مجھے گھٹن محسوس ہو رہی تھی استاد کی خودکشی اور والدین کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا معاملہ
5 جون کو لی من سو (فرضی نام) نے اپنی ڈائری میں اس خوف اور دباؤ کو بیان کیا جو اس وقت ان کے دل و دماغ پر حاوی ہوا جب وہ کلاس روم میں بچوں کو پڑھانے کے لیے داخل ہوئیں۔
انھوں نے ڈائری میں لکھا کہ ’مجھے بہت گھٹن محسوس ہو رہی تھی، مجھے لگ رہا تھا کہ میں کہیں گر جاؤں گی۔ حتیٰ کہ میں یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ میں کہاں ہوں۔‘
3 جولائی کو پرائمری سکول کی اُستاد نے لکھا کہ وہ اپنے کام سے اُکتا چُکی ہیں اور اب اس چکر سے نکلنا چاہتی ہیں۔
دو ہفتے بعد، 23 سالہ لی من سو کو ان کے ساتھیوں نے اپنے کلاس روم کے سٹور میں موجود ایک الماری میں مردہ پایا۔ وہ اپنی جان لے چکی تھیں۔
من سو کی کزن، پارک ڈو یونگ، اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کے ساتھ ان کے فلیٹ میں بکھری اشیا کو سمیٹنے کی کوشش میں تھے، یہ کمرہ اب خالی ہے، مگر ہاں وہاں اب بس مو سو کی ایک گولڈ فش موجود ہے۔ ان کا بستر بکھرا ہوا تھا، اور اس کے ساتھ ہی ان کے پہلی جماعت کے طالب علموں کی ہاتھ سے بنی تصاویر اور ڈرائنگ کا وہ ڈھیر تھا جس میں اُن بچوں نے من سو کو کہنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اُن سے کتنا پیار کرتے ہیں۔
ساتھ ہی ایک جانب لائبریری سے حاصل کردہ متعدد ایسی کتابیں تھیں کہ جن سے جاننے کی کوشش کی جاتی رہی کہ ذہنی تناؤ یا ڈپریشن سے کیسے بچا یا نکلا جا سکتا ہے۔
پارک کا کہنا ہے کہ ’ان کی کزن کو پڑھاتے ہوئے ابھی ایک سال مکمل نہیں ہوا تھا، انھوں نے اس پیشے کو اس وجہ سے اپنایا کیونکہ اُن کی والدہ بھی اُستاد تھیں اور دوسرا یہ کہ اُن کا بھی یہی خواب تھا۔ وہ بچوں کو پسند کرتی تھی۔‘
چنانچہ ان کی کزن کی موت کے بعد کے دنوں میں، جہاں پولیس نے اس معاملے کو فوری طور پر بریک اپ قرار دے کر بند کر دیا وہیں ان کے کزن پارک نے ایک جاسوس کا روپ دھار لیا اور من سو کی ڈائری کے سینکڑوں صفحات کو کھنگالنا شروع کیا، بہت سے تحریریں پڑھیں حتیٰ کہ بہت سے ٹیکسٹ میسجز کا بھی پتہ لگایا۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ من سو کی خودکشی سے قبل کئی مہینوں تک انھیں اپنے والدین کی جانب سے متعدد شکایات کا سامنا رہا۔ اسی سب کے دوران ایک دن وہ سکول میں بھی اپنے والدین کے ساتھ کسی معاملے پر بحث اور میسجز پر مصروف تھیں کہ کلاس میں ایک بچے نے اُستاد کی توجہ نا ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دوسرے بچے کو سر پر پنسل سے گہری ضرب لگا دی۔
من سو کی خودکشی کے اس واقعے کے بعد جنوبی کوریا میں پرائمری سکول کے اساتذہ میں غم اور غصے کی لہر دوڑ گئی، جنھوں نے والدین اور سکول میں بچوں کی جانب سے ہراسانی کے اپنے تجربات شیئر کرنا شروع کر دیے ہیں۔
ان میں سے دسیوں ہزار کام کے دوران تحفظ کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں اور انھوں نے ہڑتال بھی کر رکھی ہے۔
احتجاج کرنے والے اساتذہ نے والدین پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ بچوں کو اُنھیں تنہا کرنے اور دیوار سے لگانے کی وجہ بن رہے ہیں، وہ اپنی بچوں کو دن میں کئی کئی بار اُن کے ذاتی فون پر کالز کرتے ہیں اور اُن سے غیر منصفانہ مطالبات اور شکایت کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے ذہنی دباؤ شکار ہو رہے ہیں اور اکثر تو انتہائی قدم بھی اُٹھا لیتے ہیں۔
کچھ شکایات میں خاص طور پر بہت سی خطرناک باتیں موجود ہیں۔ اساتذہ پر تو بچوں کے ساتھ بُرا رویہ رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر وہ ایسا کرتے کیا ہیں؟ وہ کرتے یہ ہیں کہ وہ جذباتی اور پُرتشدد بچوں کو بڑے کاموں سے روکتے ہیں لیکن جواباً اُن پر ہراسانی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ اس طرح کے الزامات سامنے آنے کے بعد اساتذہ کو فوری طور پر ملازمتوں سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
ایک اُستاد کے بارے میں یہ شکایت موصول ہوئی کہ اُنھوں نے والدین کی درخواست کو ماننے سے انکار کر دیا جس میں والدین کی جانب سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ ٹیچر روزانہ صبح فون کر کے اُن کے بچے کو بیدار کرے۔
گذشتہ چھ ہفتوں کے دوران دسیوں ہزار اساتذہ نے سیئول میں احتجاج کیے اور ریلیاں نکالیں اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ اب ان پر بچوں کو ہراساں کرنے والے اساتذہ کا لیبل لگنے والا ہے اور وہ اس بات سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں، حتی کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے والے بچوں کو بھی روکنے سے ڈرنے لگے ہیں کہ کہیں اُن ہر ہراسانی کا الزام نہ لگا دیا جائے۔
وہ والدین پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ سنہ 2014 میں منظور ہونے والے ’بچوں کی بہبود‘ کے قانون کا استحصال کر رہے ہیں، جو یہ حکم دیتا ہے کہ جن اساتذہ پر بچوں کے ساتھ بدسلوکی کا الزام ہے وہ خود بخود اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا معطل ہو جاتے ہیں۔
ایک احتجاج میں، 28 سالہ ٹیچر کم جن سیو نے کہا کہ ’اُن کے خلاف ایسی ہی ہراسانی کی دو شکایات کے بعد انھوں نے بھی خودکُشی کا سوچا اور اس کے بعد انھوں نے اپنے ان خیالات پر قابو پانے کے لیے خاص طور پر تین ماہ کی رخصت لی اور اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔
ایک معاملے میں انھوں نے اپنے شاگرد کو یہ کہہ کر ٹوائلٹ میں بھیجا کہ وہاں تنہائی میں جا کر بیٹھو اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو اور دوسرے معاملے میں انھوں نے کلاس میں لڑائی کرنے پر بچے کے والدین کو شکایت لگائی، دونوں صورتوں میں، سکول نے انھیں معافی مانگنے پر مجبور کیا۔
کم نے کہا کہ وہ اس مقام پر پہنچ گئیں کہ جہاں انھیں یہ محسوس ہونے لگا کہ بس اب وہ اپنی کلاس کو مزید محفوظ طریقے سے نہیں پڑھا سکتیں: ’ہم اساتذہ کو اپنا آپ انتہائی بے اختیار محسوس ہوتا ہے۔ جو لوگ پہلے سے ہی اس سب سے گزر چُکے ہیں وہ تو شاید بدل گئے ہیں مگر جن کا ابھی اس طرح کے حالات سے خود تو واسطہ نہیں پڑا مگر انھوں نے یہ سب ہوتے ہوئے ضرور دیکھا ہے۔ تو دونوں معاملات میں یہ اساتذہ کو کمزور کر دیتا ہے اور اس سے اُن کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔‘
شکایت کرنے کا یہ کلچر جنوبی کوریا کے مسابقتی سمجھے جانے والے معاشرے میں پروان چڑھنے لگا ہے کہ جہاں تقریباً ہر چیز کا انحصار تعلیمی کامیابی پر ہے۔ طالبعلم بہت کم عمری سے ہی بہترین گریڈز کے لیے سخت مقابلہ کرتے ہیں اور یہ مقابلہ بہترین یونیورسٹیوں میں داخل ہونے تک جاری رہتا ہے۔
سکول کے بعد، والدین اپنے بچوں کو مہنگے غیر نصابی سکولوں میں پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں جنھیں ہاگون کہتے ہیں، جو صبح 5 بجے سے رات 10 بجے تک چلتے ہیں۔ زیادہ تر خاندانوں میں صرف ایک بچہ ہے، یعنی ان کے پاس کامیابی کے لیے زیادہ آپشن نہیں ہیں۔
سیئول نیشنل یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں مستقبل کے اساتذہ کو تربیت دینے والے پروفیسر کم بونگ جائی نے کہا کہ ’بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی وجہ سے بھی اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔‘
انھوں نے وضاحت کی کہ روایتی طور پر، کوریا میں اساتذہ کا احترام کرنے کا بہت مضبوط کلچر تھا، لیکن ملک کی تیز رفتار اقتصادی ترقی کی وجہ سے، اب بہت سے والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے کہ وہ اکثر اساتذہ کو حقیر نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ٹیکسوں سے ان (اساتذہ) کی تنخواہوں کی ادائیگی کی ہے۔ اس سے استحقاق کا ایک مضبوط احساس پیدا ہوتا ہے۔‘
ایک اور استاد نوئن نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ گذشتہ 10 برسوں سے پڑھا رہے ہیں اور اس دوران اُنھوں نے اُس ڈپریشن اور گھبراہٹ کے حملوں سے نمٹنے کے لیے دو مختلف وقتوں میں چھٹی لی جس کی وجہ اُن کے شاگرد اور اُن کے والدین بنے۔
انھوں نے کہا کہ چار سال پہلے تک آپ کلاس میں پڑھائی کے دوران خلل ڈالنے والے طالبعلم کو باہر یا کمرے کے پیچھے بھیج سکتے تھے، لیکن پھر والدین نے بچوں کے ساتھ ہراسانی یا بدسلوکی کا مقدمات اور شکایات کرنی شروع کر دیں۔
نوئن حال ہی میں ایک غریب علاقے میں قائم سکول میں منتقل ہوئے، اور وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ متمول یا امیر علاقوں میں والدین کا رویہ اس سے کہیں زیادہ خراب تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’ان کی ذہنیت ’صرف میرا بچہ اہم ہے‘ والی ہے، اور جب آپ صرف اپنے بچے کو اچھے کالج میں بھیجنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، تو آپ بہت خود غرض ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دباؤ بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے، ان کے رویے کو بھی متاثر کرتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ اس دباؤ کو کیسے ختم یا کیسے اس پر قابو پانا ہے، اس لیے وہ ایک دوسرے کو تکلیف دے کر یہ کام کرتے ہیں۔‘
جنوبی کوریا کے تعلیمی اداروں میں طالب علموں کے درمیان غنڈہ گردی اور تشدد جیسے مسائل موجود ہیں۔ گذشتہ سال کا مقبول ڈرامہ ’دی گلوری‘ کی کہانی ایک ایسی خاتون کے گرد گھومتی ہے جو اپنے بچوں کو ہراساں کرنے والوں سے بدلہ لینے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں۔
اس ڈرامہ کی کہانی سچے واقعات پر مبنی تھی، اور تشدد کے کُچھ پریشان کُن واقعات کو اس میں دکھایا گیا تھا۔ پلاٹ کے ایک موڑ پر شو کے ڈائریکٹر پر ہراسانی کا الزام لگایا گیا جس پر اُنھیں معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔
فروری میں حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دباؤ میں آ کر یہ اعلان کیا کہ طالبعلموں کی ہراسانی کے ریکارڈ کو ان کی یونیورسٹی کی درخواستوں میں شامل کیا جائے گا۔
شن من ہیانگ، جو طلبا اور والدین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک تنظیم چلاتی ہیں، نے اس بات کا اعتراف کیا کہ گذشتہ ماہ کے دوران سامنے آنے والے واقعات ناقابل قبول تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’والدین کی اکثریت اچھا برتاؤ کرتی ہے، اور ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ ہم اپنے خدشات کو پہنچانے کے لیے جن چینلز کا استعمال کرتے ہیں وہ اب منقطع ہو جائیں گے۔ والدین کو مجرم قرار دیا جا رہا ہے، اور یہ درست نہیں ہے۔‘
لیکن شن نے اعتراف کیا کہ ’ماضی میں اساتذہ کے بارے میں شکایت کی تھی اور وہ اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہیں گی کہ ان کے بچے کو کیا پڑھایا جاتا ہے اور وہ کس طرح نظم و ضبط پر توجہ دے رہے ہیں۔‘
والدین میں سے ایک نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وہ فکر مند ہیں کہ شکایات ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔‘ انھوں نے ہمیں ایک گروپ چیٹ کا مواد دکھایا، جس میں والدین ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے کہ وہ ایک استاد کو اس کے کیے گئے فیصلے پر ہراساں کریں۔‘
اس چیٹ میں مزید یہ ہدایات دی گئیں تھیں کہ’اگر آپ کا نمبر بلاک ہو جاتا ہے، تو کال کرنے کے لیے اپنے خاندان اور دوستوں کے فون استعمال کریں۔‘
نامعلوم والدین نے ہمیں بتایا کہ ’اگر اساتذہ کے پاس مشکلات کا شکار طلبا کے ساتھ مداخلت کرنے کا اختیار نہیں ہے، تو دوسروں پر منفی اثر پڑے گا۔‘
سنہ 2023 کے سروے کے مطابق ایک چوتھائی سے بھی کم اساتذہ اپنی ملازمت سے مطمئن تھے، جو کہ سنہ 2006 میں 68 فیصد سے کم ہے۔ ایک بڑی اکثریت نے کہا کہ انھوں نے پچھلے سال اس پیشہ کو چھوڑنے کے بارے میں سوچا تھا۔
حکومت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کلاس رومز میں ’تناؤ کی کیفیت‘ بڑھی ہے۔ حکومت کی جانب سے اساتذہ کو نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اساتذہ خلل ڈالنے والے طلبا کو کلاس روم سے نکال سکتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو انھیں روک سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ والدین کو اساتذہ سے ملاقات کی تاریخ پر وقت سے پہلے ہی اتفاق کرنا چاہیے۔
جنوبی کوریا کے وزیر تعلیم لی جو ہو نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ یہ اقدامات ’سکولوں کو اُن کا کھویا ہوا مقام واپس دلوائیں گے۔‘