جنھوں نے حمیدہ سے پیسے لیے۔ انھوں نے انھیں اس جہاز کی تصاویر دکھائیں جو انھیں سمندر کے پار لے جائے گا۔ یہ بالکل نیا اور اچھی حالت میں میں نظر آرہا تھا۔
سمگلر لوگوں کے نام پکار کر انھیں ایک ٹرک پر ساحل پر لے گئے، جہاں انھیں مچھلی پکڑنے والی چھوٹی کشتیوں پر بٹھایا گیا جو انھیں ساحل سے لے کر بڑے جہاز تک لے جائیں گی۔
حمیدہ کا خاندان آخر میں کشتی تک پہنچا، ان کے ساتھ کپتان بھی تھا جو انھیں اٹلی میں ایک نئی زندگی کے لیے لے جانے والا تھا۔ لیکن اس کے بجائے انھیں ’موت کی کشتی‘ میں لے جایا گیا۔
’میں نے اپنے بیٹے کو مرتے دیکھا‘
لبنان کی معیشت 2019 میں تباہ حالی کا شکار ہوگئی جسے اس وقت عالمی بینک نے 19ویں صدی کے بعد بد ترین مالیاتی بحران قرار دیا تھا۔
ملک کی زیادہ تر آبادی بنیادی ضروریات کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ بہت سے لبنانیوں کے ساتھ ساتھ شامی اور فلسطینی پناہ گزینوں نے گذشتہ سال غربت اور تباہ کن صورتحال سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے سمندر کا رخ کیا ہے۔
وسام تلاوی اور ان کا خاندان ان لوگوں میں شامل تھا جو حمیدہ کی طرح ہی کشتی پر سوار ہونے کے منتظر تھے۔ وہ اپنی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ ایک دوست اور اس کے خاندان کے ساتھ پہنچے تھے۔
ہمسایہ ملک شام میں ہسپتال سے لوٹنے والے وسام یاد کرتےہیں ’جب ہم سمندر کے وسط میں پہنچے تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ وہ نہیں جس کی ہم توقع کر رہے تھے۔ یہ واضح تھا کشتی اچھی حالت میں نہیں تھی۔ اوراس میں بہت زیادہ لوگ سوار تھے۔ 150 سے بھی زیادہ۔‘
میرے دوست نے سمگلر سے کہا ’تم ہمیں موت کی طرف لے جا رہے ہو۔ یہ نہیں کشتی جا پائے گی۔‘
اس کے بعد اسمگلر نے ہمیں دھمکی دی اور ہمارے بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’تم چلو ورنہ میں تمہارے بچوں کو سمندر میں چھوڑ دوں گا۔‘
وسام کی عمر 37 سال ہے اور وہ طرابلس میں کچرا جمع کرنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ چار بچوں کے باپ تھے: مئی، 9؛ عمار 8، مایا 5 اور محمود 4 سال۔
وسام نے ایک زیر تعمیر فلیٹ، جو انھیں اپنے خاندان سے وراثت میں ملا تھا اور جس کی مالیت 18,000 ڈالر تھی، بہتر مستقبل کی امید پر سمگلر کو دے دیا تاکہ سفر کی لاگت پوری کی جا سکے۔
’میں دو دن تک تیراکی کرتا رہا، مجھے اپنے گھر والوں کا پتہ نہیں چلا۔ میں نے اپنی بیٹی کو اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا اور میں نے اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے باندھ لیا۔ آہستہ آہستہ، میں نے اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں میں مرتے دیکھا، وہ بہت پیاسا تھا، جاری رکھنا بہت مشکل تھا۔ میں ہوش کھونے لگا۔ جب میں بیدار ہوا تو مجھے اپنی بیٹی نہیں ملی۔ وہ سب جا چکے تھے۔‘
وسام کے چاروں بچے اور بیوی ڈوب گئے۔
مجھے انصاف کون دے گا؟
حمیدہ کا تعلق شام سے ہے ۔ ان کی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔
وہ اور ان کے شوہر یورپ میں بہتر زندگی چاہتے تھے اور انھوں نے کشتی پر سوار ہونے کے لیے تقریباً 10,000 ڈالر ادا کیے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ کپتان کے ساتھ، جو کہ ایک ادھیڑ عمر فلسطینی تھا، اور اس کی بیوی اور ان کے تین بچوں کے ساتھ کشتی تک پہنچنے والے آخری افراد تھے۔
’جس لمحے ہم نے کشتی کی حالت دیکھی اور کس طرح یہ لوگوں سے بھری ہوئی تھی، ہمیں احساس ہوا کہ یہ کام نہیں کرے گا۔‘
وہ یاد کرتی ہیں ’ہر ایک گھبراہٹ کا شکار تھا۔ عورتیں اور بچے رو رہے تھے اور الٹیاں کر رہے تھے۔ مرد کشتی کو توازن میں رکھنے کے لیے ایک طرف حرکت کر رہے تھے۔ لہریں بہت اونچی تھیں اور انجن کام نہیں کر رہا تھا۔ ‘
حمیدہ اور وسام دونوں نے کہا کہ کپتان نے مدد طلب کی۔ اس نے بار بار سمگلر کو فون کیا، جس نے مدد بھیجنے کا وعدہ کیا لیکن پھر فون کاٹ دیا۔ انھوں نے کوسٹ گارڈ کو فون کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
حمیدہ اور وسام نے کہا کہ سمگلروں کے نیٹ ورک میں فوج کے وہ ارکان بھی شامل تھے جنھوں نے لبنانی ساحل تک راستے کو محفوظ بنانے میں مدد کی۔
وسام نے کہا ’عبداللہ دیب بلال کے کزن ہیں جو فوج میں خدمات انجام دیتے ہے۔ وہ سب سے آگے گاڑی میں اس بندرگاہ تک آئے جہاں سے ہم روانہ ہوئے تھے۔‘
بلال دیب کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لیکن بروکر ابو فراس سمیت دیگر ممبران ابھی تک فرار ہیں۔ مقامی میڈیا نے یہ بھی بتایا کہ فوج کے کچھ ارکان مبینہ طور پر اس آپریشن میں شامل تھے۔
وسام اپنا گھر واپس لینے کے لیے ایک وکیل کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ حمیدہ کا خیال ہے کہ قانون وہ چیز واپس نہیں دلوا سکتا جو انھوں نے کھو دی ہے۔
’مجھے انصاف کون دے گا؟ وہ وہاں موجود تھے، وہ جانتے تھے کہ ہم ڈوب رہے ہیں، اور ہم نے بار بار بچاؤ کے لیے پکارا، لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ صرف اللہ ہی مجھے انصاف دے سکتا ہے۔‘
حمیدہ نے طرطوس شہر کے ایک شامی ہسپتال میں بے ہوشی کی حالت میں دن گزارے۔
وہ یاد کرتی ہیں کہ کوئی اس پر چیخ رہا تھا کہ ’تم زندہ ہو‘ اور اسے پانی سے باہر نکالا۔
انھیں کشتی کے الٹ جانا یاد ہے، جس نے پورے خاندان کو پانی میں پھینک دیا تھا۔ آخری چیز حمیدہ کو یاد ہے کہ اس کا شوہر اپنی بڑی 13 سالہ بیٹی کو لے کر گیا، اور اسے اپنے 12 سالہ بیٹے کو دے کر اسے بچانے کے لیے کہا۔ بچے، جن میں ایک 11 سالہ بیٹی اور حمیدہ کے شوہر بھی شامل تھے، زندہ نہیں رہے۔
’مجھے اپنے بیٹے کی چیخیں سنائی دیتی ہیں کہ ماں، میں مر رہا ہوں‘
’مجھے نہیں معلوم کہ میرے بچے مجھے کبھی معاف کر پائیں گے یا نہیں کہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے انھیں موت کے منہ میں دھکیل دیا۔‘