عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کی انتخابی مہم ’مشکلات اتنی ہیں کہ آپ کو سب کچھ بتا بھی نہیں سکتے
پاکستان میں عام انتخابات کے لیے میدان تیار ہے اور چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم اپنے حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کے مقبول رہنماؤں میں سے ایک اور سابق وزیر اعظم عمران خان بہت سے مقدمات میں برسوں کی قید کی سزا پانے کے بعد اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بیشتر سینیئر رہنما یا تو قید ہیں یا روپوش۔ انتخابی نشان ’بلے‘ سے محرومی کے بعد تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار اب آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ملک کے مختلف شہروں میں تحریک انصاف کی جانب سے ’بغیر اجازت‘ سیاسی ریلیاں نکالنے کے الزام میں پولیس کی جانب سے اس کے امیدواروں اور کارکنان کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے بھی مارے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف نگران حکومت کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے انتخابات سے قبل ’ریاستی کریک ڈاؤن‘ جیسے الزامات ’من گھڑت‘ اور ’بے بنیاد‘ ہیں۔
تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار عمران خان کے بغیر اپنی انتخابی مہم کیسے چلا رہے ہیں؟
ہم نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف حلقوں میں ووٹرز، سیاسی کارکنوں، امیدواروں اور رہنماؤں سے رابطے کیے اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے بغیر 2024 کے عام انتخابات کیسے ہوں گے۔
عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کتنی مشکل
توشہ خانہ، سائفر کیس اور عدت کیس میں سزاؤں کی وجہ سے عمران خان رواں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کے معاملے پر ان کی جماعت سے بلے کا نشان واپس لے لیا تھا۔
اب تحریک انصاف کے امیدوار آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور انھیں مختلف انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے ہیں۔ پارٹی نے اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی فہرستیں اپنی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں۔
سنہ 2018 کے مقابلے اس بار مجموعی طور پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والوں کی تعداد لگ بھگ دگنی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے کل 17 ہزار 816 امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے چھ ہزار 31 امیدواروں کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے جبکہ 11 ہزار 785 آزاد امیدوار ہیں۔ ان میں بڑی تعداد میں وہ امیدوار ہیں جو تحریک انصاف کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے چند حلقوں میں کسی حد تک تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دستیاب ہے لیکن بیشتر حلقوں میں باقی تمام جماعتیں مکمل آزادی کے ساتھ سیاسی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
کوثر بی بی ایک گھریلو خاتون ہیں جو خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کرتی ہیں۔ جب 2022 میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عوامی رابطہ مہم کے لیے جلسے منعقد ہو رہے تھے تو اس وقت انھوں نے اِن جلسوں میں شرکت کی تھی۔
پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کے حوالے سے کوثر کا کہنا تھا کہ پارٹی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے لیے ووٹ مانگنا بہت مشکل ہے۔ مردان میں پی ٹی آئی کی دیگر خواتین کارکنوں کا کہنا تھا کہ شہر میں ’خوف کی فضا‘ ہے اور جگہ، جگہ ان کے لیے رکاوٹیں ہیں۔
کوثر اور ان کے ساتھ دیگر خواتین اس نظریے کے تحت جلسوں میں شرکت کرتی تھیں کہ شاید وہ خواتین میں شعور اور آگہی کے لیے کچھ کام کر سکیں لیکن ملک میں سیاسی صورتحال تبدیل ہونے کے بعد وہ گھروں میں بیٹھ گئی تھیں۔
اس شہر میں قومی اسمبلی کے لیے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار علی محمد خان اور عاطف خان ہیں۔ عاطف خان روپوش ہیں جبکہ علی محمد خان حلقے میں لوگوں سے رابطے اور کارنر میٹنگز میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنما اور مردان میں صوبائی حلقے کے لیے آزاد امیدوار ظاہر شاہ طورو اپنے ساتھی امیدواروں کے لیے بھی گھر گھر جا کر ووٹ مانگ رہے ہیں۔
مردان کے مضافاتی علاقوں میں ملاقات کے دوران ان کا کہنا تھا کہ وہ بڑی خاموشی سے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور ’شاید اب تک پولیس یا انتظامیہ کو علم نہیں، اس لیے یہاں کوئی آیا نہیں۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ بیشتر علاقوں میں جہاں اُن کے حامی پوسٹرز یا بینرز لگاتے ہیں وہ انتظامیہ کی جانب سے اُتار دیے جاتے ہیں۔ ’ہمارے کارکنوں کو ہراساں کیا جاتا ہے لیکن ہم اپنی طرف سے کوششں کر رہے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر ساتھی سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک جماعت اور امیدواروں کے پیغامات پہنچا رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ پارٹی کا انتخابی نشان بلا نہیں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے نشان سے ’مشکلات بڑھ گئی ہیں۔‘
مردان میں پی ٹی آئی کی حریف جماعت اے این پی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی سے بی بی سی کی جانب سے پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کی سہولت دستیاب نہیں تو ان کا جواب تھا کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کی حمایت نہیں کرتے۔
انھوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے لوگ باہر نکل سکتے ہیں اور اکثر لوگ میدان میں موجود ہیں۔۔۔ ان کی انتخابی مہم جاری ہے۔ لیکن اگر کوئی امیدوار میدان میں نہ ہو تو اس کا اثر ضرور ہوتا ہے۔‘
مگر ساتھ امیر حیدر خان ہوتی نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی کی مشکلات ’اپنی پیدا کردہ ہیں۔‘
’انٹرا پارٹی الیکشن (نہ کرانے) کی وجہ سے ان کا نشان لے لیا گیا تو اس کے اثرات ہوں گے اور میرا موقف ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیے۔‘
امیر حیدر ہوتی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’اگر آپ ریاست کے خلاف جنگ کرتے ہیں یا حملہ آور ہوتے ہیں تو ریاست کا اتنا تو حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ کرے اور اپنا دفاع کرے۔ یہ تو اچھا ہے کہ ملک خانہ جنگی کی طرف نہیں گیا۔‘
’اتنی مشکلات ہیں کہ آپ کو بتا بھی نہیں سکتے‘
گذشتہ عام انتخابات کی تیاریوں کے دوران تحریک انصاف نے ملک گیر جلسے کیے جن میں اکثر میں خود عمران خان بھی شریک ہوتے تھے۔ مگر اس بار صورتحال مختلف رہی ہے۔
ہم نے دیکھا کہ صوبہ پنجاب کے شہر اٹک میں ’خوف‘ کی شدت پختونخوا کی نسبت کہیں زیادہ تھی۔
شہر میں سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے کارکنان کی زیادہ موجودگی نظر نہیں آئی۔ نہ ہی کہیں پی ٹی آئی کے پرچم یا پوسٹر لگے نظر آئے۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ایک صوبائی حلقے کے امیدوار کے انتخابی دفتر کے اندر دو پینا فلیکس لگے ہوئے تھے۔
اٹک کے قومی اسمبلی کے دو حلقوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ باپ اور بیٹی امیدوار ہیں اور دونوں ہی روپوش ہیں۔ اٹک میں میجر ریٹارڈ طاہر کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ کے شیخ آفتاب سے جبکہ ان کی بیٹی ایمان طاہر این اے 50 سے انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔
ایمان نور سے رابطے کی مسلسل کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ مقامی صحافیوں نے بتایا کہ اس ضلع سے پاکستان تحریک انصاف کے بیشتر قائدین اور حمایت یافتہ امیدوار روپوش ہیں۔ جبکہ کارکنوں کو بھی انتخابی مہم کی اجازت نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر زلفی بخاری کے چچا غلام عباس کا اٹک میں مرکزی الیکشن آفس کُھلا تھا جہاں وہ خود اپنے چند حمایتیوں کے ساتھ موجود تھے۔
غلام عباس اس سے قبل دو مرتبہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور کامیاب رہے ہیں۔ وہ ماضی میں اٹک کے ڈسٹرکٹ چیئرمین بھی منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بار کے انتخابات ماضی میں ہونے والے عام انتخابات سے یکسر مختلف ہیں۔
جب غلام عباس سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں ان انتخابات کو زیادہ مشکل سمجھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’کون کون سی مشکلات بتاؤں۔ ایسا سمجھ لیں کہ آسانی کوئی نہیں ہے۔ اتنی مشکلات ہیں کہ آپ کو سب بتا بھی نہیں سکتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں تو اس عمر میں ان اتتخابات کو جہاد سمجھ کر آیا ہوں۔ یقین کریں یہاں پی ٹی آئی کا کوئی اچھا امیدوار نہیں تھا اور اس وقت اپنے حلقے کو لاوارث چھوڑنا بہت بڑی زیادتی ہے۔‘
غلام عباس مزید کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے امیدواروں کو صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں سے بھی زیادہ مشکلات ہیں لیکن عوام کی حمایت بدستور موجود ہے۔ ’جس سے بھی ملتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ ووٹ پی ٹی آئی کا ہی ہو گا۔‘
دوسری طرف اٹک میں پی ٹی آئی کی حریف جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار شیخ آفتاب کی انتخابی مہم زور شور سے جاری ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پی ٹی آئی کے لیے مشکلات کیوں ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’اُن کے لیے مشکلات ضرور ہیں جنھوں نے اپنے لیے حالات خود ایسے بنائے۔ اگر کوئی 9 مئی کے واقعات میں ملوث تھا تو ان کے لیے مشکل تو ہو گی۔‘
شیخ آفتاب نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کچھ امیدواروں کی انتخابی مہم جاری ہے اور سوشل میڈیا پر انھوں نے ان کی تقریریں بھی دیکھی ہیں۔
اٹک میں جب ہم نے بغیر کیمرے کے لوگوں سے ان کی رائے جاننا چاہی تو بیشر پی ٹی آئی کی حمایت کرتے نظر آئے۔ مگر ایسے افراد بھی تھے جو اس خیال کا اظہار کر رہے تھے کہ جو مرضی اقتدار میں آئے بس مہنگائی اور معاشی بحران کا خاتمہ ہو سکے اور لوگوں کو روزگار مل سکے۔
تاجر آصف الرحمان نے بتایا کہ بازار کے حالات ابتر ہیں اور کوئی کاروبار نہیں ہو رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے لیے تمام جماعتیں مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد بھی ’وہی کچھ ہو گا جو 77 سال سے ہو رہا ہے۔‘
ایک دوسرے شہری نوازش خان نے کہا کہ ’ہر بندے کو معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔ بس ہم یہ چاہتے ہیں کہ غریب کا بھلا ہو جائے۔ ہم ووٹ تو گذشتہ کئی سالوں سے دے رہے ہیں لیکن کوئی بہتری نہیں آئی۔ ان خراب حالات کا بظاہر کوئی حل نہیں ہے۔‘
کیا یہ شفاف الیکشن ہیں؟
کئی مبصرین اور تجزیہ کار تحریک انصاف پر پابندیوں کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں اور انتخابی عمل پر جانبداری کا الزام لگاتے ہیں۔
سینیئر صحافی اور ڈان ٹی وی کے بیورو چیف علی اکبر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ایک خواب ہے کیونکہ ہر انتخاب کے بعد پاکستان میں انتخاب کے نتائج اور انعقاد کے بارے میں سوال اٹھائے گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’2018 میں جو پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ ہوا یا اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس بار پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ (الیکشن کو) غیر جانبدار نہیں کہا جا سکتا۔‘
ادھر صحافی فرزانہ علی نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی اس میں دراصل جماعت کی اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی کمزوریاں پائی گئی ہیں تاہم بیشتر رہنما غائب یا زیرِ عتاب ہیں۔ ’شیر افضل مروت جیسے کچھ رہنما کوششیں بھی کر رہے ہیں۔۔۔ لیکن اسے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں کہا جا سکتا۔‘
فرزانہ علی کا کہنا تھا کہ جس طرح یہ انتخابات کرائے جا رہے ہیں انھیں صاف و شفاف انتخابات نہیں کہا جا سکتا۔
سینیئر وکیل سلیم شاہ ہوتی نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 2018 میں انتخابات سے قبل پاکستان مسلم لیگ کو بھی اس سے ملتی جلتی صورتحال کا سامنا تھا۔ ’اگر صاف و شفاف انتخابات نہیں ہوتے تو اس سے ملک کے معاشی اور سیاسی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئے گی اور اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔‘
’تحریک انصاف کے الزامات بے بنیاد ہیں‘: نگران حکومت
سنیچر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی سے پوچھا گیا کہ عدالتوں فیصلوں کی روشنی میں عمران خان اور تحریک انصاف کے حوالے سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ یہ یکطرفہ الیکشن ہے جس میں اسٹیبشلمنٹ نے چارج سنبھال رکھا ہے تو ان الزامات پر ان کا کیا مؤقف ہے۔
مرتضی سولنگی نے کہا کہ ’ہم ایک آزاد ملک ہیں مگر عدالتی فیصلوں پر نگران حکومت کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی۔‘
بی بی سی کی نامہ نگار کیری ڈیوس نے جب اُن سے پوچھا کہ تحریک انصاف کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران کریک ڈاؤن کا الزام عائد کیا گیا ہے جس میں ان کے رہنماؤں اور کارکنان پر تشدد کیا گیا اور انھیں جبری طور پر گمشدہ کیا گیا تو اس پر نگران حکومت کا کیا جواب ہے۔
مرتضی سولنگی نے جواب دیا کہ ’ہم ان الزامات کو بے بنیاد اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔ ہاں لوگ گرفتار ہوئے ہیں لیکن کچھ گرفتاریوں کا تعلق نو مئی کے واقعات سے ہے۔ جبکہ کچھ دیگر فوجداری مقدمات سے متعلق ہیں۔ تو ان الزامات کی کوئی بنیاد نہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’تاہم وہ (تحریک انصاف) تنقید کرنے کے لیے آزاد ہیں اور الزامات عائد کرنے کے لیے بھی آزاد ہیں، حالانکہ وہ بے بنیاد ہیں۔ میڈیا ان (الزامات) کو چلاتا ہے۔ ان کے پاس قانونی راستے موجود ہیں جس کے لیے عدالتیں موجود ہیں۔‘