لکی ون شاپنگ مال میں نوجوان کی خودکشی دلخراش مواد اب تک سوشل میڈیا پر گردش کیوں کر رہا ہے؟
کراچی کے ایک معروف شاپنگ مال میں منگل کی دوپہر معمول کی سرگرمیاں جاری تھیں۔ گراؤنڈ فلور پر ایک سیلز گرل چلڈرن ایریا میں چکر لگا رہی تھی اور دو نوجوان سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔
اسی دوران اوپر سے ایک نوجوان منھ کے بل زمین پر گرتا ہے اور زمین پر ہر حجہ خون پھیل جاتا ہے۔ وہاں موجود تمام افراد اس کی طرف بڑھتے ہیں اور اس کے اردگرد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
پھر شاپنگ مال کا عملہ اور دیگر لوگ اسے اٹھاتے ہیں اور اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ نوجوان ہسپتال پہنچنے تک جانبر نہیں ہوپاتا اور وفات پا جاتا ہے۔
یہ واقعہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت میں راشد منہاس روڈ پر واقع لکی ون شاپنگ مال میں پیش آیا جہاں پولیس کی ابتدائی معلومات کے مطابق 28 سالہ زوہیر ولد ہاشم نے تیسری منزل سے چھلانگ لگا کر اپنی جان لے لی۔
اس واقعے کی دردناک ویڈیوز گذشتہ روز سے سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعے شیئر کی جا رہی ہے تاہم پاکستانی حکام کی جانب سے اب تک اس ویڈیو کو ہٹانے سے متعلق کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آئے کیونکہ یہ اب بھی ٹوئٹر اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز پر موجود ہے۔
ادھر آن لائن مواد کے نگراں ادارے پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو ان کے علم میں ہے اور وہ اسے ’دیکھ رہے ہیں‘ اور قانون کے مطابق متعلقہ حکام کو کارروائی کا کہا ہے۔
’زوہیر بے روزگاری سے پریشان تھا‘
کراچی کے علاقے انچولی کے رہائشی زوہیر کے تین بھائی اور ایک بہن ہیں جبکہ ان کے والد کی پندرہ سال قبل وفات ہوگئی تھی۔ والدہ ٹیچر ہیں جنھوں نے ان کی پروش کی۔
ان کے چھوٹے بھائی نے فلاحی ادارے جے ڈی سی فاؤنڈیشن کے سربراہ ظفر عباس کو بتایا ہے کہ زوبیر ریاضی میں گریجویٹ تھے۔ ان کے تین بھائیوں کے پاس ملازمت نہیں تھی مگر وہ خود انٹرینٹ کے ذریعے کام کرتے تھے اور بمشکل سے ماہانہ پانچ ہزار روپے کے قریب کما پاتے تھے۔
زوہیر کے ایک قریبی دوست کمیل نے نامہ نگار ریاض سہیل کو بتایا کہ 15 روز قبل ان کی ملازمت چلی گئی تھی۔ تاہم یہ نوکری کیا تھی انھیں اس کا علم نہیں۔
پولیس کے مطابق 28 سالہ زوہیر ڈپریشن کے شکار تھے اور انھوں نے بیروزگاری و گھریلو مسائل کی وجہ سے خودکشی کی۔ ایس ایچ او ایف بی انڈسٹریل ایریا جمیل عباسی نے بتایا کہ سوگوار خاندان ابھی کفن دفن میں مصروف ہے، اس لیے بعد ان کے بیانات لیے جائیں گے۔
کمیل کا بھی یہی کہنا ہے کہ زوہیر ڈپریشن کے شکار تھے اور زیر علاج بھی تھے۔ ‘وہ بیروزگاری کی وجہ سے پریشان رہتا تھا۔‘
زوہیر لکی ون مال کیوں گئے؟
مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ زوہیر اس شاپنگ مال میں ایک نوکری کے لیے انٹرویو دینے گئے تھے۔
تاہم لکی ون مال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ زوہیر وہاں بطور کسٹمر آئے تھے۔ واقعے پر جاری ہونے والے ایک بیان میں مال انتظامیہ نے زوہیر کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی کیا مگر کہا ہے کہ ’لکی ون مال، اس کا عملہ یا کرایہ دار ان کے اعمال کے ذمہ دار یا اس میں ملوث نہیں تھے۔‘
شاپنگ مال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’فوراً قریبی ہسپتال پہنچایا اور پولیس کی اطلاع دی جو اب کیس کی تحقیقات کر رہی ہے۔‘
جب یہ سوال کمیل کے سامنے رکھا گیا تو انھوں نے کہا کہ انھیں ’ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ وہ لکی ون مال کیوں گئے تھے۔‘
خودکشی کی یہ ویڈیو اب تک انٹرنیٹ پر کیوں موجود ہے؟
اس واقعے کو پیش آئے 24 گھنٹے سے زیادہ ہو چکے ہیں اور تقریباً اتنی ہی دیر سے ان کے آخری لمحات کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر موجود ہے۔
حکام کی جانب سے اب تک اسے کیوں نہیں ہٹایا جاسکا، یہ پوچھنے کے لیے جب پی ٹی اے کے ترجمان خرم علی مہران سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس پی ٹی اے کے علم میں ہے اور اسے دیکھا جا رہا ہے۔ ’ایسا نہیں ہوسکتا کہ بٹن دبائیں اور مواد ختم ہوجائے۔‘
خیال رہے کہ سائبر کرائم قانوان (پیکا) ایکٹ کی شق 37 کے تحت قابل اعتراض آن لائن مواد ہٹانے کی ذمہ داری پی ٹی اے کے پاس ہے۔
ترجمان پی ٹی اے نے بی بی سی کے عماد خالق کو بتایا ’سیلف ہارم‘ یا خودکشی سے متعلق مواد شق 37 کی فہرست میں شامل نہیں لیکن پی ٹی اے اسے پبلک آرڈر کے دائرے میں لا کر اس کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے۔ ’کوئی بھی ایسا مواد جو معاشرے کے لیے نقصان کا باعث ہو اس کو ہٹانے کے اختیار موجود ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ مواد کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم، جیسے فیس بک اور ٹوئٹر، پر موجود ہے تو اس حوالے سے متعلقہ کمپنیوں کو لکھا جائے گا۔
’آن لائن مواد کو ہٹانے کے لیے پی ٹی اے خود بھی کارروائی کر سکتا ہے، اگر اس کے علم میں ایسی کوئی چیز آ جائے یا کسی ادارے، صارف یا عوام کی جانب سے شکایات پر بھی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔‘
یاد رہے کہ ٹوئٹر اور فیس بُک دونوں کی کمیونٹی گائیڈلائنز کے مطابق سیلف ہارم یا خودکشی کی ویڈیوز شیئر کرنا منع ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں ان ویڈیو کو ہٹایا جاسکتا ہے اور اکاؤنٹ کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے صارفین آن لائن مواد کو رپورٹ کرسکتے ہیں۔
ٹوئٹر نے متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسے مواد پر اکاؤنٹ عارضی یا مستقبل طور پر بند کر سکتا ہے۔
’ویڈیو شیئر کرنے کے بجائے اس خاندان کے لیے دعا کریں‘
شاپنگ مال میں اس واقعے کی ویڈیو اور اس کا خوفناک منظر یوں مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر کیسے آیا، یہ موضوع سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔
صارف ثنا سلیمان لکھتی ہیں ’ویڈیو کا لیک ہونا افسوس ناک ہے۔‘
لوگوں کی بڑی تعداد نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ اس ویڈیو کو شیئر کرنے سے مرنے والے کے اہل خانہ کو دُکھ پہنچ سکتا ہے جبکہ اس سے ذہنی دباؤ کا شکار افراد بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔
سوشل میڈیا صارف فضیلت زہرہ نے فیس بُک پر اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ واقعے کی ویڈیو اس طرح لیک نہیں ہونی چاہیے تھی۔ ’لوگ مختلف زاویوں سے سی سی ٹی وی فوٹیج بھیج رہے ہیں جیسے وہ اس کا فرانزک کر رہے ہوں۔۔۔ یہ ویڈیوز اس قدر پریشان کن ہیں مگر لوگ پھر بھی انھیں شیئر کر رہے ہیں۔‘
صارف فاطمہ نے سب سے مطالبہ کیا ہے کہ خودکشی کی یہ ویڈیو مزید شیئر نہیں کی جانی چاہیے اور اسے فوری طور پر سوشل میڈیا سے حذف کیا جانا چاہیے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ویڈیو شیئر کرنے کی بجائے جانے والے اور اس کے خاندان کے لیے دعا کریں۔