فوج کے سابق افسر کا جنرل قمر باجوہ کے نام خط ’بیٹے کو رہا نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کا جرم ہی بتا دیں
میری کمسن پوتی نے اپنے باپ کو ہوش سنبھالنے کے بعد نہیں دیکھا صرف اس کی تصویر ہی دیکھی ہے اور اسے بتایا گیا ہے کہ یہ تمہارے والد ہیں جو کمائی کے لیے بیرون ملک گئے ہیں‘۔
یہ کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ میجر محمد صالح کا جنھوں نے برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو لکھے گئے خط میں ان سے اپنے اس بیٹے کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے جس پانچ برس قبل سکیورٹی اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا۔
میجر ریٹائرڈ محمد صالح کا اس خط میں یہ بھی کہنا ہے کہ اگر فوج ان کے بیٹے عبداللہ صالح کو رہا نہیں کر سکتی تو انھیں کم از کم ان کے بیٹے کا جرم ہی بتا دیا جائے۔
ادھر عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ عبداللہ صالح کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات ہیں جس کی وجہ سے انھیں تحویل میں لیا گیا ہے اور حساس معاملات ہونے کی وجہ سے ان الزامات کی تفصیل نہیں بتائی جا سکتی۔
عسکری ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ملزم عبداللہ صالح کے خلاف جو الزامات ہیں ان کے حوالے سے تمام تقاضے پورے کیے گئے ہیں اور ریاست کے قانون کے مطابق اس معاملے سے نمٹا جا رہا ہے۔‘
جنرل قمر جاوید باجوہ کو لکھے گئے خط میں محمد صالح نے اپنے بیٹے کی حراست کی تفصیلات بھی دی ہیں۔
محمد صالح نے آرمی چیف کے نام خط میں لکھا ہے کہ ان کا چھوٹا بیٹا عبداللہ صالح علی جس کی عمر 32 برس کے قریب ہے اور وہ ورچوئل یونیورسٹی راولپنڈی کیمپس کا طالب علم تھا۔ مورخہ 28 اگست سنہ 2016 کو ڈیرہ اسماعیل میں اپنے سسرال والوں سے مل کر راولپنڈی آ رہا تھا جب ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب درہ بند آرمی چیک پوسٹ پر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر اسے گاڑی سے اتار کر حراست میں لے لیا۔
میجر ریٹائرڈ محمد صالح کے مطابق جب انھیں اپنے بیٹے کی حراست کا علم ہوا تو انھوں نے متعلقہ حکام سے ملاقات کی۔ انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ وہاں پر موجود سکیورٹی فورسز کے حکام نے انھیں بتایا کہ ان کے بیٹے کو ملٹری انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل کے حکم پر گرفتار کیا گیا ہے۔
آرمی چیف کو لکھے گئے خط میں، جس کی نقل بی بی سی کے پاس موجود ہے، میجر ریٹائرڈ محمد صالح نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے اس ضمن میں ڈی جی ایم آئی کو چار خطوط لکھے جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا کہ ان کے بیٹے کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے اس کے بارے میں نہ صرف آگاہ کیا جائے بلکہ اس کے خاندان کو ان سے ملنے کی اجازت دی جائے۔
پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ میجر نے آرمی چیف کو لکھے گئے خط میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ڈی جی ایم آئی کو لکھے گئے خطوط کا جواب نہ ملنے پر وہ اُنھیں (آرمی چیف) خط لکھ رہے ہیں۔ اس خط میں یہی مطالبہ دہرایا گیا ہے کہ بتایا جائے کہ ان کے بیٹے کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے زیر حراست بیٹے سے فیملی کی ملاقات کروائی جائے۔
خط میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ عبداللہ صالح کے دو کمسن بچے بھی ہیں۔ محمد صالح نے بی بی سی کو بتایا کہ جس وقت ان کے بیٹے کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت ان کا پوتا تین سال کا جبکہ پوتی چند ماہ کی تھی۔
میجر ریٹائرڈ محمد صالح نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے آرمی چیف کو جو خط لکھا تھا ابھی تک اس کا جواب موصول نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ابھی تک آرمی چیف کی طرف سے جواب کے منتظر ہیں اور انھیں امید ہے کہ ان کے خط کا مثبت انداز میں جواب دیا جائے گا۔
میجر ریٹائرڈ محمد صالح نے کہا کہ ان کی آرٹلری بریگیڈ کے افسران سے جو بات ہوئی تھی اس میں متعلقہ حکام کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو صرف تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے تاہم انھوں نے اس معاملے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ جس پر ان کو انکوائری میں شامل تفتیش کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ چونکہ ملک میں فوجی عدالتیں ختم ہو چکی ہیں اس لیے ان کا بیٹا جلد رہا ہو جائے گا لیکن میجر ریٹائرڈ محمد صالح کے بقول ایسا نہیں ہوا اور ان کا بیٹا ابھی تک سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہے۔
عدالتی کارروائی کا حوالہ
آرمی چیف کو لکھے گئے خط میں میجر ریٹائرڈ محمد صالح نے عدالتی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب متعلقہ حکام کی طرف سے ان کی طرف سے لکھے گئے خطوط کا جواب نہیں دیا گیا تو اس کے بعد انھوں نے انصاف کے حصول کے لیے عدالتی دروازہ کھٹکھٹایا اور لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست دائر کی۔
انھوں نے کہا کہ جب اس درخـواست پر نوٹس جاری کیا گیا تو ملٹری انٹیلیجنس کے ڈائریکٹریٹ نے وزارت دفاع کے توسط سے جواب دیتے ہوئے پہلے تو عبداللہ صالح کی گرفتاری سے انکار کیا اور پھر اس خط کے مطابق متعلقہ حکام نے اس بات کو تسلیم کیا کہ عبداللہ صالح ان کی تحویل میں ہے اور انھیں صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے ماتحت لکی مروت میں قائم حراستی مرکز میں تفتیش کے لیے رکھا ہوا ہے۔
میجر ریٹائرڈ محمد صالح کی طرف سے پشاور ہائی کورٹ میں جو ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ ان کے بیٹے کا گھر والوں کے ساتھ موبائل ٹیکسٹ میسیج پر رابطہ وقوعہ کے روز شام ساڑھے چھ بجے ہوا اور اس کے بعد رابطہ ختم ہو گیا۔
بی بی سی کے پاس موجود اس درخواست میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب عبداللہ صالح گھر نہ پہنچا تو گھر والوں کو تشویش ہوئی اور انھوں نے کوئٹہ میں عبداللہ کے سسر سے رابطہ کیا جس پر انھیں بتایا گیا کہ وہ سدا بہار ٹریولر سے رابطہ کریں جن کی گاڑی میں سوار ہوکر وہ راولپنڈی کے لیے روانہ ہوا تھا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ٹریول ایجنسی کے مالک سے جب رابطہ ہوا تو انھوں نے درخواست گزار کو بتایا کہ ان کا بیٹا کوئٹہ سے دیگر افراد کے ساتھ کار میں سوار ہو کر راولپنڈی کے لیے نکلا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے پاس سکیورٹی فورسز کی داربند چیک پوسٹ پر تعینات سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ان کے بیٹے عبداللہ صالح علی کو گرفتار کر لیا۔
پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اس درخواست میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ درخواست گزار 30 اگست سنہ 2016 کو جب ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا اور 5 آرٹلری بریگیڈ کے متعلقہ افسران سے ملاقات کی تو انھوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو 28 اگست سنہ 2016 کو ملٹری انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ کی ہدایت پر گرفتار کیا گیا ہے اور انھیں گرفتار کرنے کے بعد راولپنڈی منتقل کر دیا گیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں جو درخواست دائر کی گئی تھی اس میں ملٹری انٹیلیجنس ڈاریکٹوریٹ نے پہلے تو عبداللہ صالح کی ملٹری انٹیلیجنس کی تحویل میں ہونے سے انکار کیا تاہم پھر یہ تسلیم کر لیا گیا کہ سابق فوجی میجر کا بیٹا ان کی تحویل میں ہے۔
’بیٹے پر نہ تو کوئی الزام ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی تحقیقات کی جارہی ہیں‘
لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں میجر ریٹائرڈ محمد صالح کی درخواست کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق عدالت عالیہ نے متعلقہ حکام کے اس بیان کے بعد اس درخواست کو یہ کہہ کر نمٹا دیا کہ چونکہ لکی مروت کا علاقہ ان کے دائرہ سماعت میں نہیں آتا اس لیے داد رسی کے لیے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ جب انھوں نے انصاف کے حصول کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس درخواست کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیے کہ عدالت ان حراستی مراکز کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے اور اس کے ساتھ انھوں نے اس سال فروری میں حکام کو حکم دیا کہ زیر حراست عبداللہ صالح کی ان کے اہلخانہ سے ملاقات کروائی جائے۔
میجر ریٹائرڈ محمد صالح نے اس خط میں یہ بھی کہا ہے کہ چار سال اور آٹھ ماہ کے عرصے کے بعد ان کی ملاقات ان کے بیٹے سے کروائی گئی اور خط میں انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دوران ملاقات بھی معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے پر نہ تو کوئی الزام ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
میجر صالح کے مطابق ان کے بیٹے کے خلاف کوئی مقدمہ تک قائم نہیں کیا گیا ہے۔
عدالت میں اپنی درخواست میں انھوں نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے سب سیکشن تین کے تحت کسی سویلین پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا اور بالخصوص ایسے حالات میں جب کسی سویلین پر کوئی اعتراض نہ ہو اور اس کی حراست غیر قانونی تصور کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل آرمی چیف اور کورکمانڈر کو خط لکھنے والے فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل کے بیٹے کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں کورٹ مارشل کر کے پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے اور اطلاعات کے مطابق مجرم اس وقت ساہیوال کی ہائی سکیورٹی جیل میں ہے۔
مجرم کو ساہیوال سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں منتقل کرنے سے متعلق درخواست لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں زیر سماعت ہے اور عدالت نے اس درخواست پر پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کو نوٹس بھی جاری کرر کھا ہے لیکن اس کے بعد یہ درخواست ابھی سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی۔
عدالت کو حراست کا علم ہے تو حراست غیرقانونی کیسے؟
بی بی سی نے جب عبداللہ صالح کے معاملے پر فوج سے رابطہ کیا تو عسکری ذرائع کا کہنا تھا کہ جب اعلیٰ عدالتوں کو مذکورہ شخص کے حراست میں ہونے کا علم ہے تو پھر کیسے اس کی حراست کو غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔
عسکری ذرائع کے مطابق جب پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ میجر کو عدالتوں کی طرف سے ریلیف نہیں ملا تو اس کے بعد اس طرح کے اقدام کرکے سسٹم کو متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ عدالتی حکم پر میجر ریٹائرڈ محمد صالح اور ان کی اہلخانہ کی فوج کے زیر حراست ملزم عبداللہ سے ان کی ملاقات کروائی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ایک ملاقات کرنے کے بعد پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ افسر نے اپنے بیٹے سے ملاقات کرنے کے لیے دورباہ متعلقہ حکام سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی اس ضمن میں ان کی طرف سے کوئی درخواست موصول ہوئی ہے۔
عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کی عدالتیں آزاد ہیں اور فوج کے جیگ برانچ (قانونی امور کا شعبہ) کے سربراہ کو ایک درخواست کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ میں طلب کیا جانا اس کی ایک واضح مثال ہے۔