محمد بن سلمان اور نریندر مودی کی بڑھتی ہوئی قربت سعودی عرب انڈیا کو قابل اعتماد دوست کے طور پر دیکھتا ہے
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر جو بائیڈن نے جب انڈیا میں منعقد ہونے والے جی 20 اجلاس کے سٹیج پر ایک دوسرے سے مصافحہ کیا تو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ان کا ہاتھ تھام لیا۔
تینوں رہنماؤں کی ایک ساتھ یہ تصویر سفارت کاری کے دنیا میں موضوع بحث بن چکی ہے اور اس کے کئی معنی نکالے جا رہے ہیں۔
درحقیقت انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی قربت کئی عالمی فورمز پر نظر آئی ہے۔
دارالحکومت دلی میں منعقدہ G20 سربراہی اجلاس ختم ہو چکا ہے اور کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام رہنما اپنے اپنے ملک واپس جا چکے ہیں لیکن سعودی ولی عہد ابھی بھی دلی میں موجود ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی ولی عہد انڈیا کے سرکاری دورے پر ہیں اور وہ پیر کو وزیر اعظم نریدنر مودی کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ نریندر مودی نے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ہی خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے پر خصوصی توجہ دی اور سعودی عرب کا کردار سب سے اہم رہا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے سال 2016 اور 2019 میں دو بار سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس دوران انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان کئی اہم معاملات پر اتفاق ہوا اور کئی معاہدے کیے گئے۔
سعودی عرب مشرق وسطیٰ کی ایک بڑی طاقت ہے جس کا خاص طور پر اسلامی ممالک پر گہرا اثرورسوخ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نریندر مودی نے سعودی عرب کے ساتھ قربت بڑھا کر پاکستان کو بھی سائیڈ لائن کرنے کی کافی حد تک کوشش کی۔
2019 میں انڈیا کا دورہ کرنے کے بعد محمد بن سلمان کا انڈیا کا یہ دوسرا دورہ ہے جسے ماہرین کافی اہم قرار دے رہے ہیں۔
انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تجارت
انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان سالانہ تجارت پانچ ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ انڈیا نے سال 2022-23 میں تقریباً ایک ارب ڈالر کی برآمدات کیں اور سعودی عرب سے تقریباً چار ہزار ڈالر کی درآمد کی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں یہ تجارت دوگنی ہو گئی ہے۔
سعودی عرب میں 700 سے زیادہ انڈین کمپنیاں کام کر رہی ہیں جنھوں نے تقریباً 200 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ان میں ایل این ٹی، ٹاٹا، وپرو، ٹی سی ایس، شاپورجی جیسی بڑی کمپنیاں شامل ہیں۔
انڈیا میں سعودی سرمایہ کاری کی بات کریں تو مارچ 2021 تک یہ 300 کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ تھی۔ اس میں سعودی آرامکو، سبک، ای ہالیڈے جیسی بڑی کمپنیاں شامل ہیں۔
یہی نہیں، سعودی عرب نے انڈین سٹارٹ اپس جیسے فرسٹ کری، گروفرس، اولا، اویو، پے ٹی ایم میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔
انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر فضل الرحمن صدیقی کہتے ہیں کہ ’ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ملک کو سماجی، ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی طور پر متنوع بنا رہے ہیں۔ تیل کی معیشت کے علاوہ وہ مینوفیکچرنگ، سیاحت اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ایسے میں انڈیا ان کے سامنے ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے اور اسی لیے ان کے لیے انڈیا اہمیت رکھتا ہے۔‘
وزیر اعظم نریندر مودی سال 2030 تک انڈیا کی معیشت کو پانچ ٹریلین ڈالر تک لے جانے کی بات کر رہے ہیں۔
ایسے میں دنیا بھی انڈیا کو ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ امیج انڈیا انسٹی ٹیوٹ کے صدر روبندرا سچدیو کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب کے پاس بہت پیسہ ہے، جس سے وہ سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انڈیا اس کے لیے بہترین جگہوں میں سے ایک ہے، جہاں سے وہ مستقبل میں اچھا منافع حاصل کر سکتا ہے۔‘
سچدیو کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب نیوم پروجیکٹ بنا رہا ہے، جس کا بجٹ 500 بلین ڈالر (تقریباً 37 لاکھ کروڑ روپے) ہے۔ اس کے لیے وہ انڈیا سے ٹیلنٹ اور سرمایہ کاری کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انڈیا کی مدد سے وہاں ہائیڈروجن پلانٹ پر کام بھی شروع ہو گیا ہے۔‘
اس منصوبے کے تحت سعودی عرب میں مستقبل میں ایکو سٹی قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس شہر میں ہر چیز ماحول دوست ہوگی۔ یہ خام تیل سے پاک سعودی عرب کے ’وژن 2030‘ کا حصہ ہے۔
اس ایکو سٹی کو تیار کرنے والے ڈویلپرز کے مطابق یہ شہر 26,500 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہو گا اور یہاں سعودی عرب کا عدالتی نظام یہاں کام نہیں کرے گا، بلکہ اس منصوبے کے سرمایہ کار خود اس کے لیے ایک خود مختار قانونی نظام بنائیں گے۔
انڈیا پر بھروسہ
سعودی عرب کئی دہائیوں تک امریکہ کے قریب رہا لیکن گزشتہ چند برسوں میں اس نے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کی ہیں۔
پروفیسر فضل الرحمٰن صدیقی کہتے ہیں کہ ’ایک نئی قسم کا کثیر الجہتی عالمی نظام ابھر رہا ہے، جس میں سعودی عرب اپنی جگہ بنا رہا ہے اور وہ امریکہ سے ہٹ کر چین، روس، انڈیا کے علاوہ ایس سی او، برکس جیسی تنظیموں میں اثرورسوخ بنانے کی کوشش میں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب نہیں چاہتا کہ دنیا اسے صرف تیل بیچنے یا مکہ اور مدینہ کی وجہ سے جانے۔ وہ عالمی برادری کا حصہ بننا چاہتا ہے۔‘
رابندر سچدیو کا کہنا ہے کہ ’ایسی صورتحال میں سعودی عرب انڈیا کو ایک قابل اعتماد دوست کے طور پر دیکھتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک نیا ورلڈ میٹرکس بن رہا ہے۔ سعودی عرب اپنے لیے مختلف شراکت داروں کی تلاش میں ہے۔ پہلے وہ صرف امریکہ کے ساتھ ہوتا تھا لیکن محمد بن سلمان کے آنے کے بعد حالات بدل رہے ہیں۔‘
سچدیو کہتے ہیں کہ ’اس کے نتیجے میں، مہاراشٹرا میں 4400 کروڑ امریکی ڈالر کے ’ویسٹ کوسٹ ریفائنری اینڈ پیٹرو کیمیکل پروجیکٹ‘ کے قیام کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جس میں سعودی عرب کی آرامکو، ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی اور انڈین آئل کارپوریشن شامل ہیں۔‘
ایک نیا تجارتی راستہ
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے ہفتہ، 9 ستمبر کو دلی میں ’انڈیا-مڈل ایسٹ-یورپ اکنامک کوریڈور‘ کے منصوبے کا اعلان کیا جس میں امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا بھی اہم کردار ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ محمد بن سلمان اور نریندر مودی کی ملاقات میں بھی یہ پراجیکٹ زیر بحث ہو گا۔
اس منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ میں واقع ممالک کو ریل نیٹ ورک کے ذریعے جوڑا جائے گا، اور بعد میں مشرق وسطی انڈیا کے ساتھ بحری راستوں کے ذریعے جڑے گا۔
اس وقت انڈیا یا اس کے آس پاس کے ممالک سے آنے والا سامان نہر سویز کے ذریعے بحری جہازوں کے ذریعے بحیرہ روم تک پہنچتا ہے جس کے بعد وہ یورپی ممالک میں داخل ہوتا ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور لاطینی امریکی ممالک کو سامان پہنچانے کے لیے جہازوں کو بحیرہ روم کے راستے بحر اوقیانوس میں داخل ہونا پڑتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد سامان دبئی سے اسرائیل کی حیفہ بندرگاہ تک ٹرین کے ذریعے جا سکے گا اور اس کے بعد آسانی سے یورپ میں داخل ہو سکے گا۔
پروفیسر فضل الرحمن صدیقی کہتے ہیں کہ ’اس پراجیکٹ پر کافی عرصے سے کام جاری ہے۔ اس کے ذریعے انڈیا چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ (بی آر آئی) کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔‘
چین تاریخی دور ک ی شاہراہ ریشم کے خطوط پر بی آر آئی منصوبے کی تعمیر کر رہا ہے جس کے ذریعے چین خود کو یورپ اور دیگر ممالک سے جوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
2013 میں چینی صدر شی جن پنگ نے اس تاریخی تجارتی راہداری کا آغاز کیا تھا اور ایک دہائی کے اندر یہ منصوبہ افریقہ سے لاطینی امریکہ تک پھیل چکا ہے۔ اس کے تحت چین پوری دنیا میں بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔
رابندر سچدیو کا کہنا ہے کہ ’انڈیا-مڈل ایسٹ-یورپ اکنامک کوریڈور‘ کی مدد سے انڈیا ’گلوبل ساؤتھ‘ کا لیڈر بن سکتا ہے اور چین کو چیلنج کر سکتا ہے۔
سعودی عرب کے انڈیا کے ساتھ تعلقات
انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان صدیوں سے معاشی، سماجی اور اقتصادی تعلقات رہے ہیں۔ 1947 میں سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے دونوں ممالک کے رہنما ایک دوسرے کے دورے کرتے رہے ہیں۔
پہلی بار 1955 میں سعودی عرب کے شاہ سعود بن عبدالعزیز 17 روزہ دورے پر انڈیا آئے تھے اور اس کے ایک سال بعد اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔
اس کے بعد وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بھی 1982 میں سعودی عرب کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کام کیا۔
2006 میں شاہ عبداللہ کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم لمحہ تھا جس کے بعد دلی اعلامیہ پر دستخط ہوئے اور تعلقات کو نئی رفتار ملی۔
سال 2010 میں، وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سعودی عرب کا دورہ کیا ، جس کے بعد ریاض اعلامیہ پر دستخط کیے گئے، جس نے سٹریٹجک شراکت داری کو بڑھانے کے لیے کام کیا۔
2014 میں اس وقت کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے انڈیا کا دورہ کیا۔ اگر ہم وزیر اعظم نریندر مودی کی بات کریں تو انھوں نے سال 2016 میں ریاض کا دورہ کیا تھا اور خاص بات یہ ہے کہ اس دورے کے دوران انھیں شاہ سلمان نے ملک کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے نوازا تھا۔
اس کے بعد جب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سال 2019 میں انڈیا کا دورہ کیا تو انھوں نے ملک میں 10 ہزار کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔
اس عرصے کے دوران انڈیا کے حج کوٹہ میں بھی اضافہ کیا گیا تھا جس کے بعد اب تقریباً دو لاکھ انڈین شہری سالانہ حج کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
قائدین کے دوروں کے علاوہ، تقریباً 24 ملین انڈین سعودی عرب میں رہتے ہیں، جو وہاں کی سب سے بڑی تارکین وطن کمیونٹی ہے اور دونوں ممالک کو جوڑے رکھنے میں اہم رول ادا کر رہی ہے۔