قصوری صاحب آرام سے بیٹھیں آپ کو بھی سنیں گے‘ بھٹو کی پھانسی پر ریفرنس کی سماعت کا احوال
سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ میں 12 سال کے وقفے سے شروع ہوئی تو کمرۂ نمبر ایک پارٹی رہنماؤں، وکلا اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھر گیا۔
اس صدارتی ریفرنس پر سماعت پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ نے شروع کی۔
سابق صدر آصف علی زرداری بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے جنھوں نے بطور صدر سنہ 2011 میں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں دی جانے والی سزا سے متعلق ریفرنس سپریم کورٹ میں بھیجا تھا۔ ان کے علاوہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔
سب سے اہم بات یہ تھی کہ کمرۂ عدالت میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروانے والے مدعی احمد رضا قصوری بھی موجود تھے حالانکہ سپریم کورٹ نے انھیں عدالت میں پیش ہونے سے متعلق نوٹس جاری نہیں کیا تھا۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم کو احمد رضا قصوری کے والد نواب احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اس مقدمے میں اعانت مجرمانہ کے تحت موت کی سزا سنائی گئی اور پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلے مجرم تھے جنھیں اس دفعہ کے تحت موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک کسی بھی مجرم کو اعانت مجرمانہ کے الزام کو موت کی سزا نہیں سنائی گئی۔
اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران آصف علی زدرای اور بلاول بھٹو کو چیف جسٹس کی سیٹ کے سامنے والی کرسیوں پر بیٹھایا گیا جبکہ ان کے ساتھ سابق وزیر اعظم اور سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف بھی بیٹھے ہوئے تھے۔
اٹارنی جنرل نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزا سے متعلق صدارتی ریفرنس پڑھا اور کہا کہ موجودہ نگراں حکومت اس ریفرنس کو چلانا چاہتی ہے تو اس مقدمے کے مدعی احمد رضا قصوری اپنی نشست سے اٹھ کر روسٹم پر آگئے اور کچھ کہنا چاہتے تھے۔
لیکن بینچ نے انھیں اپنی سیٹ پر بیٹھنے کو کہا۔
پھر کچھ دیر کے بعد احمد رضا قصوری دوبارہ اپنی نشست پر اُٹھے اور بولنے لگے تو عدالت نے انھیں بولنے سے روک دیا۔
تاہم احمد رضا قصوری نے عدالت سے درخواست کی کہ انھیں بھی سنا جائے کیونکہ ’میرا باپ قتل ہوا ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں بھی سنا جائے گا لیکن پہلے وہ اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔
سماعت کے دوران بلاول بھٹو اپنے والد اور سابق صدر آصف علی زرداری کا ہاتھ پکڑ کر روسٹم پر آئے اور اپنے وکیل فاورق ایچ نائیک کے ساتھ کچھ دیر وہاں کھڑا رہنے کے بعد واپس اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سب سے پہلے تو اس ریفرنس پر بارہ سال بعد سماعت ہونے پر معذرت کی اور ساتھ کہا اب روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی۔
اس سماعت کے دوران بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاورق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارا ریفرنس سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے ایک انٹرویو کے گرد ہی گھوم رہا ہے، اس میں قانونی نقطہ کیا ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ عدالت کی طرف سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ اس مقدمے میں مجرم کی طرف سے نظرثانی کی اپیل بھی خارج کی جا چکی ہے اور کوئی بھی ایسی عدالتی نظیر نہیں ہے کہ نظرثانی کی اپیل مسترد ہونے کے بعد اسے دوبارہ سنا جائے۔
عدالت نے جب اس معاملے کو دیکھنے کے لیے عدالتی معاونین مقرر کرنے کا کہا اور عدالتی معاونین میں سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی کا نام لیا گیا۔
مگر احمد رضا قصوری ایک مرتبہ پھر اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے اور انھوں نے وہیں سے ہی رضا ربانی کے نام پر اعتراض کر دیا۔
اس پر بینچ کی طرف سے ایسا تاثر دیا گیا کہ جیسے انھوں نے سنا ہی نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کے مدعی نے عدالت سے استدعا کی کہ اس صدارتی ریفرنس کا فیصلہ ملک میں آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کے بعد کیا جائے کیونکہ احمد رضا قصوری کے بقول انھیں خدشہ ہے کہ اس صدارتی ریفرنس پر آنے والے فیصلے کو الیکشن مہم کے دوران بطور ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں۔
تاہم عدالت نے ان کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔