ملک دیوالیہ کیسے ہوتا ہے اور اس کے منفی اثرات کیا ہوتے ہیں؟
’آپ نے سنا ہو گا کہ ملک دیوالیہ ہو رہا ہے یا دیوالیہ ہونے جا رہا ہے، ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ جو اس وقت ہمارے ملک کے حالات ہیں ہم ایک دیوالیہ ملک کے رہنے والے ہیں۔‘
پاکستان کے دیوالیہ ہونے سے متعلق یہ جملے سوشل میڈیا یا کسی ٹاک شو میں بحث کے دوران جذ بات میں منہ سے نکلی بات نہیں بلکہ ان جملوں کو ادا کیا ہے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے۔
وزیردفاع خواجہ آصف نے پاکستان کے دیوالیہ ہونے سے متعلق اپنی تقریر میں یہ جملے ایک بار ادا کرنے پر ہی اکتفا نہیں کہا بلکہ اپنی تقریر کے دوران پاکستان کی معاشی صورت حال پر بات کرتے ہوئے انھوں نے اس کا زمہ دار ’اشرافیہ‘ کو قرار بھی دیا۔
’ملک میں حکومت کی زمین پر 1400/1500 کینال پر گولف کلب بنے ہوئے ہیں جس پر اس ملک کی اشرافیہ اپنی شامیں بسر کرتے ہیں۔ کھانا کھاتے، گپیں مارتے اور پاکستان کی سیاست پر گفتگو کرتے ہیں۔ اگر ان میں سے دو کلب ہی فروخت کر دیئے جائیں تو ملک کا چوتھائی قرضہ اتر سکتا ہے۔ لاہور کا ایک کلب 1500 کنال پر ہے۔ اس کا پانچ ہزار روپے مہینہ کرایہ ہے۔‘
پاکستان میں اس وقت مہنگائی نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے ہر نئے دن کا آغازاکثر اسی سوال سے ہوتا ہے کہ آج آٹے دال کا بھاؤ کہاں تک جا پہنچا؟
ایسے میں ملک کے وزیر دفاع کی جانب سے ملک کے دیوالیہ ہو جانے کا بیان آنے پر لوگ یہ سوال کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آخر ملک کا دیوالیہ ہونا کس کو کہتے ہیں اور اس اصطلاح کو درحقیقت کب استعمال کیا جاتا ہے۔
ہم نے کچھ ماہرین سے بات کر کے معاشی صورت حال کی اسی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے اور سب سے پہلے ان سے جانا کہ کیا واقعی ملک دیوالیہ ہو چکا ہے؟
کیا واقعی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے؟
پاکستان میں پائیدار ترقی سے متعلق کام کرنے والے ادارے ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹرعابد قیوم سلہری سے ہم نے سب سے پہلے یہ جانا کہ کسی بھی ملک کو دیوالیہ ہونے کے خطرے کا سامنا کب ہوتا ہے؟
ڈاکٹرعابد قیوم سلہری نے عام آدمی کی سمجھ کے لیے آسان الفاظ میں بتایا کہ افراد کی طرح ملک بھی اسی طرح دیوالیہ ہوتے ہیں جب وہ اپنے قرضے ادا کرنے سے قاصر ہو جائیں اور اس وقت وہ اپنے آپ کو دیوالیہ قرار دیتے ہیں۔
’دیوالیہ ہونے کی سب سے بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ جو ادائیگیاں آپ نے کرنی ہیں وہ زیادہ ہوں جبکہ آپ کی آمدنی کم ہو اور آپ کو کوئی ایسا ذریعہ نظر نہ آ رہا ہو جہاں سے آپ اپنی آمدنی وقتی یا مستقل طور پر بہتر بنا کے پہلے کے قرضوں کی ادئیگی کر پائیں۔ یہ کسی بھی فرد سے لے کر ملک کے دیوالیہ ہونے کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے۔‘
پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے وزیر دفاع کے بیان پر جب بی بی سی نے سوال کیا تو ڈاکٹرعابد قیوم سلہری نے اس کو بین الاقوامی مروجہ قوانین کی زبان میں سمجھاتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان ابھی دیوالیہ نہیں ہوا۔‘
’ڈیفالٹ ہونے کے لیے ڈی فیکٹو اور ڈی جیورو کی اصلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ ڈی فیکٹو سے معنی ہیں کہ عملاً کیا ہو رہا ہے جبکہ ڈی جیورو یعنی بین الاقوامی قوانین کے حوالے سے کیا صورت حال ہے۔‘
بین الاقوامی مروجہ طریقہ کار کے مطابق دیکھا جائے تو پاکستان نے اپنی آج تک کی تاریخ میں ڈیفالٹ نہیں کیا۔ ’پاکستان اب تک اپنے قرضوں کی ادائیگیاں بروقت کرتا ہے۔ ان کو رول آؤٹ کرنے کا مطلب کہ پچھلے قرضوں کی ادائیگیاں نئے قرضے لے کر ادا کر لینا یا شیڈول میں کوئی تبدیلی کر لینا۔ لیکن پاکستان نے ابھی تک ڈیفالٹ نہیں کیا اور ابھی بھی حکومت پر امید ہے کہ وہ اپنے قرضہ جات کی ادائیگیاں کر لیں گے تو یہ تو ہے ہماری قانونی پوزیشن جس میں بین الاقوامی قوانین کے حساب سے پاکستان ابھی تک نا دہندہ نہیں ہوا۔‘
ڈاکٹرعابد قیوم سلہری نے مزید بتایا کہ ’اب ہمارے پاس دو ہفتے درآمد (امپورٹ) کے ڈالر ہیں اور پاکستان کو چار سالوں میں ہر سال 34 ارب ڈالرز ایکسٹرنل سپورٹ کی صورت میں درکار ہوں گے تاکہ وہ اپنی آمدنی اور اخراجات کے توازن کو قائم رکھنے کے ساتھ ، درآمدات کے بل اور اپنے قرضے کی قسط کی ادائیگی کر سکے۔‘
’تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان دیوالیہ تو نہیں ہوا لیکن اس کے سر پر ایک تلوار ضرور لٹک رہی ہے کیونکہ اس وقت ہم کافی سارے ’اگر اورمگر‘ کے ساتھ اپنی ادائیگیاں کر پاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اس وقت بھی اگر آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ مزاکرات ناکام ہو جاتے ہیں یا دوست ممالک سے امداد نہیں ملتی یا ان کے قرضوں کو آگے نہیں بڑھاتے یا سٹیٹ بینک میں ڈیپازٹ نہیں رکھواتے تو پاکستان کے لیے اگلی ادائیگیاں مشکل ہوں گی اور خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے۔‘
ملک دیوالیہ کیسے ہوتا ہے؟
کسی ملک کے دیوالیے ہونے کے بارے میں ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ایک ملک جب اپنے بیرونی قرضے کی قسطیں اور اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہو تو اس ملک کو دیوالیہ قرار دیے دیا جاتا ہے۔
کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں معیشت کے پروفیسر صائم علی نے بی بی سی اردو کو اس سلسلے میں بتایا کہ تکنیکی طور پر ایک ملک اس وقت دیوالیہ قرار دیا جاتا ہے جب وہ بیرونی قرضوں کو ادا کرنے کے لیے بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو جائے۔
انھوں نے بتایا کہ اس کی ایک مثال لاطینی امریکی ملک ارجنٹائن کی ہے جو گذشتہ دس سالوں میں دو بار دیوالیہ ہو چکا ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ملک پر داخلی قرضوں کے بوجھ کو بھی دیوالیہ ہونے کی ایک وجہ قرار دیا۔
’کسی ملک کے لیے داخلی قرضے بھی ایک مسئلہ ہوتے ہیں تاہم اس کی بنیاد پر ملک کو بین الاقوامی سطح پر دیوالیہ نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ اندرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے مقامی کرنسی چھاپ کر ان کی ادائیگی تو ہو سکتی ہے لیکن بیرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے عالمی کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ اس وقت ڈالر کو عالمی کرنسی کا درجہ حاصل ہے۔‘
پاکستان انسٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر امجد راشد نے بھی بیرونی طو پر قرضوں کی قسط اور ان پر سود کی ادائیگی کی ناکامی کی صورت میں کسی ملک کے دیوالیہ قرا ر دیے جانے کی وجہ کہا ہے۔
’جب ایک ملک قرضہ حاصل کرتا ہے تو اس کی واپسی یکمشت نہیں کی جاتی ہے بلکہ قسطوں کی صورت میں کی جاتی ہے اور ہر قسط کے ساتھ سود بھی ادا کیا جاتا ہے۔ ‘
انھوں نے بتایا کہ ایک ملک اس قرضے کی واپسی کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ قرضہ اور اس پر سود کی ادائیگی ایک خاص وقت اور مدت میں کی جائے گی تاہم جب کوئی ملک اس سلسلے میں قرضے کی قسط اور اس پر سود کی ادائیگی میں ناکام ہو جائے تو یہ ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے۔
دیوالیہ ہونے کی کیا علامات ہوتی ہیں؟
ایک ملک کے دیوالیہ ہونے سے پہلے جو علامات ظاہر ہوتی ہیں ان میں سب سے بڑی علامت کسی ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اور ان کے مقابلے میں بیرونی قرضوں کی کتنی قسطیں اور ان پر سود کی کتنی ادائیگی ہونی ہے۔
ڈاکٹر امجد رشید نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’جب ملک کے جاری کھاتوں (کرنٹ اکاؤنٹ) کا خسارہ بہت زیادہ بڑھ جائے اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوں اور اس کے مقابلے میں بیرونی قرضے کی قسطیں اور ان پر سود کی ادائیگی ایک مسئلہ بن جائے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے ک طرف بڑھ رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جاری کھاتوں کا خسارہ اس لیے بڑھتا ہے کہ ملک میں درآمدات (امپورٹ) زیادہ ہوتی ہیں ا ور اس کے مقابلے میں برآمدات (ایکسپورٹ) اس رفتار سے نہیں بڑھ پاتیں کہ درآمدات پر بیرون ملک جانے والے ڈالر برآمدات کی صورت میں واپس آئیں اور اس کا دباؤ زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے کیونکہ وہاں سے درآمدات کے لیے ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ اس ادائیگی کی وجہ سے بیرونی قرضے کی قسط اور اس پر سود کی واپسی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ بیرونی قرضے کی ادائیگی بھی ڈالر میں کرنی ہوتی ہے۔‘
آئی بی اے کے صائم علی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی ملک کے دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھنے کی سب سے بڑی نشانی اس ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کی صورت حال ہوتی ہے کہ وہ کتنی تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔
’ان میں ہونے والی کمی کا اثر بیرونی ادائیگی پر پڑتا ہے کیونکہ قرضے کی واپسی ڈالر میں کرنی پڑتی ہے اور اگر ڈالر کے ذخائر کم ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کے پاس قرض ادائیگی کی سکت کم ہو رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اسی طرح اگر تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور درآمدات پر زیادہ ڈالر خرچ ہو رہے ہیں اور برآمدات کی صورت میں ڈالر کم آ رہے ہیں تو یہ بھی ملک کے ذخائر میں کمی لائیں گے۔‘
ڈاکٹر امجد راشد نے بتایا کہ ’جب کوئی ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اس کی جانب سے بین الاقوامی مارکیٹ میں قرضے لینے کے لیے جاری کیے جانے والے بانڈذ بھی زیادہ شرح سود پر لیے جاتے ہیں یعنی ملک کو ان بانڈذ میں انویسٹ کرنے والوں کو زیادہ منافع دینا پڑتا ہے اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے اس ملک کی ریٹنگ کم کر دی جاتی ہے۔‘
دیوالیہ ہونے کے منفی اثرات کیا مرتب ہوسکتے ہیں؟
کسی ملک کے دیوالیہ ہونے پر اس کے منفی اثرات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد نے کہا کہ اس سے عالمی منڈی میں ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بہت گر جاتی ہے اور عالمی اداروں اور دوسرے ممالک کی جانب سے مزید قرض کی سہولت نہیں ملتی۔
انھوں نے کہا ایک ایسا ملک جو قرضوں پر چلتا ہے اس کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضے کی سہولت بھی ضروری ہوتی ہے تاکہ اس ملک کی معیشت چل سکے۔
انھوں نے کہا کہ ’دیوالیہ ہونے کی صورت میں شدید نتیجہ یہ برآمد ہوسکتا ہے کہ ملک سے جانے والا تجارتی مال ضبط کر لیا جائے اور آپ کے ملک کے ہوائی جہاز اور بحری جہاز کسی دوسرے ملک میں قبضے میں لے لیے جائیں۔‘
ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ ’دیوالیہ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روازنہ کی بنیادوں پر بہت تیزی سے گرنا شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ وینزویلا میں ہوا کہ جب یہ ملک دیوالیہ ہوا تو اس کی کرنسی اس قدر بے وقعت ہو گئی تھی کہ یہ سڑکوں پر بکھری رہتی تھی اور لوگ اس پر چلا کرتے تھے۔‘
’ہم ووٹرز یا مافیاز کو خوش کرنے کے لیے سبسڈی دیتے ہیں‘
ڈاکٹرعابد سلہری کے مطابق ’اگر ہم 75 سال کو دیکھیں تو 1975 میں جنرل ایوب کے دورحکومت میں ہم پہلی بار آئی ایم ایف میں گئے تھے اور اب موجودہ حکومت تک پچھلے 23 پروگراموں میں ہم جا چکے ہیں اس کی وجہ ہماری آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن ہے۔‘
’ہم ٹیکسز نہیں اکھٹا کر پاتے۔ ہم اپنے ووٹرز یا مختلف مافیاز اور گروہوں کو خوش کرنے کے لیے ان کو سبسڈی یا رعایت دیتے ہیں، مہنگی بجلی پیدا کرتے ہیں، مہنگی گیس خرید کر سب کو سستی دتتے ہیں۔ انڈائریکٹ ٹیکسز سے غریب پر بوجھ بڑھا دیتے ہیں اور حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ادارے نقصان میں جاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ایک آدھ قسط وصول کرنے کے بعد کوئی بھی حکومت ان سخت اقدامات کو مسلسل لاگو نہیں کر سکتی جس کے بعد اگلا پروگرام مزید سخت ہو جاتا ہے۔
’اس وقت سمجھداری کا مظاہرہ کر کے اگر حکومت کم آمدنی والے پاکستانیوں کے لیے سوشل سیفٹی نیٹ اور ٹارگٹ سبسڈی لے کرآئیں تاہم ٹیکسز کا بوجھ اور آئی ایم ایف پروگرام کی باقی شرائط کو ایک بار لاگو کریں تاکہ پاکستان کی معیشت اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکے ورنہ یہ میوزیکل چیئر کا کھیل جاری رہے گا۔‘