عمران خان کی گرفتاری کے لیے اسلام آباد پولیس کی زمان پارک آمد اور سوشل میڈیا پر بحث: ’ہم گئے صنم سے ملنے، صنم نہ ملا
اتوار کی دوپہر جیسے ہی اسلام آباد پولیس، لاہور میں عمران خان کی رہائشگاہ زمان پارک، ان کی گرفتاری کے وارنٹ لے کر پہنچی تو وہاں کے معمول کے ماحول میں اچانک ہی گہما گہمی بڑھ گئی۔
بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر کے مطابق اسلام آباد پولیس کے حکام جب وارنٹ گرفتاری لے کر پہنچے اور تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے احتجاج کی کال دی تو زمان پارک کے باہر کارکنان بڑی تعداد میں پہنچنا شروع ہو گئے۔
ترہب اصغر کے مطابق کارکنان نعرے بازی کرتے وہاں جمع ہوئے اور اس دوران کچھ نے تو اپنے ہاتھوں میں ڈنڈے بھی اٹھا رکھے تھے۔ اس علاقے کی بجلی بھی صبح سے بند ہے جس کو کچھ لوگ اس صورتحال سے بھی جوڑ رہے ہیں۔
جب ایس پی اسلام آباد حسین طاہر باہر آئے تو کارکنوں نے نہ صرف انھیں گھیر لیا بلکہ ان کے خلاف نعرے بازی بھی کی اور انھیں دھکے دینے کی کوشش بھی کی۔
نامہ نگار ترہب اصغر کے مطابق اسلام آباد پولیس کی ٹیم اب عمران خان کی رہائشگاہ سے روانہ ہو چکی ہے اور سی سی پی او لاہور کے دفتر میں موجود ہے جبکہ کارکنوں کی بڑی تعداد عمران خان کی رہائشگاہ کے دونوں جانب اب بھی موجود ہے۔
شہر میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پنجاب پولیس کے اہلکار بھی مختلف مقامات پر موجود ہیں۔
سوشل میڈیا پر بحث: ’ہم گئے صنم سے ملنے، صنم نہ ملا‘
عمران خان کی گرفتاری کے لیے پولیس کے ان کی رہائشگاہ پہنچنے کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں تو ساتھ ہی سوشل میڈیا پر بھی صارفین نے اس پر بحث شروع کر دی۔
ایک جانب پی ٹی آئی کے فینز نے عمران خان کو ’ریڈ لائن‘ قرار دیا تو دوسری جانب بہت سے صارفین نے عمران خان کو قانون پر عمل کر کے سرخرو ہونے کے مشورے دینا شروع کردیے۔
اسلام آباد پولیس نے عمران خان کی گرفتاری سے گریزاں ہونے سے متعلق ٹویٹ کی اور لکھا کہ ’ایس پی صاحب کمرے میں گئے ہیں مگر وہاں عمران خان موجود نہیں۔‘
اسلام آباد پولیس کی جانب سے کی جانے والی اس ٹویٹ کو صارفین نے خوب آڑے ہاتھوں لیا۔
ثوبیہ نامی ٹوئٹر صارف نے جواباً اس صورتحال کو نازک قرار دیا اور لکھا کہ ’جنھوں نے بھیجا وہ ٹوئٹر پر بھڑکیں مارتے ہیں کہ گرفتار کرنے گئے ہیں اور جو آئے ہیں وہ عوام کا سمندر دیکھ کر دھیمی سی آواز میں کہتے ہیں ہم تو صرف نوٹس دینے آئے ہیں۔‘
شاہ خالد خان ہمدانی نامی ایک صارف نے اسلام آباد پولیس کی اس ٹویٹ کے بعد صورتحال کو ایک مصرعے میں کچھ یوں بیان کیا کہ ’ہم گئے صنم سے ملنے، صنم نہ ملا۔۔۔‘
بعض صارفین نے اسلام آباد پولیس کے حکام کی محدود تعداد کو ان کی نا مکمل تیاری کہا اور یہ بھی لکھا کہ ان کے خیال میں یہ محض سمن دینے اور ان کی سات مارچ کو عدالت میں پیشی کو یقینی بنانا ہے۔
فرحان احمد خان نامی صارف نے اس صورتحال پر لکھا کہ عمران خان کی گرفتاری ہونے کی صورت میں ممکنہ طور پر تحریک انصاف کے کارکنوں کا رد عمل کیا ہو گا۔ اس کے لیے انھوں نے تین آپشنز بھی سامنے رکھ دیں۔
عمران خان کی گرفتاری ہونے یا ہونے سے متعلق بحث میں کچھ صارف ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ عدالتی احکامات کی تعمیل میں عمران حان کی گرفتاری اگر ضروری بھی ہے تو یہ عمل کیمروں کے سامنے نہ کیا جانا مناسب ہے تاکہ افراتفری نہ پھیلے۔
عمران خان کی ممکنہ گرفتاری سے متعلق سوشل میڈیا پر جہاں مسلسل ملی جلی بحث جاری ہے وہیں اس دوران کئی صارفین ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی جیسے سنجیدہ مسائل موجود ہیں اور اس وقت ملک کو اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے۔
صارفین کا کہنا ہے کہ ہر طبقہ بد ترین مہنگائی سے پریشان ہے تاہم ہر روز کوئی نہ کوئی ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔