غیر ملکی کوچز کا حامی ہوں کیونکہ

غیر ملکی کوچز کا حامی ہوں کیونکہ

غیر ملکی کوچز کا حامی ہوں کیونکہ وہ دوستی، یاری اور سفارش پر یقین نہیں رکھتے: نجم سیٹھی

پی سی بی کی 14 رکنی عبوری مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے کہا کہ وہ قومی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچنگ سٹاف کے حق میں ہیں کیونکہ وہ دوستی، یاری اور سفارش پر یقین نہیں رکھتے۔

انھوں نے یہ بات آج شام پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کی میٹنگ کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہی۔

خیال رہے کہ گذشتہ بدھ کو وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے رمیز راجہ کو بطور چیئرمین پی سی بی عہدے سے سبدکدوش کرتے ہوئے ایک 14 رکنی عبوری کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کی سربراہی نجم سیٹھی کو سونپی گئی ہے۔

نجم سیٹھی کا کوچنگ سٹاف سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ’میرا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ قومی ٹیم کے لیے ہمیں غیر ملکی چاہییں، ہمیں پاکستانی سٹارز نہیں چاہییں۔‘

انھوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’کوچنگ ایک پروفیشنل کام ہے، ہم اپنے سٹارز کی بہت عزت کرتے ہیں اور میں اور راستے ڈھونڈوں گا ان کی عزت کرنے کی، ملازمتیں دینے کے اور ان سے مشاورت کرنے کے لیکن وہ کوالیفائڈ کوچز نہیں ہیں، وہ بڑے سٹارز ہیں اور یہ دو الگ چیزیں ہیں۔‘

انھوں نے غیر ملکی کوچز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’غیر ملکی کوچ دوستی یاری نہیں دیکھتے، یہاں ہمارے  کلچر میں دوستی، یاری اور سفارش چلتی ہے اور آپ اسے نہیں روک سکتے کیونکہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب پروفیشنلزم کی بات آتی ہے تو اس میں یہ چیزیں نہیں آنی چاہییں، اس لیے میں غیر ملکی کوچز کا حامی ہوں۔‘

نجم سیٹھی کا مزید کہنا تھا کہ ’انھوں نے کوچنگ کورسز کیے ہوتے ہیں لیول فور کیا ہوتا ہے، اس کے بعد مختلف ٹیموں کے ساتھ ان کا بہت سارا تجربہ ہوتا ہے، وہ صرف اپنے ملک کی ٹیم نہیں بلکہ دیگر ٹیموں کو بھی کوچ کر چکے ہوتے ہیں۔‘

نجم سیٹھی نے کہا کہ ثقلین مشتاق اور محمد یوسف کے مستقبل کا فیصلہ وہ کل کریں گے کہ آیا وہ نیوزی لینڈ کی ٹیسٹ یا ون ڈے سیریز تک کوچ رہیں گے یا نہیں۔

خیال رہے کہ نجم سیٹھی کے بطور چیئرمین گذشتہ دور میں مکی آرتھر ہیڈ کوچ جبکہ گرانٹ فلاور بیٹنگ کوچ تھے۔ مکی آرتھر کے دور میں پاکستان 2017 میں چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کے علاوہ ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر بھی رہی تھی۔

تاہم سنہ 2019 کے ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی اور مصباح الحق اور یونس خان کے جانے کے بعد پاکستان کی ٹیسٹ میچوں میں کارکردگی بھی متاثر ہوئی تھی۔

najam

نجم سیٹھی کی واپسی کا فیصلہ سیاسی ہے یا قومی ٹیم کی حالیہ ناقص کارکردگی کا نتیجہ

پاکستان کے سابق کرکٹر رمیز راجہ کی چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے سے برطرفی، پاکستان کا انگلینڈ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر وائٹ واش اور ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے میں ایک بار پھر تبدیلیوں کی بازگشت کے بعد یہ کہنا درست ہو گا کہ پاکستان کرکٹ ایک مرتبہ پھر ’نازک دور‘ سے گزر رہی ہے۔

عام طور پر تو ’نازک صورتحال‘ سے گزرنے کا جملہ پاکستان کی سیاسی و معاشی صورتحال کے حوالے سے ہر چند برسوں کے بعد سننے کو ملتا ہے لیکن کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات اور ملک کی سیاسی صورتحال کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے یہاں بھی ہر چند سال بعد غیر یقینی صورتحال ہوتی ہے۔

سنہ 2010 کے بعد سے جہاں پاکستان میں چار مختلف حکومتیں رہ چکی ہیں وہیں پی سی بی میں سات مختلف چیئرمین تعینات ہو چکے ہیں اور گذشتہ دہائی کے وسط میں بورڈ پیچیدہ قانونی کشمکش میں بھی مبتلا رہا ہے۔

اس وقت کرکٹ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے اور پاکستان کی عوام ٹیم کی سیلیکشن سے لے کر میدان میں کھلاڑیوں کی کارکردگی تک تمام معاملات پر گہری نظر رکھتی ہے اور ٹیم کی شکست کی صورت میں کھلاڑیوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ توپوں کا رُخ مینجمنٹ اور کرکٹ بورڈ کی طرف بھی کیا جاتا ہے۔

رواں برس آسٹریلیا اور انگلینڈ سے ہوم گراؤنڈ پر شکست کے بعد بھی چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کو پچز کے حوالے سے متنازع بیانات پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان کو اگلے برس منعقد ہونے والے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا لیکن ان شکستوں کے باعث اب ایسا ہونا بظاہر مشکل ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم نے اس ایشیا کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا ہے، پاکستان جونیئر لیگ کا کامیاب انعقاد ہوا ہے اور ملک میں آسٹریلیا، انگلینڈ اور اب نیوزی لینڈ کی ٹیم دورہ کر رہی ہے۔

ایسے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی برطرفی کے بعد ان کی جگہ نجم سیٹھی کی سربراہی میں 14 رکنی مینیجمنٹ کمیٹی کا قیام کیا ایک سیاسی فیصلہ ہے یا اس میں پاکستان کی حالیہ سیریز میں ناقص کارکردگی کا بھی عمل دخل ہے؟

mickey

پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین ایک ’سیاسی پوسٹ‘

یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی پوزیشن ایک ’سیاسی پوسٹ‘ ہے جہاں عموماً ایسے شخص کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی یا تو کرکٹ سے وابستگی رہی ہو یا اس کا مینجمنٹ کا تجربہ ہو۔

ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے بعد سے اس پوزیشن کے لیے اپنی پسند کے شخص کا انتخاب کرتی ہے اور ماضی میں فوجی مارشل لا کے دوران فوج کی جانب سے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کو اس پوزیشن پر تعینات کیا جاتا رہا ہے۔

اس پوسٹ کے سیاسی ہونے کی سب سے بڑی وجہ دراصل آئین میں پی سی بی کے پیٹرن ان چیف کی پوزیشن پر تعیناتی کا اختیار ملک کے وزیرِ اعظم کے پاس ہونا ہے۔

اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سپورٹس صحافی عمر فاروق کالسن نے کہا کہ ’پی سی بی چیئرمین کی پوزیشن تب تک سیاسی رہے گی جب تک پیٹرن سیاسی جماعت کا سربراہ ہو گا، اس میں تبدیلی لانے کے لیے آپ کو آئین میں تبدیلی کرنے پڑے گی، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال کے آغاز میں جب پاکستان تحریکِ انصاف حکومت کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا کر پاکستان مسلم لیگ ن کی سربراہی میں پی ڈی ایم اتحاد برسرِ اقتدار آیا تھا تو تب سے ہی چہ مگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ رمیز راجہ کو جلد چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گاـ

عموماً نئی حکومت آنے کے بعد چیئرمین پی سی بی خود ہی استعفیٰ دے دیتے ہیں تاہم رمیز راجہ نئی حکومت آنے کے بعد بھی تقریباً آٹھ ماہ تک عہدے پر موجود رہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے اخبار دی نیوز کے ساتھ منسلک سپورٹس صحافی عبدالمحی شاہ نے دعویٰ کیا کہ ’رمیز راجہ کو ایسے طاقتور افراد کی حمایت حاصل تھی جن کے باعث وہ اس دور حکومت کے دوران بھی کام جاری رکھے ہوئے تھے۔‘

’ان طاقتور افراد کے ریٹائر ہونے کے بعد سے یہ بات کی جا رہی تھی کہ رمیز راجہ کسی بھی وقت ہٹائے جا سکتے ہیں اور پھر وہی ہوا۔‘

اس بارے میں عمر فاروق کالسن کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی رمیز کے آنے کے بعد وائٹ بال میں بہتر کاکردگی رہی جس نے رمیز کو مدد ضرور کی کیونکہ انگلینڈ کے خلاف (حالیہ سیریز میں) شکست کے بعد اس گروپ کو موقع مل گیا جو اس حکومت کے آنے کے بعد سے کافی عرصے سے کوشش کر رہا تھا۔‘

عمر کا کہنا تھا کہ ’ٹیم کی کارکردگی صرف ایک بہانہ ہوتا ہے، پسِ منظر میں سب کچھ سیاسی ہوتا ہے۔‘

najam and ramiz

پاکستان کرکٹ اور اگلے سال کی ممکنہ غیر یقینی

پاکستان میں اس وقت سیاسی اور معاشی اعتبار سے غیر یقینی کا دور ہے۔ الیکشن اگلے سال کب منعقد ہوں گے اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

ایسے وقت نجم سیٹھی کی پی سی بی میں واپسی کچھ افراد کے لیے حیرت کی بات بھی ہے۔

صحافی عبدالمحی شاہ کہتے ہیں کہ ’وزیرِ اعظم ملک میں محکموں کی سطح پر کھیلوں کی بحالی چاہتے تھے جو عمران خان کے دور میں ختم کر دی گئی تھی اور یہ کام پی سی بی کے نئے آئین کے تحت ممکن نہیں تھا۔ اس لیے 2014 کا آئین بحال کیا گیا ہے اور 14 ممبر عارضی کمیٹی بنائی گئی ہے۔‘

ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر کھیلوں میں کرکٹ کے علاوہ سکواش، بیڈمنٹن، ہاکی اور ایتھلیٹکس شامل ہیں اور ان کا سنہ 2019 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے خاتمہ کر دیا تھا۔

اس سے قبل ڈومیسٹک کرکٹ میں ہائبرڈ ماڈل تھا جس میں ڈیپارٹمنٹ اور ریجن کرکٹ دونوں تھے اور اس سے کھلاڑیوں کی تعداد زیادہ ہوا کرتی تھی۔

اس وقت اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اس سے ڈومیسٹک کی سطح پر کھیلوں کی کوالٹی بہتر کرنے میں مدد ملے گی اور اب کیونکہ کم کھلاڑی پول کا حصہ ہوں گے تو ان کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہو گا۔

تاہم عمر فاروق کالسن کے مطابق اس نئے نظام کے باعث کھلاڑیوں کا پول وسیع ہوا کرتا تھا اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں کرکٹ بہت زیادہ کھیلی جاتی ہے نوجوانوں کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ کا حصہ بننے کے لیے زیادہ مواقع ہوا کرتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’اب اس نظام میں واپس جا کر دوبارہ ریجنز کو بحال کرنا اور ڈیپارٹمنٹس سے دوبارہ ٹیموں کی بحال کا کہنا بہت مشکل ہو گا۔ وہ شاید حکومت کے کہنے پر ایسا کر تو لیں گے، لیکن یہ کھلاڑیوں کے لیے زیادہ منافع بخش نہیں ہو گا۔‘

اس کی وجہ عمر کے مطابق پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’موجودہ صورتحال میں جب پہلے روز گار کے مواقع پیدا کرنا مشکل ہے، ایسے میں کسی ڈیپارٹمنٹ سے ایک کھلاڑی پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کی امید لگانا غلط ہو گا۔

’سوئی ناردرن یا واپڈا جیسے بہتر ادارے تو شاید ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، لیکن کیا پی آئی اے سے اور دیگر اداروں سے یہ امید لگائی جا سکتی ہے؟ میرا نہیں خیال۔‘

تاہم نجم سیٹھی اور ان کی کرکٹ کمیٹی کو اگلے چند ماہ کے دوران کچھ وقت اس لیے بھی مل جائے گا کیونکہ پاکستان ٹیم آئندہ سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران ہوم گراؤنڈز پر زیادہ ریڈ بال کرکٹ نہیں کھیلے گی۔

یہ ضرور ہے کہ پی ایس ایل کی بنیاد رکھنے کا کریڈٹ نجم سیٹھی اور ان کی ٹیم کو دیا جاتا ہے اور اب جب وہ واپس آئے ہیں تو فرینچائز کے ساتھ پی ایس ایل کے بزنس ماڈل پر بھی دوبارہ مذاکرات ہو سکتے ہیں۔

عمر فاروق کالسن نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سیٹھی صاحب نے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد تسلیم کیا تھا کے اس بزنس ماڈل میں کچھ مسائل تھے، اور فرنچائز مالکان سے بات کی جا سکتی تھی۔

’اب جب وہ واپس آ گئے ہیں تو شاید آنے والے پی ایس ایل کے لیے تو نہیں لیکن اس کے بعد اس بارے میں بات ضرور ہو گی۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *