ماجد خان جب پاکستانی بلے باز نے سست بیٹنگ کے دور میں تیز ترین سنچری بنا ڈالی
31 اگست 1974 کو پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے خلاف ٹرینٹ برج ناٹنگھم میں پہلا ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے ُاتری تو اسے اوپنر ڈیوڈ لائیڈ کے ناقابل شکست 116 اور اس اننگز کی بدولت بننے والے انگلینڈ کے 244 رنز کا جواب دینے کے لیے ایک ایسی ہی بڑی اننگز کی ضرورت تھی۔
ماجد خان نے صادق محمد کے ساتھ اننگز شروع کی۔ ان دونوں نے ٹیم کو 113 رنز کا ٹھوس آغاز فراہم کر دیا۔ ماجد خان جب تک کریز پر رہے ان کے ہر سٹروک پر کمنٹیٹرز گلوریئس آف ڈرائیو، بیوٹی فل شاٹ اورگریٹ شاٹ جیسے الفاظ کے ساتھ ان کی تعریف کرتے رہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آج جو لوگ بھی یہ اننگز دیکھ رہے ہیں انھیں یہ مدتوں یاد رہے گی اور واقعی گراؤنڈ کے مختلف اسٹینڈز میں بیٹھے شائقین بیٹنگ کے سحر میں کھوچکے تھے۔
ماجد خان نے صرف 88 گیندوں پر 16 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے سنچری مکمل کرلی اور جب وہ 99 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 109 رنز بناکر آؤٹ ہوئے تو میچ پاکستان کی گرفت میں آچکا تھا۔
اس اننگز کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ یہ ون ڈے انٹرنیشنل میں پاکستان کی پہلی سنچری تھی۔ اس وقت تک ون ڈے انٹرنیشنل میں بننے والی یہ محض چوتھی سنچری تھی۔ ان سے پہلے انگلینڈ کے ڈینس ایمس نیوزی لینڈ کے کین ورڈزورتھ اور انگلینڈ کے ڈیوڈ لائیڈ تین ہندسوں کی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہو سکے تھے۔
ماجد خان کہتے ہیں: ʹمیں نے اس اننگز کے سلسلے میں کوئی خاص حکمت عملی نہیں بنائی تھی۔ دن اچھا تھا اور گیند بلے پر آرہی تھی۔’
ماجد خان نے جس بولنگ اٹیک کے سامنے یہ سنچری بنائی وہ باب ولس، پیٹر لیور، کرس اولڈ، ٹونی گریگ اور ڈیرک انڈرووڈ جیسے تجربہ کار بولرز پر مشتمل تھا۔
کامیاب اوپننگ جوڑی
ماجد خان کے اوپننگ پارٹنر صادق محمد کہتے ہیں: ʹماجد خان 1974 میں انگلینڈ کے دورے میں میرے اوپننگ پارٹنر بنے تھے۔ اس سے قبل تقریباً 16 ٹیسٹ میچوں میں سات آٹھ اوپنرز میرے ساتھ کھیل چکے تھے لیکن ماجد خان کے ساتھ میری ذہنی ہم آہنگی قائم ہوئی اور ہم نے طویل عرصے تک ساتھ اوپننگ کی۔
’اننگز کا آغاز کرتے ہوئے میرا انداز دفاعی ہوتا تھا جبکہ دوسرے اینڈ سے ماجد خان بولرز پر حاوی ہو جاتے تھے۔’
واضح رہے کہ ماجد خان اور صادق محمد نے ٹیسٹ کرکٹ میں 26 اننگز میں ایک ساتھ اوپننگ کی اور مجموعی طور پر 1391 رنز بنائے جن میں 4 سنچریاں اور 9 نصف سنچریاں شامل تھیں۔
آج تیز ترین سنچری بناؤں گا
سنہ 1967 ء میں پاکستانی ٹیم کے دورۂ انگلینڈ میں ماجد خان تین ٹیسٹ میچوں میں بری طرح ناکام رہے تھے لیکن دورے کے فرسٹ کلاس میچوں میں ان کے بیٹ سے رنز رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس دورے میں انھوں نے کینٹ، مڈل سیکس، سسکس اور گلیمورگن کے خلاف سنچریاں اسکور کی تھیں۔گلیمورگن کاؤنٹی کے خلاف ان کی 147 رنز ناٹ آؤٹ کی اننگز فرسٹ کلاس کرکٹ کی چند یادگار اننگز میں شمار ہوتی ہے۔
ماجد خان کا اس اننگز کے بارے میں کہنا ہے کہ ʹمیں نے ڈریسنگ روم میں اپنے ساتھی کھلاڑیوں کو یہ کہہ دیا تھا کہ آج میں تیز ترین سنچری سکور کروں گا۔’
پاکستان کی دوسری اننگز میں تیسری وکٹ گرنے پر ماجد خان بیٹنگ کے لیے آئے تھے جس کے بعد سینٹ ہیلنز گراؤنڈ سوانسی میں چوکوں اور چھکوں کی برسات شروع ہوگئی تھی۔ اس اننگز میں ماجد خان نے صرف 89 منٹ کریز پر قیام کیا تھا اور سنچری محض 61 منٹ میں ہی مکمل کرڈالی تھی۔
جب اس میچ میں کپتانی کرنے والے سعید احمد نے جو خود ماجد خان کے ساتھ بیٹنگ کر رہے تھے پاکستان کی اننگز 324 رنز تین کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کی تو ماجد خان اپنی اس جارحانہ اننگز میں 10 چوکے اور 13 چھکے لگا چکے تھے۔
نیوزی لینڈ کے جان ریڈ کے 15 چھکوں کے بعد یہ کسی فرسٹ کلاس اننگز میں اس وقت تک چھکوں کی دوسری بڑی تعداد تھی۔
ماجد خان کی جارحیت کا سب سے زیادہ نشانہ آف سپنر راجر ڈیوس بنے تھے جن کے ایک اوور میں ماجد خان نے پانچ چھکے لگائے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماجد خان کی اس اننگز کے ٹھیک ایک سال بعد اگست سنہ 1968 میں اسی سینٹ ہیلنز گراؤنڈ میں سرگیری سوبرز نے ناٹنگھم شائر کی طرف سے کھیلتے ہوئے گلیمورگن کے میلکم ناش کے ایک ہی اوور میں چھ چھکے لگائے تھے۔
ماجد خان اس میچ میں گلیمورگن کی ٹیم میں شامل تھے۔
ماجد خان کی 147 رنز کی شاندار اننگز نے گلیمورگن کاؤنٹی کو مجبور کر دیا کہ وہ انھیں اپنی ٹیم میں شامل کرنے میں تاخیر نہ کرے۔
ماجد خان گلیمورگن میں کیا آئے کاؤنٹی کی قسمت ہی بدل گئی اور وہ ٹیم جو کبھی پوائنٹس ٹیبل پر نچلے حصے میں دکھائی دیتی تھی سنہ 1969 میں کاؤنٹی چیمپئن بھی بن گئی جس میں ماجد خان کے پندرہ سو سے زائد رنز کا نمایاں حصہ تھا۔
اسی کارکردگی پر وہ وزڈن کے سال کے پانچ بہترین کرکٹرز میں شامل کیے گئے تھے۔
ماجد خان جتنا عرصہ گلیمورگن کاؤنٹی سے وابستہ رہے وہاں کے شائقین میں بے حد مقبول رہے ۔وہ جب بھی کھیل رہے ہوتے گراؤنڈ میں ماجد ماجد کے نعرے گونج رہے ہوتے تھے۔
کرکٹ کمنٹیٹر ایلن ولکنز نے جب کرکٹر کی حیثیت سے گلیمورگن میں شمولیت اختیار کی تو ماجد خان ان کے پہلے کپتان تھے۔
وہ کہتے ہیں: ʹماجد خان خاموش طبع اور باوقار شخصیت کے مالک تھے، یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ان کا احترام کرتا تھا۔ فیلڈ میں بھی وہ کم بات کرتے تھے اور فیلڈرز کو عموماً ہاتھ کے اشارے سے ہدایات دیا کرتے تھے۔
’ان کی بیٹنگ میں ان کی شخصیت جیسا وقار جھلکتا تھا جس نے شائقین کو بہت جلد اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا وہ شاہانہ انداز سے سٹروکس کھیلا کرتے تھے۔‘
لنچ سے پہلے سنچری لیکن ریکارڈنگ غائب
30 اکتوبر سنہ 1976 میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کراچی میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ کے پہلے دن ماجد خان نے کھانے کے وقفے سے قبل ہی سنچری مکمل کرڈالی۔
وہ اس وقت تک دنیا کے چوتھے بیٹسمین تھے جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا۔ان سے قبل یہ کارنامہ تین آسٹریلوی بیٹسمینوں وکٹر ٹرمپر، چارلس میکارٹنی اور سر ڈان بریڈمین نے انجام دیا تھا۔
ماجد خان کہتے ہیں کہ ʹمیں اس ارادے سے بیٹنگ کرنے نہیں گیا تھا کہ لنچ سے قبل سنچری بناؤں گا لیکن ان دنوں میری فارم بہت اچھی تھی اور میں جو بھی شاٹ کھیلتا وہ صحیح لگ رہا تھا۔ اس اننگز کے دوران ایک موقع ایسا آیا جب صادق محمد نے کہا کہ کھانے کے وقفے سے پہلے سنچری ہوسکتی ہے اور وہ ہو گئی۔’
ماجد خان کی یہ اننگز جس نے بھی ایک بار دیکھ لی وہ خود کو خوش قسمت انسان تصور کرتا ہے کیونکہ اسے یہ اننگز دوبارہ دیکھنے کا موقع اس لیے نہیں مل سکا کہ اس اننگز کی ریکارڈنگ پاکستان ٹیلی ویژن کے ریکارڈ تک میں محفوظ نہیں ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ماجد خان جب پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر سپورٹس بنے تو انھیں بھی اپنی اس تاریخی اننگز کی جستجو ہوئی اور انھوں نے اس کی ریکارڈنگ تلاش کرنے کی ہرممکن کوشش کرڈالی لیکن انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈینس للی باؤنسر سے ہیٹ نہ گراسکے
سنہ 1976 میں پاکستانی ٹیم کے دورۂ آسٹریلیا میں ماجد خان اور فاسٹ بولر ڈینس للی کے درمیان دلچسپ مقابلہ دیکھنے میں آیا۔ ڈینس للی نے ماجد خان کو چیلنج کیا کہ وہ اپنے باؤنسر سے ان کا مشہور فلوپی ہیٹ گرا دیں گے۔
لیکن تین ٹیسٹ میچوں کی اس سیریز میں وہ ایک بار بھی ایسا نہ کرسکے۔ سڈنی کے آخری ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں جب پاکستانی ٹیم جیت کے قریب بڑھ رہی تھی تو ڈینس للی نے آخری کوشش کے طور پر ایک باؤنسر کیا جس پر ماجد خان نے ُہک کر کے چھکا لگا دیا۔
ٹیسٹ سیریز کے اختتام پر ہونے والی تقریب میں ماجد خان نے اپنا وہ مشہور فلوپی ہیٹ ڈینس للی کو تحفے میں دے دیا۔
سینڈوچز کھانے کے لیے ماجد خان کو بلایا گیا
ڈیوڈ فرتھ کی مرتب کردہ کتاب ʹکرکٹ گیلریʹ میں پچاس کرکٹرز کے بارے میں مضامین ہیں۔ مائیک سٹیونسن نے اپنے مضمون میں ماجد خان کی خوش خوراکی کا ذکر کرتے ہوئے سابق ٹیسٹ کرکٹر پرویز سجاد سے منسوب ایک دلچسپ واقعہ تحریرکیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں: ʹپاکستان ایگلٹس ٹیم انگلینڈ کے دورے میں جب لیسٹرشائر کے ایک علاقے میں پہنچی تو دیر ہو چکی تھی اور کسی ریستوراں میں کھانا ملنا ممکن نہ تھا لہٰذا چھ سات کھلاڑیوں نے ہوٹل میں ہی 36 سینڈوچز کا آرڈر دے دیا۔
‘ان کھلاڑیوں میں شامل پرویز سجاد کا خیال تھا کہ 36 کا مطلب 36 ہی ہو گا لیکن جب ویٹر ڈیڑھ گھنٹے بعد دو بھری ہوئی ٹرے کے ساتھ آیا تو انھیں اندازہ ہوا کہ ڈبل سینڈوچز کا مطلب 72 ہے۔’
یہ کھلاڑی آخر کتنے سینڈوچز کھاتے؟ اس موقع پر پرویز سجاد نے کہا کہ ʹبو کوʹ کو کمرے سے بلا لو۔ یہ سب ماجد خان کو پنجابی میں ’بوُ کو‘ کہتے تھے۔ ماجد خان آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے کئی سینڈوچز صاف کر دیے۔
ماجد خان کا کہنا ہے ʹجوانی میں خوراک اچھی تھی۔ ُاس وقت اس طرح کھل کر کھانا کھایا جاسکتا تھا۔ʹ
ماجد خان کے بیٹے سابق ٹیسٹ کرکٹر بازید خان سے میں نے پوچھا کہ بوُ کو کا کیا مطلب ہوتا ہے اور آپ کے والد سے اس کا کیا تعلق؟
بازید خان کہنے لگے ʹبوکا دراصل چمڑے کے مشکیزے کی طرح ہوتا ہے جسے کنویں میں ڈال کر پانی نکالا کرتے ہیں۔ میرے والد چونکہ سلپ میں کیچ اچھے پکڑتے تھے تو ان کے ایک ساتھی کرکٹر فقیراعزاز الدین نے ان سے مذاقاً کہا تھا کہ آپ کے ہاتھ بہت بڑے ہیں جن سے کیچ نکل کر نہیں جا سکتے۔ یہ ہاتھ بوکے جیسے ہیں بعد میں یہ لفظ بوکے سے بوُ کو بن گیا۔‘
خراب وکٹوں پر لاجواب بیٹنگ
انڈیا کے سابق سپنر بشن سنگھ بیدی کہتے ہیں: ʹماجدخان صرف اچھی وکٹ پر ہی رنز نہیں سکور نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی خوبی یہ تھی کہ مشکل اور خراب وکٹ پر بھی وہ کمال کی بیٹنگ کرتے تھے۔’
ماجد خان کی ایسی ہی ایک اننگز سنہ 1980 میں آسٹریلیا کے خلاف کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں دیکھنے میں آئی تھی جہاں رے برائٹ، اقبال قاسم اور اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے توصیف احمد کسی بھی بیٹسمین کو کھل کر کھیلنے نہیں دے رہے تھے ایسے میں جہاں جاوید میانداد اور گریگ چیپل کے لیے بڑی اننگز کھیلنا ممکن نہ ہو سکا ماجد خان نے 89 رنز کی غیر معمولی اننگز کھیلی تھی۔
آخری اننگز میں غلط آؤٹ
ماجد خان کی سب سے بڑی خوبی جس کا ہر کوئی اعتراف کرتا ہے وہ ان کی سپورٹسمین شپ تھی۔
وکٹ کے پیچھے کیچ ہونے کے بعد وہ کریز چھوڑنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے تھے لیکن جنوری سنہ 1983 میں انڈیا کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں دنیا نے انھیں مختلف روپ میں دیکھا جب امپائر جاوید اختر نے انھیں صفر پر کپل دیو کی گیند پر وکٹ کیپر کرمانی کے ہاتھوں کیچ آؤٹ دے دیا۔
ماجد خان کو پتہ تھا کہ گیند نے بلے کو نہیں چھوا تھا لہٰذا وہ پہلی بار غصے میں بڑبڑاتے ہوئے پویلین جاتے ہوئے نظر آئے تھے۔
یہ ایک شاندار کریئر کا افسوسناک اختتام تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور ٹیسٹ شروع ہوتے وقت ماجد خان سب سے زیادہ 3931 رنز بنانے والے پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر تھے لیکن اسی اننگز میں جاوید میانداد 85 رنز بنا کر ان سے آگے نکل گئے تھے۔