مشاہد اللہ خان وہ شخص تو داستاں تھا، داستاں بھی ایسی جس میں حیرت کا جہاں تھا
لمحے بھر کو میں نے آنکھیں موندیں اور سوچا کہ بات کہاں سے شروع کی جائے؟ وہ شخص تو ایک داستان تھا اور داستاں بھی ایسی جس میں حیرت کا ایک جہاں تھا۔
میری اُن سے ملاقات تب ہوئی جب وہ قومی سیاست میں قدم رکھ چکے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب سیاست میں داخلے کا راستہ پجیرو سے کھلتا تھا لیکن اس شخص کے پاس تو صرف ایک سادہ سی گاڑی تھی۔ مگر اُن کی تصویر بلند حوصلے، اچھے شعر کے ذوق، گونج دار قہقہوں اور برمحل جملے کے ساتھ ہی مکمل ہوتی ہے۔
مشاہد اللہ خان کی شخصیت بس، ان ہی چار چیزوں سے عبارت تھی۔
وہ ڈنکے کی چوٹ بات کرتے، اونچا قہقہہ لگاتے اور سامنے جو کوئی بھی آ جائے کبھی نہ گھبراتے۔ ان کی قہقہہ بار باغ و بہار شخصیت سے واقفیت تو برسوں پرانی تھی لیکن 13 اکتوبر 1999 کی وہ صبح کبھی نہ بھولنے والی ہے جب ایک دوست نے مجھے گھر سے لیا اور پراسرار انداز میں کہیں پہنچا دیا، جہاں مشاہد اللہ خان پہلے ہی سے میرے منتظر تھے۔
دیکھتے ہی ایک خیر مقدمی نعرہ لگایا پھر کہا:
’یہ عمل کا وقت ہے۔‘
’جی، مشاہد بھائی، یہ عمل کا وقت ہے۔‘
’تو پھر میں نے عمل کی ٹھان لی ہے۔‘
اس کے بعد انھوں نے مجھے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا تو میں چونکا اور کہا کہ سچ اچھا لیکن اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا ہے۔
یہ سنتے ہوئے ان کے چہرے پر وہ استہزائی مسکراہٹ چمکی جو بعد میں ان کی شخصیت کا خاصہ بنی۔ ایسی کیفیت میں وہ اپنے جاننے والوں کو ایک ہلکا سا ہاتھ جڑ کر بے تکلفی کے ساتھ کوئی نہ کوئی بات چپکا جایا کرتے تھے۔ اس لمحے ان کی زبان پر وہ جملہ آیا، امریکی صدر کی زبان پر جس کے آنے میں کم سے کم دو برس باقی تھے، انھوں نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا: ’تم میرے ساتھ ہو یا نہیں ہو؟‘
صورتحال گمبھیر تھی، منتخب حکومت ختم ہو چکی تھی، آئین معطل ہو چکا تھا اور وزیر اعظم کی کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہیں۔ اس قسم کے حالات میں جان بچاؤ فارمولا ہی بہترین فارمولا سمجھا جاتا ہے۔ اس روز اگر وہ بھی یہی فیصلہ کرتے تو کوئی اُن پر انگلی نہ اٹھاتا لیکن وہ تاریخ بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
انھوں نے کہا ’کہا جاتا ہے کہ اس ملک نے ہمیشہ مارشل لا کا خیر مقدم کیا لیکن میں نہیں چاہتا کہ آج کے بعد کوئی ایسا کہے۔‘
تاریخ کو بدلنے کے لیے وہ اپنی قربانی دینے کا فیصلہ بھی کر چکے تھے اور ایسی کیفیت میں تھے جہاں نیک و بد سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ وہ پریس کانفرنس سے خطاب کرنا چاہتے تھے اور اس کے بعد سڑک پر نکل کر اعلان بغاوت۔
انھوں نے کہا کہ ’میری گرفتاری اس وقت تک نہیں ہونی چاہیے جب تک میرا مشن مکمل نہ ہو جائے۔‘
یہ دو راتوں اور دو دنوں کی کہانی ہے جس میں کسی جاسوسی ناول کی سی سنسنی اور ڈرامائی کیفیت ہے۔ یہ دو راتیں اور دو دن انھوں نے مسلسل مقامات بدلتے ہوئے گزارے اور کہیں دو تین گھنٹے سے زیادہ قیام نہیں کیا۔ شہر کے چپے چپے کو چھانتی ہوئی پولیس کو جل دے کر وقت مقررہ پر پریس کلب پہنچنا کوئی کام نہیں تھا لیکن وہ پہنچے اور پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
13 اکتوبر کی دوپہر یہ پریس کانفرنس پولیس اور خفیہ اداروں کے لیے کسی تازیانے سے کم نہ تھی لیکن اس سے پہلے کہ وہ حرکت میں آ کر پریس کلب کو گھیرے میں لیتے مشاہد اللہ اپنے خفیہ ٹھکانے پر پہنچ چکے تھے۔
یہ دن اور رات بھی انھوں نے ٹھکانے بدلتے ہوئے گزاری اور اگلی دوپہر کراچی کی سیاسی تحریکوں کے تاریخی مرکز ریگل چوک پہنچ کر نعرہ بلند کیا: ’جیے نواز شریف، آمریت مردہ باد۔‘
جیسے ہی نعرہ بلند ہوا، سینکڑوں نگاہیں آواز کی طرف اٹھیں، سفید شلوار قمیص میں سڑک کے عین بیچ دونوں بازو بلند کیے نعرہ زن تھے۔ اس سے پہلے کہ چوک میں جمع مسلم لیگی ان کی طرف لپکتے، سفید کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے انھیں گھیر لیا، اس دھینگا مشتی میں ان کے کپڑے پھٹ گئے اور گورے چٹے مشاہد اللہ کا بدن جو اس روز مارپیٹ کی وجہ سے سرخ ہو چکا تھا، ان میں سے جھانکنے لگا۔
’یار، ان بدبختوں نے مارا بہت، اب بھی جثہ درد کرتا ہے۔‘
پریس کانفرنس کی طرح ان کی گرفتاری کا یہ منظر بھی دنیا کے بہت سے ٹیلی ویژن چینلوں نے براہ راست دکھایا۔ یوں ایک تاریخ بن گئی اور مشاہد اللہ خان کی یہ حسرت بھی پوری ہو گئی کہ اس ملک میں مارشل لا کو کوئی کھلے عام چیلنج نہیں کرتا۔
پاکستان مسلم لیگ اقتدار کی سیاست کی پرانی کھلاڑی ہے لیکن اس کی سیاست گلی کوچے کی نہیں ڈرائنگ روم تک محدود رہی ہے۔ یہ کریڈٹ نواز شریف کو دیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی جماعت کے مزاج کو تبدیل کر کے اسے مزاحمت کے راستے پر ڈال دیا۔
مسلم لیگ کے مزاج کی تبدیلی میں نواز شریف یقیناً بنیادی فیکٹر کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن 14 اکتوبر 1999ء کو اگر مشاہد اللہ خان ریگل چوک کو اپنے نعروں سے نہ گرماتے تو اپنی جماعت کی اس کایا کلپ کے لیے میاں صاحب کو کچھ زیادہ محنت کرنی پڑتی، مسلم لیگ کو ڈرائنگ روم سے نکال کر سڑک پر لانے کا ذکر جب بھی ہو گا، جمہوریت پرست مشاہد اللہ خان کو ہمیشہ یاد کیا کریں گے۔
مسلم لیگ کو احتجاجی سیاست کے راستے پر ڈالنے کے علاوہ ایک اور معاملے میں بھی ان کے کردار کو کبھی فراموش نہ کیا جا سکے گا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سیاست ایک مہنگی دلچسپی ہے اور اس سے صرف وہی لوگ لطف اندوز ہو سکتے ہیں جن کے خزانے ہمیشہ بھرے رہتے ہیں اور ڈھیروں لٹانے کے باوجود جن میں کوئی کمی نہیں آتی۔
لیکن اس کارنامے کے لیے بھی مشاہد اللہ کو ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد کیا جاتا رہے گا کہ انھوں نے سفید پوش اور متوسط گھرانے کا فرد ہوتے ہوئے بھی سیاست کر دکھائی اور وہ بھی صف اول کی سیاست۔ کم مالی وسائل رکھنے کے باوجود اگر کسی کو سیاست کرنی ہے تو اسے یقیناً مشاہداللہ کے مدرسے سے تربیتی لینی پڑے گی اور ہمت اور جواں مردی کا سبق وہ سبق سیکھنا پڑے گا، فی زمانہ جس کا چلن کچھ زیادہ عام نہیں رہا۔
مشاہد اللہ خان میاں نواز شریف کی نگاہ میں کیسے آئے؟ اس سوال کے جواب سے میاں صاحب کے مزاج اور مشاہد اللہ کے کردار کے نقوش اجاگر ہوتے ہیں۔ اس دوپہر ہم لاڑکانہ سے چلے اور سبی سے ہوتے ہوئے کوئٹہ کے راستے میں تھے کہ خان صاحب سے میں نے یہ سوال پوچھا۔
مشاہد اللہ نے حسب عادت قہقہہ لگایا اور کہا ’تنقید کے ذریعے۔ میں نے میاں صاحب کی سیاست کا مطالعہ کیا اور جو کچھ میری سمجھ میں آیا، بلا کم وکاست انھیں لکھ بھیجا۔ اس میں ان کے انداز سیاست پر تنقید بھی تھی اور مشورہ بھی۔‘
’یوں، میاں صاحب اور میرے درمیان اعتماد کا ایک رشتہ قائم ہوا اور اگر میں کبھی خط نہ لکھتا تو وہ پوچھا کرتے کہ کیا سب ٹھیک چل رہا ہے؟۔‘
میاں نواز شریف اور مشاہد اللہ خان کے درمیان یہ اعتماد کا رشتہ ہی تھا کہ انھوں اس رشتے کو اپنی اگلی نسل تک منتقل کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب انھوں نے اپنی بیٹی مریم نواز کو سیاست میں متحرک کرنے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے مشاہداللہ خان سے کہا کہ وہ لاہور منتقل ہو جائیں اور مریم کی اس سلسلے میں تربیت کریں، خاص طور پر انھیں تقریر کا ہنر سکھائیں۔
میاں صاحب کی خواہش کی تعمیل کرتے ہوئے وہ لاہور منتقل ہوئے اور مریم نواز کی تقریر اور انداز سیاست کا بغور جائزہ لینے کے بعد میاں صاحب کو بتایا کہ وہ اچھی مقرر ہیں اور سیاست کا گہرا شعور رکھتی ہیں، بہتر ہے کہ انھیں خود پروان چڑھنے دیا جائے، اس طرح وہ پارٹی کا بہترین اثاثہ ثابت ہوں گی۔
میاں صاحب مشاہد اللہ خان پر کتنا اعتماد کرتے تھے، اس کا اندازہ کئی واقعات سے لگایا جا سکتا ہے لیکن اس کی سب سے بڑی مثال صدارت کے منصب کے لیے ممنون حسین کا انتخاب ہے۔
مشاہد نے مجھے بتایا تھا کہ ‘وہ جمعے کا دن تھا اور اجلاس میں پارٹی کے دس بارہ بڑے شریک تھے تاکہ منصب صدارت کے لیے امیدوار کا فیصلہ کیا جاسکے۔’
سب لوگ باری باری اپنی رائے کا اظہار کر چکے تو ان کا ذہن سامنے آ گیا، یہ سب لوگ تقریباً ایک نام پر متفق ہو چکے تھے کہ جمعے کا وقت ہو گیا اور نماز کے لیے جاتے ہوئے میاں صاحب نے مشاہد اللہ سے پوچھا: ’کیہہ کریے؟’
مشاہد اللہ کہتے ہیں کہ اس موقع پر میں نے ممنون صاحب کا نام پیش کیا جسے سن کر وہ خاموش ہو گئے لیکن نماز کے بعد جب نشست دوبارہ شروع ہوئی تو انھوں یہی نام اپنی طرف سے پیش کر دیا، یوں صورت حال بدل گئی۔
میاں صاحب کے تیسرے دور حکومت میں انھیں وزارت کا قلمدان سونپا گیا، ان دنوں وہ کہا کرتے تھے کہ وزیر بننا تو منظور ہے لیکن کام میں نے کوئی نہیں کرنا لیکن جب وزارت کی ذمہ داری سنبھالی تو ان سے زیادہ سنجیدہ بھی کسی کو نہ دیکھا گیا۔
اس زمانے میں انھوں نے کئی کام کیے جن میں نمایاں ترین اسلام آباد کے نواح میں ایک نیشنل پارک کا قیام ہے جس میں اس خطے کے تمام پھول پودوں کو محفوظ کر دیا گیا اور دوسرے انھوں نے ایک سٹڈی کرائی جس سے اسلام آباد کے موسم میں فطری تبدیلیاں آ سکیں۔
انھوں نے مارگلہ کی پہاڑیوں پر شجر کاری کا منصوبہ بنایا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر ایسا ہو گیا تو مری کی طرح یہاں بھی برف باری ہوا کرے گی لیکن شاید قدرت کو ایسا منظور نہ تھا، پہلے ان کی حکومت گئی، اس کے بعد وہ خود ہی چلے گئے۔