مسلم لیگ ن کا آئندہ انتخابات میں پنجاب میں سیاسی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیسا ثابت ہو گا؟
پاکستان میں گذشتہ چند روز کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے دیے گئے بیانات نے ملک میں سیاسی گہما گہمی کا آغاز کر دیا ہے اور یوں کئی ماہ کی غیریقینی صورتحال کے بعد اب بالآخر ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔
تازہ ترین بیان میں وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ آئندہ انتخابات میں پنجاب میں کسی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کرے گی بلکہ الیکشن میں قومی و صوبائی نشستوں کے لیے ہر حلقے میں اپنے امیدوار اتارے گی۔
آئندہ انتخابات کے لیے اپنی جماعت کی انتخابی مہم کے حوالے سے جمعے کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے پنجاب میں کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ممکنہ اتحاد کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں کسی سے انتخابی اتحاد نہیں کریں گے اور عام انتخابات میں صوبے کے ہر حلقے میں شیر کا نشان موجود ہو گا۔‘
اگر ماضی کے ضمنی انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیں تو مسلم لیگ ن کو اپنے سخت سیاسی حریف پاکستان تحریک انصاف سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور حلقے کی سطح پر بھی اس کے ووٹ بینک میں گراوٹ دیکھی گئی ہے۔
ایسے میں گذشتہ ڈیڑھ برس کے دورِ حکومت کے دوران عام شہری کی زندگی کو مہنگائی اور بدترین معاشی بحران نے عام شہری کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ادھر مسلم لیگ ن کی موجودہ قیادت ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور مشکل مالی حالات سے نکالنے کا کریڈٹ لیتی ہے۔
اس کے علاوہ عوامی سطح پر پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے افراد جماعت کے خلاف سیاسی کارروائیوں کا ذمہ دار بھی مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کو سمجھتے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اور دوست ممالک سے قرضہ لینے کے اقدام نے مسلم لیگ ن کو انتخابی اعتماد فراہم کیا ہے یا پھر یہ جماعت پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ کے بعد صوبے میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا کا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے؟
’مسلم لیگ ن کا اعتماد عوام اور کارکردگی ہے‘
پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کی سینیئر رہنما عظمیٰ بخاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں انتخابات کا ماحول بن گیا ہے اور اگلے چند ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم کے آغاز کا اعلان کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کا اگلے انتخابات میں کسی سیاسی جماعت سے انتخابی اتحاد نہ کرنے کے فیصلے کی بنیاد عوام کے اعتماد اور ہماری جماعت کی کارکردگی پر ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’عوام باشعور ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ جب بھی مسلم لیگ کی حکومت آئی ہے تو اس نے ملک کو بحرانوں سے نکالنے، ترقی کی راہ پر ڈالنے اور ملک سے لوڈشیڈنگ کے اندھیرے ختم کرنے میں عملی کام کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عوام سمجھتے ہیں اگر ملک میں دہشت گردی ختم کرنا ہو، انفراسٹریکچر بنانا ہو یا مہنگائی کا خاتمہ کرنا ہو تو یہ کام صرف مسلم لیگ ن ہی کر سکتی ہے۔‘
گذشتہ ڈیڑھ برس سے ملک میں بڑھتی مہنگائی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ مہنگائی مسلم لیگ ن کی حکومت کی پیدا کردہ نہیں اور وہ اس سے اتفاق نہیں کرتیں کہ عوام یہ جانتی نہیں ہے کہ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’سب جانتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت کی ناقص پالیسیوں اور آئی ایم ایف معاہدہ توڑنے سے پیدا ہوئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کا دور نہیں تھا بلکہ یہ تحریک عدم اعتماد کے بعد بننے والی اتحادی حکومت تھی جس میں مسلم لیگ ن نے اہم کردار ادا کیا اور بہت سے مسائل اور مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ عوام یہ جانتی ہے کہ ہم نے اس اتحادی حکومت میں بھی وہ کیا ہے جو شاید کوئی اور سیاسی پارٹی نہ کر سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عوام کو اعتماد ہے کہ جب بھی مسلم لیگ ن حکومت میں آئی ہے تو ملک میں ترقی کا سفر شروع ہوا ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ عوام کے اسی اعتماد کو آپ اگلے انتخابات میں ظاہر ہوتا دیکھیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وقت کی حکومت میں اور پانچ سال کی مضبوط حکومت میں فرق ہوتا ہے۔ ہم انتخابی مہم میں عوام کے پاس یہ ہی لے کر جائیں گے کہ ہمیں اگلے پانچ سال کا مینڈیٹ ملے تاکہ ہم ان کی توقعات پر پورا اتریں۔‘
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن کا انتخابی اتحاد نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پارٹی کے اندر بھی ایک ایک حلقے کی سیٹ پر پانچ پانچ امیدوار تیار ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں تو اندر کی لڑائیاں سلجھانے میں مشکل ہو رہی ہے ایسے میں ہم کسی سے کیا اتحاد کریں گے۔‘
جہانگیر ترین کی زیر قیادت حال ہی میں بننے والی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی سے متعلق بات کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’اس جماعت کے بیشتر ارکان الیکٹیبلز ہیں، وہ چاہے جس بھی جماعت میں ہوں وہ اپنے حلقوں سے جیتتے آئے ہیں۔
’لیکن انھیں بھی کسی بڑی جماعت کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ جماعت الیکشن میں کیا کرتی ہے اور ان کے ساتھ کیا حکمت عملی طے کی جاتی ہے، یہ ابھی کہنا قبل از وقت ہے۔‘
نو مئی کے واقعات کے بعد سے پی ٹی آئی کے خلاف جاری کارروائیوں کے بعد انتخابی سیاست میں آنے والے مکنہ خلا پر بات کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا ’ہمیں کسی کی جگہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
’عمران خان کا ووٹر اسی جماعت کا رہے گا ہم صرف اپنے جگہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
’مسلم لیگ کا انتخابی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ قبل از وقت ہے‘
سینیئر صحافی و تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی نے مسلم لیگ ن کی جانب سے پنجاب میں انتخابی اتحاد کا فیصلہ نہ کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کی جانب سے کیے گئے اعلان کو میں قبل از وقت یا بے وقت سمجھتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کو یہ اعلان کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جب انتخابی عمل کا آغاز ہوتا تو یہ چیز خود بخود واضح ہو جاتی۔ اس سے انھوں نے استحکام پارٹی والوں کو بھی خبردار کر دیا اور اپنے حلیفوں کو بھی چوکنا کر دیا ہے۔
مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن کو لگتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پوری قوت سے میدان میں موجود نہیں ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ رانا ثنا اللہ نے یہ بات بھی کہی ہے کہ عمران خان کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتے ہیں تو اگر ایسا ہوا تو مسلم لیگ ن کے لیے انتخابی میدان کشادہ ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے مسلم لیگ ن نے ایسے اعلانات کرنے کو مناسب سمجھا جو یقیناً یہ قبل از وقت ہے۔‘
عمران خان کی انتخابات سے قبل گرفتاری سے کیا پی ٹی آئی کو ہمدردی کا ووٹ ملنے کا امکان ہے اور اس سے مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کو دھچکا پہنچ سکتا ہے؟
اس کے جواب میں مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ ’معاملہ اس سے آگے بڑھ چکا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے مؤثر افراد نے اپنی نئی جماعت بنا لی ہے۔ پی ٹی آئی کو اس وقت تنظیمی مشکلات درپیش ہیں اور پارٹی کو از سر نو تنظیم سازی کی ضرورت ہے ایسے میں اگر عمران خان جیل چلے جاتے ہیں تو ووٹر اور پارٹی کے درمیان رابطے کی کڑی کمزور پڑ سکتی ہے اور ایسی صورت میں مسلم لیگ ن کو فائدہ ملے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمدردی کا ووٹ ملنے کا امکان کم ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے خلاف بھی ایک بیانیہ بنایا گیا ہے جس نے عوامی رائے کو متاثر کیا ہے اور اب ہمدردی سے زیادہ ایک خوف کے احساس نے جنم لیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کے خلاف کئی ماہ سے مسلسل کارروائی ہو رہی ہے اور وہ اس وقت دباؤ میں ہے جس سے ووٹر میں خوف اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور وہ بد دل ہو کر اس عمل سے باہر ہو جاتی ہے جیسا سنہ 1997 میں پیپلز پارٹی کے ووٹر نے کیا تھا۔‘
کیا مسلم لیگ ن آئی ایم ایف معاہدے کے بعد سے بااعتماد ہوئی ہے کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کا اثر تو ہوا ہے۔
’ملک میں غیر یقینی ختم کرنے سے مسلم لیگ ن کے اعتماد میں تو اضافہ ہوا ہے اور جیسے اب عسکری و سیاسی قیادت نے زراعت کے شعبے میں کام کرنے اور گرین پاکستان کے خواب دکھائے ہیں، اس سے انھیں یقین ہے کہ وہ اپنے ووٹر کو کچھ امید دلا سکیں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پنجاب میں ایک کانٹے کا مقابلہ ہو گا اور پی ٹی آئی پر موجود دباؤ کا فائدہ مسلم لیگ ن حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سب پر واضح ہے کہ ’ملکی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف ہوا چل رہی ہے اور انتخابات کے ماحول میں جو رابطہ کاری اور میسیجنگ ہوتی ہے اس سے یقیناً عمران خان کے حریفوں خصوصاً مسلم لیگ کو فائدہ ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ہمیشہ سے حلقہ اثر رہا ہے جسے پی ٹی آئی نے کم کیا تھا لیکن اب یہ اس کو واپس لینے کی کوشش کرے گی
خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ ن کے ممکنہ انتخابی اتحاد کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہاں جے یو آئی (ف) ایک بڑی جماعت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’وہاں جے یو آئی ایف اور اس کے حریفوں کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے لہٰذا انتخابی اتحاد کی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہے لیکن وہاں کے نتائج قومی اسمبلی کی سطح پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوں گے۔‘
’مسلم لیگ ن کے لیے یہ ہی بہتر فیصلہ تھا‘
سنیئر صحافی اور اینکرپرسن عارفہ نور نے اس بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرچہ اس وقت انتخابات میں کافی وقت ہے اور ممکن ہے کہ سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آ جائے لیکن مسلم لیگ ن نے جو یہ فیصلہ کیا ہے ان کے لیے یہ ہی سب سے بہتر تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران پنجاب کا ووٹ نواز کے حامیوں اور مخالفوں میں بٹا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے خلاف ووٹ پی ٹی آئی کے پاس تھا۔ اب وہ ووٹ پی ٹی آئی کے پاس ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اگلے انتخابات میں ہو گا لیکن پنجاب میں عمران خان کے علاوہ مسلم لیگ کے خلاف کوئی ایسا سیاسی رہنما نہیں تھا اور ہے جو انھیں چیلنج دے سکے۔
عارفہ نور کا کہنا ہے کہ ’لیکن اس وقت مسلم لیگ ن کو دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک مہنگائی کی وجہ سے ان کا ووٹر پہلے ہی ان سے نالاں ہے اور الیکشن کے دن اسے ووٹ کے لیے نکالنے میں انھیں محنت کرنا پڑے گی۔
’دوسرا یہ کہ ماضی کے ضمنی انتخابات میں جب بھی مسلم لیگ ن کے کسی اور جماعت کے امیدوار کو ٹکٹ دیا تو انھیں تلخ تجربے سے گزرنا پڑا کیونکہ پارٹی کے ووٹر اور مقامی قیادت نے پارٹی کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اس وقت ان وجوہات کے باعث مسلم لیگ ن اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی اور پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لے اور بعد میں نقصان اٹھائیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر مسلم لیگ کے کریڈٹ لینے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ آئی ایم ایف معاہدے کے نتیجہ میں عوام کو کوئی بہت بڑا ریلیف ملے گا اور اس کی بڑی مثال معاہدے کے فوراً بعد بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
’اسی لیے حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں اتنی تاخیر کی۔۔۔کیونکہ کڑی شرائط مسلم لیگ ن کو سیاسی طور پر مہنگی پڑتی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں مسلم لیگ ن کی طرف آئی ایم ایف کے معاہدے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس پر قیاس آرائی کرنا مناسب نہیں ہو گا تاہم اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا پی ٹی آئی کے حوالے سے رویہ سب کے سامنے ہیں اور اس سے مسلم لیگ کو کیا پیغام دیا گیا ہے اس پر کچھ کہنا مشکل ہے۔