ماؤنٹ ایورسٹ، نانگا پربت کی بلندی میں اضافہ ہو رہا ہے؟
ارورا ایلمور نیپال میں ماؤنٹ ایورسٹ کے جنوبی بیس کیمپ کے قریب پہنچ گئی تھیں۔۔۔ انھوں نے 12 دن تک پیدل چلنے والے روایتی راستے کے بجائے برف سے جمی چوٹیوں کے اوپر سے بذریعہ ہیلی کاپٹر جانے کا فیصلہ کیا۔
اپریل 2019 میں وہ دنیا کی سب سے بلند چوٹی پر کام کرنے والے سائنسدانوں کی ٹیم کو ضروری اشیا فراہم کر رہی تھیں اور ان کا انعام تھا یہ شاندار نظارے۔ سورج نکلا ہوا تھا اور وہ باآسانی ہمالیہ کے تمام پہاڑی سلسلے کو دیکھ سکتی تھیں۔
اگلے دو مہینوں تک انھوں نے نیشنل جیوگرافک اور رولیکس مہم کے ان محققین کو مدد فراہم کی جو ہمالیہ کے اس حصے پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مطالعہ کر رہے تھے۔
ایلمور جو کہ ایک ماہر ارضیات اور اس وقت امریکہ میں نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی سینئر پروگرام مینیجر تھیں، انھوں نے ماؤنٹ ایورسٹ کے کنارے پر دنیا کا سب سے اونچا موسمیاتی سٹیشن نصب کرنے والی ٹیم کی مدد کی۔
اس مہم کے دوران ان کے ساتھیوں کو چوٹی کے قریب برف اور ندی کے پانی میں پلاسٹک کے انتہائی چھوٹے ذرات سے پیدا ہونے والی آلودگی کے سب سے زیادہ ثبوت ملے۔
ایورسٹ کی چوٹی کے قریب آنے پر ایلمور کو ان کا برڈ آئی نظارہ ملا۔ سبز اور پیلے ٹینٹوں سے بسا ایک چھوٹا شہر۔۔۔۔ جن میں چوٹی کی جانب جانے والے کوہ پیما رہتے تھے۔
ایورسٹ پر یہ بیس کیمپ سطح سمندر سے پانچ کلو میٹر (تین میل) سے زیادہ بلندی پر بنایا گیا تھا۔ ہر موسم بہار میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے خواہشمند ہزاروں لوگ یہاں آتے ہیں۔
اور شاید کم کوہ پیماؤں نے نوٹس کیا ہو، ایورسٹ کی لمبائی میں تھوڑا سا اضافہ ہوا تھا۔
ہمالیہ کی دوسری چوٹیوں کی طرح ہر سال ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس سے ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ماؤنٹ ایورسٹ کی لمبائی میں کتنا اضافہ ہو سکتا ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے نظام شمسی میں دوسرے سیاروں پر ایسے پہاڑ موجود ہیں جن کے سامنے ہمارے سیارے پر موجود چوٹیاں بونی لگتی ہیں۔ زمین پر پہاڑ کی لمبائی میں آخر کتنا اضافہ ہو سکتا ہے اور کیا اس کی کوئی حد ہے؟
چین اور نیپال کے تازہ ترین سرکاری مشترکہ سروے کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ سطح سمندر سے 8848.86 میٹر (29032 فٹ) بلند ہے۔
لیکن یہ دنیا کی واحد بلند چوٹی نہیں۔ ہمالیہ کے اسی سلسلے میں سطح سمندر سے 8000 میٹر (26247 فٹ) کی بلندی پر دنیا کی بلند ترین 14 چوٹیوں میں سے 10 موجود ہیں۔
ایلمور کا کہنا ہے کہ ایورسٹ اپنے جیسی چوٹیوں میں گھری ہوئی ہے ’اگر آپ نے کبھی گرین لینڈ یا کینیڈین راکیز کے اوپر پرواز کی ہے تو آپ نے وہاں بڑے بڑے پہاڑ دیکھے ہوں گے لیکن ہمالیہ ایک مختلف دنیا ہے۔‘
اتنی بلند چوٹیوں میں گھری اس چوٹی کے متعلق کیا یہ جاننا ممکن ہے کہ آخر یہ کتنی بڑی چوٹی ہے؟ ایلمور اس کا جواب دینے سے ہچکچاتی ہیں ’یہ ایسا ہی ہے جیسے باسکٹ بال ٹیم کے سب سے لمبے شخص کو یہ بتانے کی کوشش کرنا کہ اس ٹیم میں سب ہی لمبے قد کے ہیں لیکن اس کا قد تھوڑا سا زیادہ ہے۔‘
دنیا کے سب سے بلند پہاڑ کی پیمائش کی تاریخ 1852 تک جاتی ہے۔ اس وقت یورپ میں چارلس ڈکنز اپنے ناول بلیک ہاؤس کی قسطیں شائع کر رہے تھے اور شمالی امریکہ نے بھاپ سے چلنے والے اپنے پہلے فائر انجن کی جانچ پڑتال کا کام شروع کر رکھا تھا۔
ایشیا میں ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی ایک معمہ تھی۔ اسے صرف ’چوٹی 15‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
انگریزوں نے ایک انڈین ریاضی دان رادھا ناتھ سقدار کو اپنے عظیم مثلثی سروے پر کام کرنے کے لیے ملازمت پر رکھا تھا۔ وہ جس علاقے پر قبضہ کر رہے تھے اس کے بارے میں زیادہ درست جغرافیائی معلومات اکٹھا کرنا چاہتے تھے تاکہ تجارتی اور فوجی مقاصد کے حوالے سے ان علاقوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے کنٹرول کر سکیں۔
سقدار نے مثلثیات کا استعمال کیا۔ انھوں نے ان چوٹیوں کی مدد سے جن کی پوزیشنز اور بلندیاں پہلے ہی معلوم تھیں، ایورسٹ کے افقی اور عمودی زاویوں کو ناپا۔ اس طرح انھوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی کی پیمائش کی۔ ان کے حساب کے مطابق یہ پہاڑ 8839.8 میٹر (29002 فٹ) اونچا تھا۔
اگرچہ 1850 کی دہائی کے مقابلے میں اب پہاڑوں کی پیمائش کرنے والی ٹیکنالوجی میں جدت آ چکی ہے لیکن رادھا ناتھ سقدار کے اعداد و شمار حیران کن حد تک درست تھے اور ان کی پیمائش اور تازہ ترین سرکاری اونچائی میں محظ نو میٹر کا فرق تھا۔
اگرچہ اس تلاش اور کام کا سہرا سقدر کے سر جاتا ہے مگر پہاڑ کا نام ان کے سابقہ برطانوی باس سرویئر سر جارج ایورسٹ کے نام پر رکھا گیا جو سقدار کی اس دریافت سے کئی سال پہلے ریٹائر ہو چکے تھے۔
تب سے کئی ٹیمیں ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی کو سمجھنے کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سنہ 1954 میں ایک انڈین سروے میں ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی 8848 میٹر (29029 فٹ) بتائی گئی جسے نیپالی حکومت نے بھی قبول کیا۔
لیکن پھر سنہ 2005 میں چینیوں نے اس کی پیمائش 8848 میٹر (29017 فٹ) یعنی تقریباً چار میٹر (13 فٹ) کم کی۔
اس کے بعد سنہ 2020 میں چین اور نیپال کی ٹیموں نے مشترکہ طور پر ایک نئی سرکاری طور پر قبول شدہ اونچائی پر اتفاق کیا جو سروے آف انڈیا کے اصل حساب سے 0.86 میٹر (2.8 فٹ) زیادہ تھی۔
اگرچہ پہلے سے پیمائش شدہ اونچائی میں یہ تبدیلیاں سروے کرنے والوں کے لیے دستیاب ٹیکنالوجی میں بہتری کی وجہ سے ہیں، لیکن اس میں سیاست کا بھی عمل دخل ہے۔
ایک لمبے عرصے سے چین اور نیپال اس پر بحث کرتے آئے ہیں کہ آیا سمٹ پر برف کی ٹوپی کو پیمائش میں شامل کیا جانا چاہیے یا نہیں۔
لیکن ہمیں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہر سال ایورسٹ کی اونچائی میں تھوڑا سا اضافہ ہو جاتا ہے۔
کسی زمانے میں ایورسٹ کی چونا پتھر پر مشتمل چوٹیاں سمندر کی تہہ پر تھیں مگر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ سب تقریباً 200 ملین سال پہلے تبدیل ہونا شروع ہوا جس وقت جراسک ڈائنوسار سامنے آنا شروع ہوئے اور جب پینجیا کا سپر براعظم ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔
انڈیا کا براعظم آخرکار آزاد ہو گیا اور 150 ملین سال تک بحر طیطس کے وسیع حصے میں شمال کی طرف سفر کرتا رہا یہاں تک کہ تقریباً 45 ملین سال پہلے یہ ایک ساتھی براعظم جسے اب ہم ایشیا کے نام سے جانتے ہیں، سے جا کر ٹکرایا۔
ایک براعظم کی دوسرے میں جا کر ٹکرانے کی وجہ سے بحر طیطس کے نیچے موجود سمندری پرت کی بنی پلیٹس، یوریشین پلیٹ کے نیچے کھسک گئیں۔ اس کے نتیجے میں سبڈکشن زون تخلیق ہوا۔
اس کے بعد سمندری پلیٹ زمین کے پردے میں مزید گہرائی میں پھسلتی گئی، اور اس عمل کے دوران چونے کا پتھر کھرچتا چلا گیا یہاں تک کہ انڈین اور یوریشین پلیٹیں ایک ساتھ سکڑنا شروع ہو گئیں۔
انڈین پلیٹس نے ایشیا کے نیچے پھسلنا شروع کیا، لیکن چونکہ یہ سمندری پلیٹ سے زیادہ سخت چیزوں سے بنی ہے اسی لیے یہ صرف اس کے نیچے کھسکی نہیں مگر چونے کے پتھر کی کرسٹ اور ٹکڑوں کو اوپر کی طرف دھکیلتے ہوئے سطح بکھرنے لگی۔
اور اس کے نتیجے میں ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ اوپر اٹھنا شروع ہوا۔ تقریباً 15-17 ملین سال قبل ایورسٹ کی چوٹی کی بلندی 5000 میٹر (16404 فٹ) تک پہنچ چکی تھی اور اس کی بلندی میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔
دو براعظموں کی پلیٹوں کے درمیان ٹکراؤ آج بھی جاری ہے۔ انڈیا سالانہ پانچ سنٹی میٹر (2 انچ) شمال کی جانب سرک رہا ہے جس کی وجہ سے ایورسٹ کی چوٹی کی بلندی میں سالانہ چار ملی میٹر (0.16 انچ) اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم ہمالیہ کے دوسرے حصے سالانہ 10 ملی میٹر (0.4 انچ) بڑھ رہے ہیں۔
لیکن ایورسٹ کی اونچائی کیوں اور کیسے تبدیل ہوتی ہے؟ یہ سمجھنا آسان نہیں۔ جب پلیٹ ٹیکٹونکس چوٹی کو آسمان کی طرف دھکیل رہی ہوتی ہیں، کٹاؤ اسے دور دھکیل رہا ہوتا ہے۔
اس عمل کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے سائنسدانوں نے ماونٹ ایورسٹ سے 8700 میٹر (5405 میل) دور ایک اور چوٹی پر تحقیق کی۔
ریچل ہیڈلی یونیورسٹی آف ونکانسن پارک سائیڈ میں جیو سائنسز کی ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ 2005-2008 کے درمیان الاسکا اور کینیڈا کی سرحد پر ماؤنٹ سینٹ ایلیس پر جانے والی سائنسی مہم کا حصہ تھیں۔
اس مشن کا مقصد ٹیکٹونکس اور کٹاؤ کے پیچیدہ عمل کو سمجھنا تھا کہ پہاڑ کیسے بڑھتے اور سکڑتے ہیں۔
کینیڈا اور امریکہ دونوں میں دوسرے سب سے بڑے پہاڑ سینٹ ایلیس کو بھی ٹیکٹونک کے عمل سے کٹاؤ تک ایورسٹ جیسے ہی اثرات کا سامنا ہے لیکن یہ ایک ایسے علاقے میں واقع ہے جو نسبتاً چھوٹا ہے اور یہاں بہتر انداز میں انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔
ہیڈلی کا کہنا ہے کہ ’اس خطے الاسکا میں موسم میں اس انداز سے تبدیلیاں آتی ہیں کہ ان سے بڑے گلیشیئرز کو بڑھنے میں مدد ملی تھی۔ اور پھر گلیشیئر اور دریا، لینڈ سلائیڈنگ اور برفانی تودے یہ تمام طرح کے عمل مل کر کٹائی پر اثر انداز ہو رہے تھے۔‘
ٹیم میں ہیڈلی کا کردار سینٹ ایلیس پہاڑوں سے گزرنے والے سٹیورڈ گلیشیئر کی موٹائی کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ یہ جاننا تھا کہ یہ کتنی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
یہ دونوں کٹاؤ کی شرح کو متاثر کر سکتے ہیں جو نتیجتاً پہاڑ کی اونچائی روکنے پر اثر انداز ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’اگر ہمارے پاس ایک پتلا گلیشیئر ہے اور یہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ پسلنے کا عمل جاری ہے جو ہمارے خیال میں کٹاؤ کے لیے واقعی اہم ہے۔‘
’سلائیڈنگ‘ برف کو کھرچنے کا سبب بن سکتی ہے اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب گلیشیئر چٹان کے ٹکڑوں کے پاس سے گزرتے ہوئے پوری سطح پر گھسیٹتا ہے جس سے ریگمار جیسا اثر ہوتا ہے۔‘
ایک پہاڑ کے کٹاؤ میں موسم کا بھی کافی عمل دخل ہو سکتا ہے۔
ایلمور نے سنہ 2019 میں ماؤنٹ ایورسٹ پر جس موسمیاتی سٹیشن کو لگانے میں مدد فراہم کی تھی اسے کرکٹ کی گیند کے سائز کے گرتے ہوئے پتھروں سے کافی نقصان پہنچا۔ ان پتھروں کے گرنے میں ہوا کا عمل دخل تھا جس نے انھیں اپنی جگہ سے اٹھا کر موسمیاتی سٹیشن پر پھینکا۔ ہوا جن پتھروں اور برف کو اٹھا کر پھینکتی ہے اس کا اثر کچھ عرصے سامنے آتا ہے۔
دنیا میں باقی بلند چوٹیاں بھی ایورسٹ کی طرح مستقل طور پر برف کی چادر سے ڈھکی ہوئی ہیں جو انھیں اس ہوا کے خلاف بند باندھنے میں مدد دیتی ہے۔
ہیڈلی کا کہنا ہے کہ برف کی نرم چادر میں ڈھکی ہوئی چٹان دوسری چٹانوں کی نسبت کم موسمی اثرات اور کٹاؤ کا شکار ہوتی ہے۔
یہ چٹان کو ہوا کے ساتھ کیمیائی عوامل سے بھی بچاتی ہے جو چونا پتھر میں موجود معدنیات کو آہستہ آہستہ ختم کر سکتے ہیں۔ یاد رہے ایورسٹ کا اوپری حصہ ان چونا پتھروں اور معدنیات پر مشتمل ہے۔ لیکن اب بھی اس چوٹی پر کئی ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں چٹان ان اثرات کے سامنے بے بس ہے۔
ایلمور کا کہنا ہے کہ ’ایک اونچے پہاڑی سلسلے میں آپ چٹان میں ایک ایسے بڑے زاویے پر پہنچ سکتے ہیں کہ وہ تازہ گرنے والی برف اور جمی ہوئی برف پر آپ کو سہارا نہیں دے سکتا، اور پھر آپ پر برفانی تودے گرنے لگتے ہیں اور آپ کو ایسی چٹان پر پہنچتے ہیں جہاں کسی قسم کی برف کی چادر نہیں ہوتی۔‘
ایلمور کہتی ہیں کہ چٹانوں کا گرنا اور لینڈ سلائیڈز، ایورسٹ اور اس کے آس پاس کے علاقے پر ایک مستقل خطرہ ہیں اور یہ دونوں ایورسٹ کی بلندی اور دریاؤں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق یہ ایک سال میں 4-8 ملی میٹر (0.2-0.3 انچ( کی شرح سے چٹانوں میں دراڑیں ڈال رہے ہیں۔
لیکن پہاڑ کی اونچائی پر کٹاؤ کے درست اثرات کو سمجھنا اتنا بھی آسان نہیں۔
کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ پہاڑ کی چوٹی پر سے تازہ، جمی ہوئی برف اور جن چٹانوں سے یہ مل کر بنا ہے، وہ سب ہٹا کر اس کا وزن کم کرنے سے درحقیقت ٹیکٹونک پلیٹوں کو ہلکے پہاڑوں کو آسمان کی طرف مزید دھکیلنے کا موقع مل سکتا ہے۔
ہیڈلی کے ساتھی ٹیری پاولیس جنھوں نے سینٹ ایلیس ایروشن ٹیکٹونکس پروجیکٹ (سٹیپ) کی تحقیق میں اہم کردار ادا کیا، وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’زمین پر بڑے پیمانے پر حملہ کرنے والا کٹاؤ اسے اوپر کی جانب ابھار دیتا ہے۔‘
دنیا کے کچھ حصوں میں آخری برفانی دور کے بعد بھی پورے رقبے پر کھیتوں میں تبدیلی کا عمل جاری ہے جسے آئیسوسٹیٹک ریباؤنڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شمالی امریکہ اور سکاٹ لینڈ سمیت شمالی یورپ کے کچھ حصے برف کی چادر سے ٹکرانے کے بعد دوبارہ اوپر کو ابھر رہے ہیں۔
جرمنی کی پوسٹ ڈیم یونیورسٹی کے محققین کی ایک تحقیق کے مطابق یورپ کے الپس میں 90 فیصد تک تبدیلی کی وضاحت برفانی دور کے اختتام پر اس حیرت انگیز ردعمل سے کی جا سکتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ تبت کی سطح مرتفع اور ہمالیہ میں برفانی دور کے گلیشیئرز کے کم ہونے کے ساتھ ہی اسی طرح کے برفانی آئسوسٹیٹک ریباؤنڈ ہوئے ہوں گے جو زمین کے ابھار میں سالانہ 1-4 ملی میٹر (0.04-0.16 انچ) تک حصہ ڈال رہے ہیں۔
پاولیس کا مزید کہنا ہے کہ ’زمین کی تزئین میں کتنی خرابی آ سکتی ہے اور چوٹیوں کی لمبائی میں مزید کتنا اضافہ ہو سکتا ہے، اس میں کچھ حد تک توازن موجود ہے۔‘
اس توازن کی درست تفصیلات ابھی تک تلاش کی جا رہی ہیں۔ ہیڈلی کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی شمالی امریکہ کے اپالاچین جیسے خطے میں یا سکاٹش ہائی لینڈز، دریا اور لینڈ سلائیڈز جیسی کٹاؤ والی قوتیں پہاڑوں کو نیچے سے کاٹ رہی ہیں۔
’لیکن ٹیکٹونک سرگرمی والے علاقوں میں ٹیکٹونک قوت پہاڑوں کو آہستہ، تیز، یا تقریباً اسی رفتار سے اوپر لے جا سکتی ہے جس طرح کٹاؤ اسے کاٹ رہا ہے۔ ہم اس قسم کے سسٹمز کے تمام محرکات کو پوری طرح نہیں سمجھ پائے۔‘
تو آج کل پہاڑوں کی پیمائش کیسے کی جاتی ہے؟ سب سے زیادہ استعمال ہونے والے آلات میں سے ایک گلوبل نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم (جی این ایس ایس) ہے جو سیٹلائٹ کے نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی کی درست پوزیشن کو ریکارڈ کرتا ہے۔
پاولیس کے مطابق جی این ایس ایس ملی میٹر تک اونچائی کی پیمائش کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایورسٹ جیسے پہاڑ کی پیمائش میں سب سے بڑا چیلنج ہمیشہ سے سامان کا وزن رہا ہے۔ چوٹی تک پہنچنا پہلے ہی کافی مشکل ہے اب آپ 30 پاؤنڈ کے آلات اٹھا کا چوٹی تک جانے کا تصور کریں۔‘
بھاری سامان کے ساتھ اوپر تک ہیلی کاپٹر ٹیکسی کے ساتھ جانے کا سوال ہی نہیں ہے۔ ایورسٹ کی چوٹی کے گرد چلنے والی ہواؤں کے باعث ہیلی کاپٹر کی محفوظ پرواز ممکن نہیں ہے۔
تیز ہواؤں اور دھندلی چٹانوں کے باعث چوٹی کے قریب کسی بھی جگہ پر لینڈنگ بھی خطرے سے خالی نہیں۔ ایک ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے 2005 میں ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کو مختصر طور پر چھو کر عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا لیکن یہ صرف تبھی ممکن ہوا تھا جب ہیلی کاپٹر بنانے والوں نے اس میں سے ہر غیر ضروری چیز ہٹا لی تھی تاکہ اس کے پر ہلکا محسوس کر سکیں۔
خوش قسمتی سے نئی ٹیکنالوجی کے باعث جی این ایس ایس سسٹمز اب بہت چھوٹے ہو گئے ہیں۔ پاولیس کا کہنا ہے کہ اب ان کا وزن 1.2 کلوگرام (2.6 پونڈ) ہے اور یہ لنچ باکس کے سائز سے شاید ذرا سے چھوٹے ہیں۔
لیکن ان آلات کو چلانے کے لیے بیٹریوں کی ضرورت پڑتی ہے جنھیں سرد درجہ حرارت میں چلانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ موسم گرما میں مون سون کے مہینوں میں ایورسٹ کی چوٹی پر اوسط درجہ حرارت منفی 19 سنٹی گریڈ ہوتا ہے اور اس کے علاوہ دیگر مسائل بھی ہیں۔
پاولیس کا کہنا ہے کہ ’ایک اینٹینا ہے جس کا قطر آدھا میٹر ہے اور اسے اس طرح سیٹ کرنا ہوگا تاکہ وہ بالکل ساکن ہو سکے۔‘
ملی میٹر تک درست نتائج حاصل کرنے کے لیے آلے کو کئی گھنٹے تک ریکارڈ کرنا پڑتا ہے۔ ایورسٹ کے ’ڈیتھ زون‘ کی ہوا میں ان آلات کو چلانا سروے کرنے والوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ 2019 میں ایورسٹ پر جی این ایس ایس کی پیمائش کرنے والے نیپالی مہم کے ارکان نے چوٹی پر صبح تین بجے سخت سردی اور اندھیرے میں پہنچنے کے بعد وہاں دو گھنٹے گزارے جو اس مقام سے گزرنے والے اکثر لوگوں سے کہیں زیادہ وقت تھا۔
جی این ایس ایس کے ساتھ ساتھ درست پیمائش کے لیے ایک اور طریقہ کار جو استمعال کیا جاتا ہے وہ ہے گراؤنڈ پینیٹریٹنگ ریڈار (جی پی آر)۔
ایلمور کہتی ہیں کہ ’جی پی آر سطح کے نیچے کی تصویر بنانے کے لیے ریڈار کی لہروں کا استعمال کرتا ہے، اس لیے یہ ہمیں ایورسٹ کی چوٹی پر چٹانوں پر برف اور برف کی موٹائی اور اندرونی ساخت بتا سکتا ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پرچار میٹر (13 فٹ) تک برف اور برف جیسی کسی چیز کی تہہ ہے، لیکن یہ آب و ہوا کے لحاظ سے تبدیل ہو سکتی ہے۔‘
ایلمور اور ان کی ٹیم نے ایک نیپالی ٹیم کو اپنا جی پی آر ڈیوائس دیا تا کہ ایورسٹ کی چوٹی پر برف کی پیمائش کی جا سکے۔
ایلمور کہتی ہیں کہ ’یہ ضروری تھا کہ اس کام کے لیے ایک مخصوص بہت ہی ہلکا جی پی آر ہو جس کو ایورسٹ کی چوٹی تک لے جایا بھی جا سکے اور جس میں برف کی پیمائش کے لیے درست ٹرانسمیٹر اور ریسیور بھی ہو۔‘
اس سے پہلے اس جی پی آر ڈیوائس کو امریکہ کی بلند ترین چوٹی ڈینالی پر بھی استعمال کیا جا چکا تھا اس لیے ان کو معلوم تھا کہ یہ ٹھیک کام کرے گا۔
تمام تر مشکلات کے باوجود نیپالی ٹیم نے اپنا کام کامیابی سے کر لیا۔ ان کو اس بات کی امید تھی کہ ان کو اس سوال کا جواب ملے گا کہ آیا اپریل 2015 میں نیپال میں آنے والے زلزلے نے مائنٹ ایورسٹ کی چوٹی کی بلندی پر بھی کوئی اثر ڈالا۔
ابتدائی رپورٹس سے معلوم ہوا کہ پہاڑ کی چوٹی اس زلزلے کے بعد، جس میں 9000 لوگ ہلاک اور سینکڑوں گھر تباہ ہوئے تھے، ایورسٹ کی چوٹی جنوب مغرب کی جانب تقریباً تین سینٹی میٹر کھسک چکی تھی لیکن اس کی بلندی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
چند ماہ بعد ایک چینی ٹیم نے پہاڑ کی دوسری سمت پر اپنی پیمائش کی جس میں پہاڑ کی برف کیپ شامل نہیں کی گئی تھی جب کہ نیپالی ٹیم نے اسے شامل کیا تھا۔
اکتوبر 2019 میں دونوں ممالک نے اپنا ڈیٹا اکھٹا کیا جسے دسمبر 2020 میں جاری کیا گیا جس کے مطابق پہاڑ کی نئی بلندی 8848 عشاریہ 86 میٹر یعنی 20،032 فٹ تھی جس میں پہاڑ پر پڑی برف شامل کی گئی تھی۔
چین اور نیپال کو معلوم ہوا کہ یہ طے کرنا کہ کس چیز کی پیمائش کی جا رہی ہے اور اس کا طریقہ کیا ہے، یہ جاننے کے لیے نہایت اہم ہے کہ پہاڑ کی بلندی کتنی ہے۔ مثال کے طور پر اس بات پر اتفاق کرنے کے لیے کہ پہاڑ کی بلندی کتنی ہے، پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ پہاڑ کہاں سے شروع ہو رہا ہے۔ یہ اتنا آسان نہیں جتنا لگتا ہے۔
صدیوں سے پہاڑ کی پیمائش سمندر کی سطح سے کی جاتی ہے۔ لیکن زمین بلکل گول نہیں بلکہ خط استوا کے قریب ابھری ہوئی ہے۔ اور سمندر کی سطح بھی ایک جیسی نہیں رہتی۔ زمین کی کشش ثقل اسے کھینچتی اور تبدیل کرتی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ ماوئنٹ ایورسٹ کسی سمندر سے نہیں نکل رہی، بلکہ دوسری پہاڑوں کے بیچ موجود ہے۔ اس لیے یہ طے کرنا کہ ماوئنٹ ایورسٹ کی نسبت سمندر کی سطح کہاں ہے، طے کرنے کے لیے بہت پیچیدہ حساب کتاب کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر پہاڑ کا نکتہ آغاز بدل جائے، تو سب کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔
لیکن فرض کر لیتے ہیں کہ سائنسدان اپنی پیمائش کا آغاز زمین کے مرکز سے کرتے ہیں۔ اس حساب سے ایورسٹ دنیا کی بلند ترین چوٹی نہیں تصور ہو گی۔ جو پہاڑ زمین کے مرکز سے چوٹی تک طویل ترین فاصلہ رکھتا ہے وہ ایکواڈور کا چمبرازو پہاڑ ہے جو 10،920 میٹر ہے۔ اور اگر سمندر کی تہہ کو بنیاد بنا لیا جائے تو پھر ہوائی کا موناکیا آتش فشاں سب سے بلند ہو گا جو اس پیمانے کے حساب سے 10،000 میٹر ہے۔
اگر اپنے سیارے سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ پہاڑ کس قدر قوی ہیکل ہو سکتے ہیں۔ مریخ پر موجود اولمپس مونس آتش فشاں پہاڑ فضا میں 21 کلومیٹر بلند اور 624 کلومیٹر طویل ہے۔ یعنی یہ امریکہ کی ریاست ایریزونا جتنا ہے۔
مریخ پر کشش ثقل زمین کی نسبت کمزور ہونے اور رگڑ کھاتی ٹیکٹونکس پلیٹس کی عدم موجودگی کی وجہ سے مریخ کے اس آتش فشاں سے نکلنے والا لاوا بعض اوقات خوفناک حد تک بڑھ بھی جاتا ہے۔
کیا ایورسٹ بھی ایک دیو ہیکل پہاڑ بن سکتا ہے؟ 1980 میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی کیوینڈش لیبارٹری میں کشش ثقل کی طاقت اور پہاڑ کی تہہ میں موجود پتھروں کی مضبوطی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کیا زمین پر کوئی حد ہے۔ اس تجربے کے نتائج کے مطابق ماوئنٹ ایورسٹ جیسے پہاڑ کی زمین پر فرضی لمبائی 45 کلومیٹر ہو سکتی ہے۔
لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ زمین کے تیزی سے تبدیل ہوتے موسم کے علاوہ کئی اور رکاوٹیں بھی ہیں۔ ہیڈلی کے مطابق ’آخر کار ٹیکٹانک قوت ختم ہو جائے گی جس سے بڑھاو بھی رک جائے گا۔‘
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ زمین کی چادر اتنی ٹھنڈی ہو جائے گی کہ ٹیکٹانک پلیٹس بھی رک جائیں گی۔ اس وقت تک زلزلے اور لینڈ سلائیڈز بھی پہاڑ کو کاٹتے رہیں گے۔
ایلمور کا کہنا ہے کہ ایک وقت پر پہاڑ کی ڈھلوان ایسی ہو جائے گی کہ یہ غیر مستحکم ہو جائے گا اور اس کے ٹکڑے الگ ہو کر گرنا شروع کر دیں گے۔
تیز ہوا اور برف سے پتھر میں پڑتی دراڑوں کی وجہ سے ایورسٹ کبھی بھی مریخ پر موجود پہاڑ جتنا بلند نہیں ہو پائے گا۔ ہیڈلی کا کہنا ہے کہ ’ہمارا اپنا موسمی نظام ہے جو کٹاؤ کی طاقت پیدا کرنے میں ماہر ہے۔ کیوں کہ ہمارے پاس پانی ہے، جو برف کی شکل میں بھی موجود ہے، پہاڑ کی چوٹی کی بلندی رک جاتی ہے۔‘
فی الحال تھوڑا تھوڑا ہی صحیح، ایورسٹ کا پہاڑ تمام تر قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آسمان کی بلندی کی طرف گامزن ہے۔ ایلمور کی ٹیم نے 2019 میں دریافت کیا تھا کہ موسمی تغیر اور گلوبل وارمنگ (عالمی درجہ حرارت میں اضافہ) کی وجہ سے پہاڑ کی چوٹی پر پڑی برف کی تہہ کم ہوتی جا رہی ہے اور زیادہ سے زیادہ پتھریلی سطح نمایاں ہو رہی ہے۔
ایورسٹ زمین پر تیز ترین بڑھنے والا پہاڑ نہیں ہے۔ سوئس ایلپس میں موجود پہاڑ بھی تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں۔ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ ان پہاڑوں میں پچاس فیصد تیز اضافہ ہوا رہا ہے۔ لیکن سوئس ایلپس ماوئنٹ ایورسٹ سے کہیں چھوٹے ہیں۔ تحقیقات کے مطابق یہ پہاڑ سالانہ دو سے دو عشاریہ پانچ ملی میٹر کے تناسب سے بڑھ رہے ہیں۔
اس لسٹ میں پہلی جگہ کے لیے نانگا پربت بھی مقابلے میں ہے۔ یہ ایورسٹ کا ہمسایہ پہاڑ ہے جو پاکستان کے ہمالیہ سلسلے کا حصہ ہے اور 8،126 میٹر بلند ہے۔ نانگا پربت سالانہ سات ملی میٹر کے حساب سے بڑھ رہا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اگر اسی رفتار سے نانگا پربت بڑھتا گیا اور موسی تغیر کے اثرات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو 241،000 سال بعد یہ پہاڑ ماوئنٹ ایورسٹ کو بلندی میں پیچھے چھوڑ جائے گا۔
فی الحال مائنٹ ایورسٹ زمین پر موجود ایک ایسا پہاڑ ہے جو اپنے اندر دریافت اور برداشت کرنے کا سبق رکھتا ہے۔ زمین کی بلند ترین چوٹی ہونے کے باعث کوہ پیما اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔
ایک ویڈیو کال پر میں نے کوہ پیما صحافی بلی بیرلنگ، جس نے 2009 میں ایورسٹ کو سر کیا تھا، سے سوال کیا کہ کیا ان جیسے لوگوں کو ایک اضافی ملی میٹر، میٹر یا میل سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ اس وقت وہ مارچ میں موسم گرما کے سیزن میں نیپال واپسی سے قبل جرمنی میں اپنی والدہ کے گھر پر ایک صوفے پر آرام کر رہی تھیں۔
انھوں نے میرے سوال ہر ہنستے ہوئے کہا کہ ’بلکل درست پیمائش سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ بلند ترین ہے اور آپ دنیا کے بلند ترین مقام تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کا کوئی دن بہت برا گزر رہا ہو، یا کوئی آپ سے برے طریقے سے پیش آئے، تو آپ خود سے کہہ سکتے ہیں کہ جانتے ہو کہ میں نے ایورسٹ کو سر کیا ہے۔‘
ایورسٹ کے سمٹ تک رسائی حاصل کرنے والوں کے لیے اس مقام تک پہنچنا ہی کامیابی ہے۔