محمد حنیف کا کالم ملک ریاض پر فوجی عدالت میں مقدمہ چل سکتا ہے؟
آپ بھی کہیں گے وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ میں کہاں سے لے کر آ گیا۔ لیکن ہمیں چونکہ فسانے کے مرکزی کردار کا نام نہیں بتایا جا رہا، نہ ان پر لگے الزامات پر بات ہو سکتی ہے اس لیے بصد احترام بتاتا چلوں کہ ملک ریاض نے پاکستان نیوی سے اس کا نام چرایا ہے۔
پاکستان نیوی چونکہ ہماری سمندری سرحدوں کی محافظ ہے اور مارشل لا لگانے یا اٹھانے سے پہلے یا کسی سیاستدان کو جیل میں ڈالنے سے پہلے یا جلا وطنی پر بھیجتے ہوئے ان سے مشورہ نہیں کیا جاتا۔
نیوی کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو کھاتے پیتے لوگ اپنے غریب رشتے داروں سے کرتے ہیں۔
نیوی نے کوئی 20 سال سے ملک ریاض پر مقدمہ کر رکھا ہے کہ یہ شخص ہمارا برانڈ نیم یعنی کہ بحریہ چرا کر بھاگ گیا ہے۔ سنہ 2015 اور سنہ 2018 میں پاکستان نیوی کے حق میں عدالتی فیصلے بھی آ چکے ہیں لیکن غالباً اپیلیں چل رہی ہوں گی۔ ویسے بھی ایسے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی کسے جرات ہے۔ جب ملک ریاض اخبار میں ضرورت ہے کا اشتہار دیتے ہیں تو ان کو ضرورت ہوتی ہے تازہ ریٹائر ہوئے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی اور جنرلوں کی۔
ایک دفعہ وہ سپریم کورٹ پیش ہوئے تو ان کے ساتھ اتنے تازہ تازہ ریٹائر ہوئے سینیئر جنرل تھے کہ لگتا تھا ملک ریاض نے کور کمانڈروں کا اپنا ہی اجلاس بلا لیا ہے۔ ملک ریاض نے البتہ یہ اشتہار نہیں دیا کہ انھیں صحافیوں کی ضرورت ہے، کیونکہ صحافت ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ گھر سے یاد آیا کہ ان کے ہاں گھریلو جھگڑے میں خاتون چیخ کر کہتی ہے بلاؤ فلاں والے آئی ایس آئی والے کرنل کو۔
اسی لیے القادر ٹرسٹ کی خبریں ہر طرف چل رہی تھیں لیکن ہمارے وزیر داخلہ سے لے کر ہمارے چیتے اینکروں تک ملک ریاض کا نام آتے ہی بیپ بیپ بول جاتی تھی۔ اب تو دیہاتی عورتیں بھی اپنے خاوند کو منے کا ابا نہیں کہتی لیکن ہم ملک ریاض کو صرف اور صرف پراپرٹی ٹائیکون کہنے پر مصر ہیں کیونکہ نیوز روم والوں کی تنخواہیں ان کے اشتہاروں سے آتی ہیں۔
خان اور اس کے مخالف سب کبھی نہ کبھی اس کے جہاز میں ’جھوٹے‘ لے چکے ہیں اور ریٹائرڈ ججوں اور جرنیلوں کو بھی ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ مصروفیت چاہیے ہوتی ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ملک ریاض پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلے۔ اللہ کرے کہ فوجیوں پر بھی فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہ چلے اور اگر چلانا ہی پڑے تو ان کو بھی اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا حق ہونا چاہیے لیکن جس طرح موجودہ حکومت کے حامی اور خان کے مخالف یک زبان ہو کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ریڈلائن کراس ہوئی ہے، فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے ہیں تو فوج ہی آ کر انصاف کرے۔ یہ مطالبہ کرنے والے خود کسی نہ کسی فوجی کا انصاف بھگت چکے ہیں۔ باقی بھگتیں گے لیکن فوجی تنصیبات کی حدیں اتنی نہ بڑھائیں کہ پورا ملک ہی ایک فوجی تنصیب بن جائے۔
توڑ پھوڑ، لوٹ مار، آتشزدگی کے لیے قانون موجود ہیں ان کو کیوں کر پڑھیں۔ کسی جنرل کے گھر کے ڈرائنگ روم کے صوفے کیا دفاعی تنصیبات ہیں۔ کیا فریج سے قورمہ نکال کر کھانا دہشتگردی ہے۔ ایک بچے نے جلتے گھر سے مور اٹھایا ہے، ہمارے جوہری اثاثوں کے راز تو نہیں چرائے۔ (اگر کورکمانڈر صاحب پر فوج کو اپنی عدالت میں مقدمہ چلائے تو یہ بھی پوچھے کہ پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنے پالتو مور کو بلوائیوں کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑا)۔
غمگین سروں والا میوزک بجا کر ہمیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ہمارے شہیدوں کی بے ادبی کی گئی ہے۔ میں نے فوجی قانون کی کتاب نہیں پڑھی لیکن دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ عین جنگ کے دوران اپنے سپاہیوں اور افسروں کو تنہا چھوڑ دینا، ان شہیدوں کی لاشیں لینے سے انکار کرنا ، کہنا کہ یہ ہمارے جوان تھے ہی نہیں۔ اس پر یقیناً فوجی عدالت والا مقدمہ بنتا ہے لیکن مشرف نے کارگل میں یہ سب کیا۔ ان پر کون سی فوجی عدالت میں مقدمہ چلا۔
جس ملک میں کچھ لوگ اتنے طاقتور ہوں کہ کوئی عدالت نہ انھیں بلا سکے اور اگر بلا کے سزا سنا بھی دے تو عمل نہ کرا سکے، وہاں پر ہم چند نوجوانوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں سنا کر اپنا مستقبل روشن کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
یہ وہی سوچ ہے جو پاکستان کے ہر مسئلے کا حل یہ پیش کرتی ہے کہ ہر چوک کو پھانسی گھر بنا دو۔ اب وقت ہوا ہی چاہتا ہے کہ ملک ریاض بھی کہہ دے کہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف بات کرنے والے کو بھی ہماری دفاعی تنصیبات پر حملہ سمجھا جائے گا۔ کیونکہ نام تو بحریہ ہے۔
بحریہ نام پر بھی چوری کا الزام اور جس زمین پر کراچی میں بن رہا ہے وہاں بھی چوری کا الزام۔