مصر منشیات سمگلنگ کیس میں بحری جہاز کے پاکستانی عملے کو سزائے موت کا سامنا: ’ماں کو بتانے کے لیے ہمارے پاس صرف بہانے ہیں
کراچی کی رہائشی انعم افضل کے خاوند راحیل حنیف کو رواں برس مصر میں بحری جہاز کے ذریعے سے منشیات سمگل کرنے کے الزام میں دیگر چھ ساتھیوں سمیت سزائے موت سنائی گئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اب اور انتظار نہیں ہوتا۔ جہاز پر جانے سے پہلے راحیل کہہ کر گئے تھے کہ ایک سال میں آؤں گا تو اپنے بچے کا عقیقہ کر کے شاندار پارٹی کریں گے۔ ان کے جانے کے دو ہفتے بعد بیٹا ہوا تھا جس نے ابھی تک اپنے باپ کا چہرہ نہیں دیکھا ہے۔‘
راحیل حنیف اور ان کے چھ ساتھیوں کو مصر کے حکام نے سنہ 2017 میں گرفتار کیا تھا۔ ان میں ایک پاکستانی نژاد ایرانی اور دیگر پاکستانی شہری ہیں۔
مصر کے حکام نے دعویٰ کیا کہ ان کے جہاز سے دو ٹن ہیروئن اور 99 کلو آئس برآمد ہوئی ہے۔ حکام کے مطابق اب تک یہ مصر میں پکڑی جانے والی منشیات کی سب سے بڑی مقدار میں سے ایک ہے۔
انعم پوچھتی ہیں کہ راحیل منشیات کی سمگلنگ میں کیسے ملوث ہو سکتے ہیں؟ ’میں یہ کیسے یقین کر لوں، کیونکہ وہ پہلی مرتبہ جہاز پر گئے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے ایجنٹ کو ڈھائی لاکھ روپے ادا کیے تھے۔ ان کی تنخواہ کوئی چالیس ہزار پاکستانی روپے بنتی تھی اور ان کا کام جہاز پر صفائی ستھرائی کرنا تھا۔‘
مصر میں سزائے موت پانے والی پاکستانیوں کے کیس میں پاکستانیوں کے جس مصری وکیل کی خدمات پاکستانی سفارت خانے نے حاصل کی ہیں، اُن کی معاونت بین الاقوامی بحری قوانین کے ماہر نثار اے مجاہد ایڈووکیٹ کر رہے ہیں۔
نثار نے بتایا کہ چھ پاکستانیوں میں سے چار پہلی مرتبہ بحری جہاز پر گئے تھے۔ یہ چاروں پاکستانی بحری جہاز پر ویٹر، صفائی ستھرائی اور پینٹ کے کام سے منسلک تھے۔ یہ سب غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ایک کپتان اور ایک انجینیئر ہیں، جن میں کپتان کی عمر قریباً 70 سال ہے۔
مصر میں سزائے موت پانے والے ایک اور پاکستانی محمد عاطف کے بھائی محمد رمیز کا کہنا تھا کہ ’جب سے بھائی کو سزا سنائی گئی ہے اس وقت سے ہمارے گھر میں کوئی ڈھنگ کا کھانا نہیں بنا ہے۔ امی اور ابو صرف بھائی کو یاد کرتے ہیں۔ اب تو بھائی سے بات بھی نہیں ہوتی ہے۔‘
’آواز سننے کو ترس گئے ہیں‘
انعم افضل کہتی ہیں کہ راحیل اُن کے ماموں زاد بھی ہیں۔ ’شادی کے بعد ہی سے وہ اچھے مستقبل کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ اس وقت تو وہ بہت جذباتی ہو گئے تھے جب انھییں پتا چلا کہ میں ماں بننی والی ہوں۔ اس کے بعد وہ اچھے کام کے کی تلاش میں پھرتے تھے۔‘
انعم افضل بتاتی ہیں کہ راحیل اکثر کہتے تھے کہ ’میں اپنے ہونے والے بچے کو غربت میں نہیں پلنے دوں گا۔ بچے کی خاطر بہت کام کروں گا۔ اسی دوران ابھی ڈیلیوری میں کوئی ایک ماہ رہتا تھا تو انھیں جہاز پر ایجنٹ کے ذریعے سے نوکری مل گئی تھی۔‘
’میں نے ان سے کہا بھی کہ ڈیلیوری کے بعد چلے جائیں مگر وہ نہیں مانے، کہتے تھے کہ ایک سال بعد آؤں گا تو میرے پاس اتنے پیسے ہوں گے کہ ہم عقیقے کی اچھی سی دعوت کر سکیں۔ اب خالی جیب کے ساتھ اور کام کے بغیر رُک بھی گیا تو کیا فائدہ ہو گا؟‘
انعم افضل کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہ چلے گئے۔ ’کبھی کبھار بات ہوتی رہتی تھی۔ ان کا جہاز پر دل نہیں لگ رہا تھا۔ مگر وہ کہتے تھے کہ اپنا کام پورا کرتا ہوں تاکہ کسی کو میرے کام سے شکایت نہ ہو۔ مگر پھر ایک روز ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ رابطہ کوئی 15 دن بعد بحال ہوا تو پتا چلا کہ ان کو مصر میں منشیات سمگلنگ کے کیس میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کا وہاں پر مقدمہ تین سال تک چلتا رہا۔
جب وہ عدالت آتے تھے تو ان سے بات ہو جاتی تھی مگر جب سے سزا ہوئی ہے ان سے بات بھی نہیں ہوئی ہے۔ ’دل بہت بے چین ہے، ہر وقت بس (زور سے) دھڑک رہا ہے۔‘
انعم افضل کہتی ہیں کہ ’23 نومبر ہماری شادی کی سالگرہ کا بھی دن ہے۔ ہم لوگوں نے ایک ساتھ ایک سال بھی ساتھ پورا نہیں گزارا ہے۔ راحیل نے مجھ سے کہا تھا کہ جب وہ واپس آئیں گے تو اپنے بچے کے ساتھ مل کر کسی شاندار ریستوراں میں شادی کی سالگرہ منائیں گے۔‘
’اب ایک اور 23 نومبر ان کے بغیر گزر چکا ہے۔ راحیل شادی کی سالگرہ والے دن بہت یاد آئے تھے۔ اب تو ہمارا بیٹا بھی تین سال کا ہو چکا ہے جو بار بار اپنے ابو کا پوچھتا ہے۔‘
’امی ابو ہر وقت گم سم رہتے ہیں‘
محمد رمیز کہتے ہیں کہ محمد عاطف چھوٹی عمر ہی میں جہاز پر ویٹر بھرتی ہوئے تھے۔ ’امی اور ابو بس ہر وقت گم سم رہتے ہیں۔ ابو تو پھر بھی کچھ نہ کچھ معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں مگر امی بس ایک ہی بات کرتی ہیں کہ کیا عاطف کا فون آیا؟ وہ کب واپس آ رہا ہے؟ اُن کو بتانے کے لیے ہمارے پاس صرف بہانے ہی ہوتے ہیں۔‘
محمد رمیز کہتے ہیں کہ تقریباً تین سال سے اوپر ہو چکے ہیں کہ عاطف مصر کی جیل میں بند ہیں۔ ’باوجود کوشش اور چاہنے کے ہم لوگ مالی مسائل کے سبب سے مصر نہیں جا سکے ہیں۔ کم از کم ان سے مل تو لیتے۔ ہمارے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ ہم کوئی وکیل کر سکیں۔‘
’پاکستانی سفارت خانے نے ان کو وکیل کر کے دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے وکیل نثار اے مجاہد ہماری معاونت اور مدد کر رہے ہیں جن کی مدد سے سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی گئی ہے۔‘
اپیل میں کیا کہا گیا ہے؟
نثار اے مجاہد ایڈووکیٹ نے پاکستانیوں کے کیس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور عدالتی کارروائی میں مصری وکیل کی معاونت کرنے کے لیے مصر کا دورہ کیا ہے جہاں پر انھوں نے پاکستانی سفارت خانے کے حکام، مصری حکام، مصر میں پاکستانیوں کے وکیل اور مذکورہ پاکستانیوں سے طویل ملاقاتیں کی ہیں۔
نثار احمد مجاہد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستانیوں کے پاس اب صرف ایک اپیل کا حق بچا ہے۔ اس سے پہلے ایک ماتحت عدالت ان کو سزا سنا چکی ہے جبکہ اس سزا کی توثیق مصر کے قوانین کے مطابق مفتی اعظم بھی کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سزا کے خلاف اپیل اب مصر کی اعلیٰ ترین عدالت اپیلٹ سپریم کورٹ میں سنی جائے گئی اور اس اپیل کی سماعت میں لمبا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔
نثار احمد مجاہد کہتے ہیں کہ پاکستانیوں سے طویل ملاقاتوں میں وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کیس میں مکمل طور پر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے ہیں۔
اُن کے مطابق اُنھوں نے ’اپیل تیار کرنے میں مصر میں موجود وکیل کی معاونت کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ذیلی عدالت میں شفاف ٹرائل نہیں ملا اور مؤقف سنے بغیر فیصلہ کر دیا گیا ہے۔‘
’سزا سنانے کے لیے ثبوت نامکمل ہیں۔ ذیلی عدالت نے حکام کے بیانات کو جرح کیے بغیر ہی تسلیم کر لیا ہے۔ تحقیقاتی ادارے نے یکطرفہ طور پر فائل تیار کی اور من مانے بیانات لکھے ہیں۔ شک کا فائدہ بھی نہیں دیا گیا حالانکہ جہاں سے منشیات برآمد ہوئی وہاں پر ذیلی عملے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔‘
نثار اے مجاہد کا کہنا تھا کہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق جہاز کے جس مقام سے منشیات برآمد ہوئی ہے۔ وہاں پر جہاز کے ذیلی عملے کا تو آنا جانا ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس مقام تک اُنھیں کسی بھی صورت میں جانے کی اجازت ہی نہیں ہوتی، تو پھر کس طرح ذیلی عملہ منشیات چھپانے میں ملوث ہو سکتا ہے؟
نثار احمد مجاہد کے مطابق اسی طرح عدالت میں بتایا گیا کہ منشیات جہاز کے خفیہ خانوں میں بہت دور تک چھپائی گئی ہے۔ ’اب جہاز کو کھولنے کا کام جہاز کا کوئی بھی عملہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی یہ صلاحیت ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح بہت سی چیزوں کی تحقیقات نہیں ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر ان لوگوں کو جہاز میں بھرتی کے وقت کہا گیا تھا کہ یہ ایک آئل ٹینکر ہے مگر جب ان کو جہاز پر سوار کروایا گیا تو وہ کارگو تھا، جس پر ان لوگوں نے احتجاج کیا مگر ان سے کہا گیا کہ دوسری منزل پر ان کو آئل ٹینکر میں سوار کروا دیا جائے گا۔
نثار احمد مجاہد ایڈووکیٹ کے مطابق ان لوگوں کو ایران سے جہاز میں سوار کروایا گیا تھا۔ ایران میں ان لوگوں کو غلط مقام بتایا گیا تھا جس کے بعد ان کو ایران میں غیر ضروری طور ایک ماہ قیام کروایا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ پر ہے کہ اس جہاز کی منزل تو کبھی مصر تھی ہی نہیں۔ اب اگر مصر کے حکام نے گرفتار کر کے منشیات برآمد کی ہے تو پتا چلنا چاہیے کہ یہ کس طرح ممکن ہوا؟
’کیس میں کافی سارے خلا موجود ہیں جن کے بارے میں ابھی بھی مناسب تفتیش کرنے کی ضرورت موجود ہے۔‘