مریم نواز وزیر اعلیٰ، شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے امیدوار: شریف خاندان میں اقتدار کی تقسیم میں ’تبدیلی‘ کی وجوہات کیا ہیں؟
یہ لمحات شریف خاندان اور اُن کی پارٹی کی سیاست کے لیے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک طرف نواز شریف کی بجائے اُن کے بھائی شہباز شریف ملک کے دوسری بار وزیرِ اعظم بننے جا رہے ہیں تو دوسری طرف نواز شریف کی بیٹی مریم نواز پنجاب کی وزراتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے جا رہی ہیں۔
اِن تاریخی لمحات کے دو پہلو زیادہ توجہ طلب ہیں۔ اول، شریف خاندان کے اندر اقتدار کی تقسیم میں تبدیلی آ چکی ہے اور دوم نواز شریف کی پارلیمانی سیاست بظاہر اختتام پذیر ہو چکی ہے۔
نوے کی دہائی سے 2018 کے عام انتخابات تک بڑے بھائی نے وفاق اور چھوٹے نے پنجاب کے اقتدار کو اپنا مرکز بنائے رکھا۔ یوں محسوس ہوتا رہا کہ خاندان کے اندر اقتدار کا یہ فارمولا باقاعد طور پر ترتیب دیا گیا تھا۔
نواز شریف جب 2017 میں بطور وزیرِ اعظم اپنی مُدت پوری نہ کر پائے تو وزیرِ اعظم کی کرسی پر شاہد خاقان عباسی کو بٹھایا گیا۔ اگرچہ اُس وقت شہباز شریف کو یہ منصب ملنے کی بات ہوئی تھی مگر عملاً ایسا نہ ہو سکا۔
حالانکہ یہ وہ لمحہ تھا جب عام انتخابات 2018 کے انعقاد میں لگ بھگ سال بھر کا عرصہ رہ گیا تھا اور ن لیگ کو انتخابات میں سازگار ماحول کی اشد ضرورت تھی۔ یوں اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابلِ قبول سمجھے جانے والے شہبازشریف بہترین آپشن ہو سکتے تھے۔
دوسری جانب حالیہ انتخابات سے قبل نوازشریف کی لندن سے واپسی اور انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ ن کا نعرہ تھا کہ نواز شریف چوتھی بار وزیرِ اعظم بنیں گے تاہم شہباز شریف نے الیکشن سے قبل کہا تھا کہ انتخابات میں سادہ اکثریت ملی تو وزیراعظم کے امیدوار نوازشریف ہوں گے، اگر نہ ملی تو وزارت عظمیٰ کا فیصلہ مشاورت سے ہو گا۔
شریف خاندان کا پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے وزارتِ عظمیٰ تک کا سفر
نوازشریف پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہے، اُن کا سفر وزارتِ اعلیٰ سے وزارتِ عظمیٰ تک پہنچا۔ اسی طرح بعد ازاں خاندان میں یہ منصب شہباز شریف کے حصے میں آیا۔
پی ڈی ایم حکومت کے دوران جب شہباز شریف وزیر اعظم بنے تو پنجاب میں مختصر عرصہ کے لیے حمزہ شہباز وزیرِ اعلیٰ رہے۔ اب یہ منصب مریم نواز کو ملنے جا رہا ہے۔
مریم نواز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے خاندان اور ملک کی پہلی خاتون وزیرِ اعلیٰ ہوں گی۔
شریف خاندان میں خواتین کا سیاسی کردار الگ سے ایک تاریخ رکھتا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ شمیم اختر کا اگرچہ کوئی سیاسی کردار نہیں مگر خاندان کے اندر اُنھیں مرکزیت حاصل رہی۔
نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی سیاسی جدوجہد اور کردار سے شریف خاندان کے اندر مزاحمت کی سیاست کا آغاز بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
کلثوم نواز کی احتجاجی اور مزاحمتی سیاست اُس وقت شروع ہوئی جب پرویزمشرف نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔ یہ مسلم لیگ ن پر کڑا وقت تھا۔ نواز شریف جیل میں تھے۔ کلثوم نواز نے احتجاج جاری رکھا اور پارٹی کو متحد رکھنے کی کاوش بھی کی تاہم ستمبر 2017 میں لاہور کے حلقہ این اے 120 سے ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے والی کلثوم نواز کبھی کسی عہدے پر براجمان نہیں رہیں۔
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ ’کلثوم نواز کی کامیابی یہ تھی کہ وہ اپنے شوہر کو جیل سے نکال کر سعودی عرب لے گئی تھیں۔‘
والد اور والدہ کی انتخابی مہم چلانے والی مریم کا وزارت اعلیٰ تک کا سفر
مریم نواز کا سیاسی سفر 2013 کے عام انتخابات سے قبل ہی شروع ہو گیا تھا۔ 2013 میں نواز شریف نے لاہور کے حلقہ این اے 120 سے الیکشن لڑا مگر اُن کی انتخابی مہم مریم نوازنے چلائی۔
اُس وقت نواز شریف ملکی سطح پر انتخابی مہم کی سرپرستی کر رہے تھے اور لاہور کے حلقہ سے نواز شریف کے مدِمقابل دو خواتین اُمیدواربھی تھیں۔
اس سے قبل مریم نواز مختلف قسم کی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ رہتی تھیں۔ مریم نوازنے 2017 میں اسی حلقہ سے دوسری مرتبہ اپنی والدہ کلثوم نواز کی کامیاب انتخابی مہم چلائی۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد یہ سیٹ خالی ہوئی تھی۔کلثوم نواز علیل تھیں اور مریم نے تمام سیاسی سرگرمیوں کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔
2013 کے الیکشن کے بعد مریم نواز کا پارٹی کے اندر سیاسی کردار زیادہ نمایاں ہوتا چلا گیا۔ اس کردار کو نیا موڑ اُس وقت ملا جب نواز شریف تیسری بار بطور وزیرِ اعظم اپنی مُدت پوری نہ کر سکے اور نااہل قرار پائے۔
نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور کے لیے جی ٹی روڈ کا سفر کیا ،اس سفر کے دوران مریم نواز اپنے والد کے ساتھ رہیں۔ یہاں سےمریم نواز کا اپنے والد کا سیاسی مقدمہ لڑنے کا باضابطہ آغاز ہوتا ہے۔ سنہ 2018 کے الیکشن میں یہ اپنے والد کے ساتھ پابندِ سلاسل تھی۔
عمران خان کی حکومت کے دوران جب نواز شریف علاج کے لیے لندن چلے گئے تو مریم نواز نے اُن کی عدم موجودگی میں پارٹی کی سیاست کو زندہ رکھا۔ اُس دوران ہونے والے پنجاب میں بعض ضمنی اور کشمیر و گلگت بلتستان کے انتخابات میں مریم نے انتخابی مہم کی باگ ڈور سنبھالی۔
اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے حوالے سے مریم کا لہجہ بلند آہنگ کا حامل رہا تو پیپلز پارٹی کے ساتھ یہ لہجہ مفاہمتی اور سیاسی تعاون کا رہا۔
مریم نواز نے 27 دسمبر 2020 میں بے نظیر بھٹو کی برسی پر منعقد ہونے والے تعزیتی جلسے میں شرکت کی اور خطاب بھی کیا۔ مریم نواز نے بلاول بھٹو کے ساتھ بھٹو خاندان کے مزارات پر حاضری بھی دی۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا اور دو بڑی سیاسی جماعتوں کی نئی قیادت ایک دوسرے کے قریب آرہی تھی۔
پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مریم نواز کا جارحانہ انداز توجہ کا مرکز بنا رہا۔ نوازشریف نے جب گوجرانوالہ جلسہ میں ویڈیو خطاب کے ذریعے اُس وقت کے فوجی افسران پر تنقید کی تو اُس کو مریم نواز نے مزید بڑھاوا دیا اور اپنے والد کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ انداز کو پارٹی کا بیانیہ بنانے کی کوشش بھی کی۔
تاہم بعض مرتبہ مریم نواز ایک خاص مُدت کے لیے خاموشی کی چادر اُوڑھ لیتی تھیں۔ تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ وہ وقت ہوتا جب شہباز شریف مفاہمتی طرز کی سیاست میں متحرک ہوتے۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جولائی 2022 میں پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں میں ضمنی الیکشن میں مریم نواز ہی کے سیاسی کردار پر سب کی نظریں تھیں۔ مریم نواز نے اپنے تئیں بہترین طریقے سے مہم چلائی اور پارٹی کا منشور ووٹرز تک پہنچایا۔
پانامہ سیکنڈل کی بدولت احتساب عدالتوں کے چکر ہوں یا قیدو بند کی صعوبتیں، نوازشریف کی بیماری ہو یا کلثوم نواز کی علالت کے بعد وفات، پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک ہو یا پھر لانگ مارچ اور جلسے جلوس، مریم نواز شریف نے ہر مرحلے اور موقع پر خود کو تسلیم کروایا۔
مشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد کلثوم نواز کے سیاسی کردار نے نوازشریف کو پاکستان سے سعودی عرب پہنچایا اور اسی طرح حالیہ عرصہ میں مریم نواز کے سیاسی کردار نے نوازشریف کی عدم موجودگی میں پارٹی کو سنبھالا اور اُن کی واپسی کے لیے راستہ بھی ہموار کیا۔
شریف خاندان میں اقتدار کی تقسیم اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے زیادہ موزوں کون؟
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ نواز شریف لندن سے واپس چوتھی بار وزیرِ اعظم بننے کے لیے ہی آئے تاہم جب نواز شریف کی واپسی کی باتیں ہو رہی تھیں تو بعض حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیرِ اعظم نہیں بنایا جائے گا اور وزارتِ عظمیٰ کے بہترین اُمیدوار شہبازشریف ہی ہوں گے مگر نوازشریف کی موجودگی میں ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا۔
پارٹی اور خاندان کے اندر تقسیم بھی نہیں تھی کہ جس کی بنیاد پر تصورکر لیا جاتا کہ نوازشریف کی بجائے شہباز شریف ہی وزیرِ اعظم بنیں گے۔ البتہ اس تاثر سے منہ موڑنا مشکل ہو جاتا جب یہ کہا جاتا کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف نہیں بلکہ شہباز شریف کے ساتھ اقتدار میں سہولت محسوس کرتی ہے۔ لہٰذا جب اسٹیبلشمنٹ کی پسند اور ناپسند کا معاملہ آتا تو شہباز شریف ہی وزارتِ عظمیٰ کے موزوں اُمیدوار نظر آتے۔
لیکن یہ ایک انوکھا واقعہ ضرور ہے کہ نواز شریف کی فیملی جو وفاق کی اور شہباز شریف کی فیملی صوبائی سیاست کرتی چلی آئی اب تبدیلی اختیار کر چکی ہے۔
تو کیا یہ تبدیلی اتفاقی ہے یا کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ؟
ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں شریف خاندان میں اقتدار کی تقسیم یا پھر تبدیلی کا کوئی فارمولا اور پلان نہیں تھا۔ کون کہاں حکومت کرے گا، یہ سب فیصلے اُن کے اپنے ہیں۔ نواز شریف کی واپسی اور پھر واپسی سے ووٹرز کو انگیج کرنے کا پارٹی کا مشترکہ مقصد تھا اور پنجاب میں کھوئے مقام کو حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری بھی تھا۔‘
تاہم ڈاکٹر سید جعفر احمد اس تبدیلی کی ایک وجہ میاں نواز شریف کی بیماری اور شہباز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے قربت کو بھی قراردیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’نواز شریف کی صحت کا مسئلہ بھی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران بھی وہ کوئی زیادہ متحرک دکھائی نہیں دیے بلکہ اپنی بیٹی کو ووٹرز سے مخاطب ہونے کا زیادہ موقع دیتے رہے۔‘
’اگر پچھلے ایک ڈیڑھ سال کو دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے نواز شریف سے زیادہ شہباز شریف بہتر ثابت ہوئے ہیں۔ ماضی میں بھی شہباز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کو اچھا مینجر چاہیے اور شہباز شریف نے یہ ثابت بھی کیا۔ شہبازشریف کے ایک پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کئی جماعتوں کو باہم متحد رکھا، اس طرح یہ اسٹیبلشمنٹ کی چوائس بن گئے۔‘
مریم نواز کے لیے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کتنا بڑا چیلنج
حالیہ الیکشن نے واضح کیا کہ پنجاب کی سیاست بدل چکی ہے۔ یہ اب پرانے طرز کی حامل نہیں رہی اور ووٹر کسی لگے بندھے اصول کا تابع نہیں رہا۔ ایک نئی نسل پروان چڑھ چکی ہے جو پرانے سیاست دانوں کو مزید مواقع دینے کے حق میں دکھائی نہیں دیتی۔
اس صورتحال میں مسلم لیگ ن کے لیے پنجاب کی سیاست ایک چیلنج کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس الیکشن میں ن لیگ کو پنجاب کی سطح پر کئی محاذوں کا سامنا بھی رہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پنجاب کی سیاست میں مریم نواز نئی ہرگز نہیں ہیں۔ مریم نواز کے علاوہ حمزہ شہباز بھی پنجاب میں ایک چوائس تھے لیکن ڈاکٹر سید جعفر احمد مریم نواز کا وزیرِ اعلیٰ بننا شریف خاندان اور پارٹی کے لیے بہترین موقع قراردیتے ہیں۔
اُن کے مطابق ’پنجاب میں حمزہ شہباز سے بدرجہ بہتر چوائس مریم نواز ہیں۔ سیاست، شخصیت کا منظر نامہ بھی ہوتی ہے۔ مریم نواز کا پنجاب کی سطح پر آنا خود ن لیگ کی سیاست کے لیے اچھا ہو گا۔ مریم کے لیے پنجاب ایک کھلا میدان ہے، کرپشن کے تاثر سے خود کو بچانا ہو گا، بہتر گورننس اختیار کرنا ہو گی اور نوجوان نسل میں خود کو زیادہ متحرک کرنا ہوگا۔ یہ مریم کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنا اور پارٹی کا امیج سنوار سکتی ہیں۔‘
مریم کے حوالے سے ایک تنقید بعض حلقوں سے یہ بھی کی جا رہی ہے کہ شریف خاندان پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سمیت اہم عہدوں پر خاندان سے باہر ہی نہیں نکل پا رہا، اس بارے میں ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ ’سیاسی جماعتوں کو خاندان زندہ رکھتے ہیں۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد کئی شخصیات کو پارٹی کی باگ ڈور دینے کا سوچا گیا مگر آخر کار بیگم نصرت بھٹو نے ہی پارٹی چلائی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کی سیاست تو خاندانوں کے گرد ہی گھومتی چلی آرہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا خاندان ہو یا ملتان میں شاہ محمود قریشی کا۔۔۔ مزید براں ہر حلقے میں چلے جائیں، خاندانی سیاست نظر آئے گی۔ شریف خاندان میں کلثوم نواز کی جدوجہد ہو یا مریم نواز کا حالیہ عرصے میں کردار، خاندان ہی پارٹی کو منظم کرنے کا وسیلہ رہا ہے۔‘
لیکن اس سارے منظر نامے میں نواز شریف کا کردار کیا ہو گا؟ اس ضمن میں ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ ’ایک تو ان کے صحت کے مسائل ہیں۔ دوسرا یہ کہ آفس میں بیٹھ کر سیاست الگ ہوتی ہے اور آفس سے باہر بیٹھ کر الگ ہوتی ہے۔ آفس سے باہر بیٹھ کر بہتر سیاست کی جاسکتی ہے۔‘