ماحولیات کا عالمی دن 2021 کیا پاکستان کے لیے ماحولیاتی خدمات کے بدلے قرضوں سے چھٹکارا ممکن ہے؟
پاکستان اپنی ماحولیاتی خدمات کے بدلے دنیا سے اپنے قرضوں کے خاتمے (ڈیٹ فار نیچر سواپ) کا طلب گار ہے۔ پانچ جون یوم ماحولیات کو اس کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا، لیکن کیا یہ ممکن ہے اورقرض دہندگان بھلا ایسا کیوں چاہیں گے؟
دنیا اس وقت بدلتے موسم، قدرتی آفات اور کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے گزر رہی ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو بلا تخصیص رنگ و نسل اورملک و قوم کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ماحولیاتی مسائل زمین کے سینے پر کھنچی سیاسی لکیروں اور سرحدوں سے ماورا ہوتے ہیں۔
آلودہ فضا کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کسی پاکستانی کی سانسیں روک رہی ہے یا کسی انڈین کی۔ خراب پیٹرول سے نکلتا زہریلا دھواں، بڑھتی حدت سے پگھلتے گلیشئرز، سیلاب،خشک سالی، آلودہ دریا اور جنگلات کی کٹائی امیر ممالک کے لیے بھی اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ کسی غریب ملک کے لیے۔
اچھی بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف ان خطرات کا ادراک رکھتے ہیں بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ غربت ان مسائل کا ایک بڑا سبب ہے۔ لہٰذا امیر ممالک اس حوالے سے غریب ممالک کو امداد دے کر بظاہر ان کی زندگی تو آسان بناتے ہی ہیں لیکن در پردہ دراصل وہ خود کو بھی محفوظ کر رہے ہوتے ہیں اور پاکستان کا کیس بھی یہی ہے۔
قدرت ایسے مواقع فراہم کرتی رہتی ہے جس سے فائدہ اٹھا کر آپ بہت کچھ مختلف کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے تھوڑی سی، بس آنکھ بھر بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بروقت کیے جانے والے یہ فیصلے آپ کو عام سے خاص بنانے میں دیر نہیں کرتے۔
پاکستان نے بھی کڑے وقتوں میں کچھ ایسے ہی منفرد اور دلیرانہ اقدامات کیے جس کے باعث نہ صرف پاکستان کو عالمی سطح پر پزیرائی حاصل ہوئی بلکہ اس سال کے عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا اور آج ایک قدم اور آگے بڑھ کر وہ دنیا سے اپنی ماحولیاتی خدمات کے بدلے قرضوں کے خاتمے (Debt for Nature Swap) کا مطالبہ کر رہا ہے تاکہ تحفظ ماحولیات کا یہ سفر جاری رہے۔
پاکستان گھٹنوں گھٹنوں قرض کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ مارچ 2021 تک پاکستان کا کل بیرونی قرضہ تقریباً 106.6 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جس میں سے حکومت پاکستان کا بیرونی قرضہ جو براہ راست حکومت کو ادا کرنا ہے، 73 اعشاریہ 29 ارب ڈالرز ہے۔ جبکہ بقیہ قرضہ جات مختلف کارپوریشنوں اور اداروں کو ادا کرنے ہیں۔
قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبی معیشت کے لیے قرضوں کی معافی کی خبر حبس میں تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔
آخر پاکستان کی وہ کون سی خدمات ہیں جن کی بدولت یہ سہولت مل سکتی ہے؟
اس کا جواب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے وزارت موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم تفصیل سے دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان نے ماحولیاتی خدمات کے بدلے قرضوں کی معافی کا جو منصوبہ بنایا ہے اسے عالمی سطح پر پزیرائی حاصل ہے اور اس ضمن میں ہماری کئی ممالک سے بات چیت چل رہی ہے اور مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے عملی طور پر ماحول کی بہتری کے حوالے سے اپنی استقامت ظاہر کی ہے اور کورونا وائرس کے دور میں جب بڑی بڑی مضبوط معیشت زمین بوس ہوئیں پاکستان نے نہ صرف اپنی معیشت کو سنبھالے رکھا بلکہ اس کے ساتھ ہی کورونا وبا میں ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار ہونے والے دیہاڑی دار مزدروروں کے لیے نئے روزگار کا بھی انتظام کیا۔ خصوصاً ان کے لیے جو گاﺅں دیہاتوں سے روزی کمانے شہر آئے ہوئے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اس مشکل وقت میں ایک دانش مند لیڈر کا کردار بخوبی نبھایا۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ اس نئی سکیم کو بھی عالمی ممالک ہاتھوں ہاتھ لیں گے اور آنے والے وقت میں معیشت میں مزید بہتری آئے گی۔‘
کیا ایسی کوئی مثال موجود ہے کہ پاکستان نے پہلے بھی اپنا قرضہ معاف کروایا ہو۔ اس حوالے سے ماہر ماحولیات ڈاکٹر پرویز نعیم بتاتے ہیں کہ سماجی خدمات کے بدلے قرضوں کی معافی کوئی نئی بات نہیں ہے۔
تعلیم، صحت، افغان مہاجرین کی میزبانی، 2005 میں زلزلے کی تباہی اور 2010 میں سیلاب زدگان کی امداد کی مد میں پاکستان کے بہت سے قرضے معاف کیے گئے۔ ان میں سے معاف کیے گئے کچھ قرضوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
دسمبر 2021تک معاف کروائے گئے قرضے:
- کینیڈا نے تعلیمی شعبے (ٹیچرز ٹریننگ) کی مد میں44 کروڑ 70 لاکھ کینیڈین ڈالرز معاف کیے۔
- جرمنی نے تعلیمی شعبے میں پانچ کروڑ یورو معاف کیے۔
- اٹلی نے افغان مہاجرین کی میزبانی کی مد میں آٹھ کروڑ پچاس لاکھ ڈالرز معاف کیے۔
- ناروے نے تعلیمی شعبے میں ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالرز معاف کیے۔
- بیلجیم نے 2005 کے زلزلہ زدگان کی بحالی اور گھروں کی تعمیر کے لیے دو کروڑ یورو معاف کیے۔
ڈاکٹر پرویز نعیم کا کہنا ہے کہ البتہ ماحولیاتی خدمات کے بدلے قرضوں کی ادائیگی کو اس حوالے سے نئی پیش رفت کہا جا سکتا ہے کہ اس سے پہلے ماحول کے شعبے میں پاکستان کی حد تک ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور وزیر اعظم کی اکنامک ایڈوائزری کونسل کے رکن ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے البتہ دنیا میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ماحولیات کی بہتری کے لیے قرضے معاف کیے گئے مثلا بنگلہ دیش میں ٹروپیکل جنگلات کے تحفظ کے لیے قرضہ معاف کیا گیا ،گھانا میں ماحول دوست سیاحت کی مد میں اور کوسٹا ریکا میں نیشنل پارکس کے تحفظ کی مد میں قرض معاف کروائے گئے۔
پاکستان بہت سے ایسے اقدامات کر رہا ہے جن کی عالمی برادری میں پزیرائی ہو رہی ہے پاکستان نے کورونا وائرس کے مشکل دورمیں پروٹیکٹڈ ایریا انیشیٹو کے ذریعے مزید نیشنل پارک اور محفوظ علاقوں میں اضافہ کیا اور اس شعبے میں 85 ہزار کے قریب نوکریاں پیدا کیں۔
اربوں درختوں کی شجرکاری کا منصوبہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پیٹرول کے بجائے الیکٹرک گاڑیاں، صاف اور قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری اوراس جیسے بہت سے اقدامات عالمی توجہ حاصل کر چکے ہیں لہٰذا حکومت کے ساتھ ساتھ ماہرین بھی پر امید ہیں کہ اس حوالے سے عالمی برادری کو فیصلہ کرنے میں دشواری نہیں ہو گی۔
اگر ایسا ہے تو کیا پاکستان اپنا تمام قرضہ ادا کرسکتا ہے؟
اس حوالے سے عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے کہ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک یا آئی ایم ایف جیسے عالمی ماحولیاتی ادارے قرضے معاف نہیں کر سکتے کیونکہ قرضوں کی رقم ان اداروں کی ملکیت نہیں ہوتی ہے، یہ قرضے اکثر کثیر القومی ہوتے ہیں اوریہ مالیاتی ادارے انھیں معاف کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
ماحولیات کے حوالے سے جن قرضوں کی معافی کی بات ہو رہی ہے وہ دراصل پیرس کلب سے لیے گئے قرضے ہیں جن کی مالیت 11.54 ارب ڈالرز بنتی ہے۔
پیرس کلب 22 ترقی یافتہ ممبران ممالک پر مشتمل ایک گروپ ہے جن میں امریکا، آسٹریلیا، آسٹریا، بیلجئم، برازیل، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، آئر لینڈ ،اسرائیل، اٹلی، جاپان، نیدر لینڈ، ناروے، روس، ساﺅتھ کوریا، سپین، سوئیڈن، سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ شامل ہیں۔
یہ ممالک مل کر غریب اور ضرورت مند ممالک کو قرض دیتے ہیں۔ پیرس کلب سے لیے گئے قرضوں کے حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں یہ لچک موجود ہے کہ قرض کی نوعیت تبدیل کی جا سکتی ہے، معاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس قرض کو امداد میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اس رقم کو کسی ترقیاتی منصوبے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ قرض کی رقم کو مقامی کرنسی میں تبدیل کرنے کی سہولت بھی موجود ہے مثلاً پاکستان یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی ملکی کرنسی کی قدر روز بہ روز کم ہو رہی ہے اس لیے قرضے کی رقم (یورو یا ڈالرز) کو مقامی کرنسی میں تبدیل کر دیا جائے۔
ماحول کی بہتری کے اقدامات کے بدلے ان قرضوں کی معافی کی اصل وجہ وہی ہے جو ہم نے ابتدا میں بیان کی، غریب ممالک کے وسائل پر بہت دباﺅ ہوتا ہے۔ جنگلات زیادہ کاٹے جاتے ہیں، پانی کا غیر محتاط استعمال، جنگلی حیات کا بے دریغ شکار اور فوسل فیول کے بہت زیادہ استعمال سے نہ صرف وہ ملک بلکہ کرہ ارض کے ماحول کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔
ریڈ پلس منصوبہ جہاں ہر درخت سرمایہ ہے
ایک اور منصوبہ ’ریڈ پلس‘ ہے جس میں درخت لگانے اور ان کی حفاظت کے بدلے عالمی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے معاوضہ ادا کیا جائے گا اس وقت پاکستان میں کمیونٹی کی سطح پر بھی کام کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ آئی پی سی سی کے مطابق کسی ملک کی معیشت اور ماحول کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ وہاں 25 فیصد زمین پر جنگلات موجود ہوں جبکہ ماہرین کے مطابق پاکستان میں فارسٹ کور زمین کے کل رقبے کا صرف 5.7 ہے یعنی 4.54 ملین ہیکٹر زمین پر جنگلات موجود ہیں۔
جنگلات کی کٹائی روکنے اور ان کے تحفظ کے لیے ’ریڈ پلس‘ منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے۔ پہلی بار درختوں کی اہمیت کو روپوں میں تبدیل کر کے مقامی آبادیوں کو بتایا گیا ہے کہ ان کا ہر درخت اب کیش کی صورت ہے جس کی حفاظت پر انھیں پیسے دیے جائیں گے۔
ریڈ پلس منصوبہ کیا ہے؟
دراصل ایک طریقہ کار یا میکینزم ہے جسے اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے ادارے (UNFCCC) نے جنگلات کی کٹائی اور ان کے عدم استحکام کو روکنے کے لیے متعارف کروایا ہے۔
اس کے تحت پہلی بار جنگلات کے وسائل کی مالی حیثیت کو پرکھا گیا ہے مثلاً درختوں میں ذخیرہ ہونے والی کاربن کا مالیاتی تخمینہ لگایا گیا تاکہ درختوں کی کٹائی روکنے کے لیے ترقی پزیر ممالک کو اس کاربن کے برابر ایسی مالی ترغیبات دی جا سکیں کہ وہ درختوں اور جنگلات میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں اور پائیدار ترقی کے ایسے طریقے اپنا سکیں جس میں کاربن کی آلودگی کم سے کم ہو۔
ترقی پزیر ممالک ایسے تمام نتیجہ خیز اقدامات کے عوض عالمی اداروں سے پُرکشش مالی فوائد حاصل کر سکیں گے۔ اربوں درختوں کی شجرکاری اور ریڈ پلس منصوبہ ایک سبز مالیاتی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
گرین بانڈز
پاکستان پانچ جون کو عالمی مارکیٹ میں دس سالہ مدت کے لیے 500 ملین یورو کے گرین بانڈز بھی فروخت کے لیے پیش کر رہا ہے۔ اس حوالے سے ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر اس کا بہت مثبت ردعمل آیا۔
ان گرین بانڈز سے حاصل ہونے والی رقم گرین انرجی یعنی ہائیڈرو پاورکے شعبے میں استعمال کی جائے گی۔ ہم نے فی الحال 500 ملین یورو کے بانڈز جاری کیے ہیں مگر ہمیں اس کے چار گنا یعنی دو ارب یورو تک آفر ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے ان بانڈز کو خریدنے والے سرمایہ کار عالمی سطح پر آسانی سے مل جاتے ہیں کیونکہ اس قسم کے بانڈز پر سرکاری گارنٹی موجود ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں بینکوں میں بہت کم منافع دیا جاتا ہے جبکہ ان بانڈز پر آٹھ سے دس فیصد تک منافع مل جاتا ہے جو سرمایہ کاروں کے لیے بہت پر کشش ہوتا ہے۔