لداخ سرحدی کشیدگی چین نے گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپ میں اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق آٹھ ماہ بعد کیوں کی؟
چین نے جمعہ کو آٹھ ماہ کے بعد یہ اعتراف کیا کہ گذشتہ سال جون میں وادی گلوان میں انڈین فوجیوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپ میں اس کے فوجی بھی مارے گئے تھے۔
چینی فوج پیپلز لبریشن آرمی نے کہا ہے کہ گلوان میں مجموعی طور پران کے چار فوجی مارے گئے۔ اس تنازعے میں انڈیا کے 20 فوجی مارے گئے تھے۔ لیکن اس وقت چین نے اپنے فوجیوں کی ہلاکت کو عوامی طور پر قبول نہیں کیا تھا۔
جمعہ کے روز چین نے 21 جون کو وادی گلوان میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کی کچھ ویڈیو فوٹیج بھی جاری کی ہے۔
ایسے میں یہ سوالات اٹھ ہو رہے ہیں کہ جب دونوں ممالک کے فوجی متنازع علاقوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں تو چین نے اچانک اپنے فوجیوں کی ہلاکت کے معاملے کو کیوں عام کیا؟ جمعہ کے روز چینی وزارت خارجہ کی باقاعدہ پریس کانفرنس میں یہی سوال وزارت کے ترجمان ہوجن چون ینگ سے پوچھا گیا۔
اس سوال کے جواب میں چینی وزارت خارجہ نے کہا: ‘وزارت دفاع نے سرحد پر ہونے والے تنازعے میں چینی محاذ کے افسران اور فوجیوں کی بہادری کے متعلق سوالات کے جوابات دیئے ہیں۔ پچھلے سال جون میں وادی گلوان میں جھڑپ ہوئی تھی اور دونوں طرف سے جانی نقصان ہوا تھا۔ اس کی پوری ذمہ داری انڈیا پر عائد ہوتی ہے۔ پورے معاملے میں چین نے بڑا ملک ہونے کی حیثیت سے صبر سے کام لیا۔
‘ہم نے سرحد پر کشیدگی کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ تاہم انڈیا نے پورے معاملے کو سنسنی کی طرح پیش کیا اور حقائق سے بالاتر ہو کر بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی سوچ کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ اب پی ایل اے نے پورے معاملے پر حقیقت کو عام کردیا ہے۔ اب لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ بارڈر پر غلطی کس نے کی اور کون صحیح تھا۔ ہمارے فوجیوں نے ملک کی سرحد کے دفاع میں گرانقدر قربانیاں دیں ہیں۔’
اس میں مزید کہا گیا: ‘مجھے اپنے فوجیوں کی بہادری پر فخر ہے۔ شہید فوجیوں کے لیے دل جذباتی ہے۔ چن ہونگجون اگلے چار مہینوں میں باپ بننے والے تھے اور شیاؤ سیون اپنی گرل فرینڈ سے شادی کرنے والے تھے۔ یہ سب کہتے ہوئے میرا دل افسردہ ہے کیونکہ اب ایسا کبھی نہیں ہو پآئے گا۔ انھوں نے اپنے ملک کے دفاع میں اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کی۔ 18 سالہ چن جیانگ رونگ نے جو لکھا ہے وہ میرے دل کے بہت قریب ہے۔ وہ بہت دل چھولینے والا ہے۔ ہم اس کا آسانی سے سامنا نہیں کرسکتے ہیں۔ تمام شہداء ہمارے دل میں بستے ہیں۔ ہم انھیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ مادر وطن انھیں کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ ہمارے شہدا چین کے عوام کے دل میں ہیں۔’
ہو چون ینگ نے کہا؛ ‘میں یہ بات پر زور دے کر کہہ رہی ہوں کہ چین سرحدی تنازعے کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم ہمیشہ ہی سرحد پر امن اور استحکام چاہتے ہیں اور تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں فریق مشترکہ طور پر تنازع حل کریں گے اور باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کی سمت میں بڑھیں گے۔ یہی دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہے۔’
‘اب لوگ آسانی سے صحیح اور غلط کو سمجھ سکیں گے’
ایک اور سوال کے جواب میں ہو چون ینگ نے کہا کہ چین اور انڈیا کے فوجی معاہدے کے مطابق پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا: ‘ہمیں امید ہے کہ یہ عمل بغیر کسی دشواری کے مکمل ہوگا۔’
ہو چون ینگ سے انڈین میڈیا پرسار بھارتی نے پوچھا کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھانا لازمی ہے کہ آخر آٹھ مہینوں کے بعد چین نے اپنے فوجیوں کے نام کیوں ظاہر کیے اور وہ بھی جب دونوں ممالک کے مابین فوجی مذاکرات کا 10 واں دور ہونے والا ہے اور پہلے مرحلے میں فوجیوں کے پیچھے ہٹنے کا کام مکمل ہونے جا رہا ہے۔
اس سوال کے جواب میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا: ‘اس بارے میں وزارت دفاع کے ترجمان نے اپنی بات کہہ دی ہے۔ میں نے ابھی اپنی بات کہی ہے۔ جون میں وادی گلوان میں جو کچھ ہوا وہ بہت افسوسناک تھا اور اس کی جوابدہی انڈیا کی ہے۔ انڈین میڈیا کی جانب اس کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی جا رہی تھی۔ عالمی برادری کو گمراہ کیا گیا۔ اسی لیے ہم نے سچائی کو منظرعام پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اب لوگ آسانی سے صحیح اور غلط کو سمجھنے کے قابل ہوں گے۔’
انڈین خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے ہو چون ینگ سے پوچھا کہ دونوں ممالک کے فوجیوں کا پینگونگ جھیل سے پیچھے ہٹنے کا عمل جاری ہے اور توقع ہے کہ دوسرے علاقوں سے بھی دونوں ممالک کے فوجی پیچھے ہٹیں گے۔ کیا آپ کے خیال میں دونوں ممالک کے فوجی دوسرے علاقوں سے بھی واقعی پیچھے ہٹ جائیں گے اور آٹھ مہینوں سے جاری کشیدگی ختم ہوگی
س سوال کے جواب میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا: ‘دونوں ممالک فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے اپنے فوجیوں کو واپس بلانا شروع کردیا ہے۔ سرحدی تنازعے پر چین کا موقف بالکل واضح ہے۔ انڈیا ہمارا اہم ہمسایہ ہے۔ دونوں ممالک کے مابین اچھے تعلقات دونوں ممالک کے شہریوں کے مفاد میں ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ انڈیا بھی اس نیت سے آگے بڑھے گا۔’
اس سے قبل چینی فوجیوں کی ہلاکتوں کے بارے میں مختلف اعدادوشمار آرہے تھے۔ روسی خبر رساں ایجنسی تاس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ انڈین فوجیوں کے ساتھ تصادم میں 45 چینی فوجی مارے گئے۔ تاس کی اس رپورٹ کا انڈیا میں بہت ذکر ہوا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل جوشی نے بھی اپنے انٹرویو میں اس اعداد و شمار کا ذکر کیا تھا۔
انڈیا کے عسکری امور کے ماہر برہما چیلانی نے کہا ہے کہ چین نے پروپیگنڈے کے تحت گلوان تنازعہ کی منتخب ویڈیو فوٹیج جاری کی ہے۔ برہما چیلانی نے ٹویٹ کیا: ‘چینی کمیونسٹ پارٹی کے پاس دنیا کی سب سے مضبوط پروپیگنڈا مشینری ہے۔ چین نے گلووان تنازعے کے نام سے جو ویڈیوز جاری کی ہے وہ اس تصادم کے بارے میں نہیں ہے۔ اس جھڑپ میں پی ایل اے کے فوجیوں نے گھات لگا کر حملہ کیا اور پھر خاردار تاروں سے لپٹنے راڈ سے حملہ کیا تھا