فوجی بیرک میں بند کر کے ’25 راتوں تک وہ ہر رات میرا ریپ کرتے رہے
پولینا ازتاپہ کے لیے یہ ایک عام اتوار تھا۔
ان کی عمر 19 سال تھی اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ دارالحکومت سے تقریباً 100 کلومیٹر دور گوئٹے مالا کے وسط میں واقع قصبے رابینل کی طرف جا رہی تھیں۔
1983 کی اس خوفناک دوپہر کو یاد کرتے ہوئے جس میں ان کی زندگی بدل گئی، پولینا بی بی سی منڈو کو بتاتی ہیں: ’کچھ لوگ میری والدہ کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کی بیٹی سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘
جن مردوں نے ان سے رابطہ کیا تھا وہ سول سیلف ڈیفنس پٹرولز (PAC) کے ممبر تھے: نیم فوجی گروپ جو گوئٹے مالا کی اس وقت کی فوجی حکومت نے بائیں بازو کے گوریلا گروپوں سے خطرے کے پیشِ نظر اس دلیل کے ساتھ بنائے تھے کہ وہ شہری آبادی کو تشدد کے خلاف ملک کی میونسپلٹیز کے تحفظ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
آج، اس واقعہ کے تقریباً 40 سال بعد، رابینل پی اے سی کے پانچ سابق اراکین کو اس مایا میونسپلٹی کی 36 خواتین کے مبینہ منظم ریپ کے الزام میں تاریخی عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔ پولینا متاثرین میں سے ایک ہیں۔
’تم بعد میں اپنے شوہر سے ملنے جا رہی ہو‘
اس اتوار کی سہ پہر گشت کرنے والے، جنھوں نے یونیفارم نہیں پہن رکھی تھی، پولینا کو علاقے میں فوجی بیرک کی طرف لے گئے۔ وہ وہاں اکیلی عورت نہیں تھیں۔
وہاں پہنچ کر انھوں نے مجھ سے پوچھا ’تمہارا شوہر کہاں ہے؟‘ میں نے کہا کہ میرا شوہر نہیں ہے تو انھوں نے جواب دیا: ’آپ اپنے شوہر سے بعد میں ملیں گی۔‘
خاتون کے مطابق، گشت کرنے والوں نے ان سے مبینہ تعلقات کے بارے میں پوچھ گچھ کی جو ان کے ’جوآن نامی شخص کے ساتھ‘ تھے، لیکن انھوں نے وضاحت کی کہ وہ مجھے کچھ عرصہ قبل چھوڑ چکا ہے۔
شاید یہ وہ جواب نہیں تھا جو گشت کرنے والے سننا چاہتے تھے۔
پولینا کہتی ہیں کہ ان میں سے ایک نے انھیں گردن سے پکڑ کر کہا: ’اب تم ہمیں بتاؤ گی کہ رات کو تمھارے پیچھے کون لوگ آنے والے ہیں۔‘
جنسی تشدد، جنگ کا ہتھیار
رابینل سے تعلق رکھنے والی 29 خواتین کی وکیل لوسیا زیلوج کے مطابق، جنسی تشدد کے واقعات 1981 اور 1985 کے درمیان گوئٹے مالا میں اندرونی مسلح تصادم کے دوران پیش آئے۔
زیلوج کا کہنا ہے کہ ’ان خواتین کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے کر فوجی علاقے میں لے جایا گیا جہاں وہ سرعام اور مسلسل زیادتی کا شکار ہوئیں۔‘
پی اے سی، اس وقت کی فوجی حکومت کی، بائیں بازو کے گوریلوں کو ختم کرنے کی کوششوں کا ایک لازمی حصہ تھے اور جنسی تشدد کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آبادی میں سے کون کس سے تعلق رکھتا ہے۔
اسی وجہ سے متاثرین کے وکلا نے گوئٹے مالا کی ریاست کو ’خواتین کو جنسی تشدد سے پاک زندگی گزارنے کی ضمانت دینے کے وعدے کو پورا کرنے میں ناکامی‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ریاست کو ایک ذمہ دار فریق کے طور پر کیس میں شامل کیا جائے گا یا نہیں۔
ریپ اور جلاوطنی
پولینا کا کہنا ہے کہ 1983 میں اس بدقسمت رات اور اگلی 24 راتوں تک، وہ فوجی علاقے میں رہنے پر مجبور کی گئیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ان راتوں میں سے ہر ایک کے دوران، وہ جنسی تشدد کی دل دہلا دینے والی کارروائیوں کا شکار ہوئی۔
’25 راتوں تک وہ ہر رات میرا ریپ کرتے رہے۔ اور جب میں وہاں سے نکلی تو بہت بیمار اور بری حالت میں تھی۔۔ انھوں نے کہا کہ اگر انھوں نے مجھے کمیونٹی میں دیکھا تو وہ وہیں پر مجھے مار دیں گے۔‘
صورتحال کو دیکھتے ہوئے، پولینا دارالحکومت کے لیے روانہ ہوگئیں۔ اور اگرچہ وہ کچھ عرصے بعد واپس کمیونٹی لوٹ آئیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک تکلیف دہ مرحلہ تھا۔
’میرے لیے یہ بہت مشکل تھا۔ یہ بہت مشکل تھا کیونکہ نہ صرف انھوں نے ریپ کیا بلکہ انھوں نے کئی بچوں کو بھی مار ڈالا۔ انھوں نے ہمارے جانور چرائے، ہمارا گھر جلا دیا۔ میرے پاس صرف پہننے والے کپڑے رہ گئے تھے۔‘
یہی وجہ ہے کہ 5 جنوری کو شروع ہونے والا مقدمہ رابینل کی خواتین کے لیے بہت زیادہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
ستمبر 2021 میں دیے گئے ایک بیان کے مطابق خواتین کا کہنا تھا: ’ربینال، باجا ویراپز میں اندرونی مسلح تصادم کے دوران ہمیں جس ہولناکی کا سامنا کرنا پڑا، ہم 40 سال سے انتظار کر رہی ہیں کہ اس جنسی تشدد کے خلاف ہمیں انصاف ملے۔‘
تاخیر پر تاخیر
گویا 40 سال کا انتظار کافی نہیں تھا، 4 جنوری کو شروع ہونے والی سماعت مزید 24 گھنٹے کے لیے مؤخر کر دی گئی۔
مقدمے کی سماعت میں ایک بار پھر تاخیر کی خبر ملتے ہی متاثرین میں سے کچھ خواتین نے سپریم کورٹ آف جسٹس کے سامنے ماین رسم ادا کی۔
تاہم بدھ، 5 جنوری کو استغاثہ اور وکیلِ دفاع کے بیانات اور مدعا علیہان کے ساتھ ٹیلی کانفرنس کے ذریعے انتظار ختم ہوا۔
اب متاثرین کو امید ہے کہ ان کی کہانی سب تک پہنچ پائے گی اورانھیں انصاف ملے گا۔
کم از کم پولینا کو یہی امید ہے۔
وہ کہتی ہیں ’ہمیں وہ سب کچھ تو واپس نہیں مل پائے گا جو انھوں نے چوری کیا لیکن میں انصاف کی تلاش میں ہوں۔۔۔ انھوں نے جو کیا اس سے مجھے بہت تکلیف پہنچی۔