عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی اور گرفتاری پاکستان میں جمہوری

عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی اور گرفتاری پاکستان میں جمہوری

عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی اور گرفتاری پاکستان میں جمہوری عمل کی کمزوری کی وجہ ’اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت‘ ہے یا خود سیاستدان؟

پاکستان کی 76 سالہ تاريخ میں اب تک جمہوری طریقے سے آنے والے وزرائے اعظم کی تعداد تو 23 ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اپنی آئینی مدت پوری کر سکا ہو۔ سب کو ہی وقت سے پہلے اقتدار چھوڑنا پڑا۔

بظاہرتو سب وزرائے اعظم کے جانے کی وجوہات مختلف تھیں لیکن ایک وجہ جو پاکستانی سیاست میں آج تک موجود ہے وہ فوج کی سیاست میں مداخلت ہے۔

اختیارات کی رسہ کشی کے نتیجے میں کبھی کوئی سیاسی رہنما فوجی بغاوت کا شکار ہوا تو کسی کو فوجی سربراہ سے اختلافات پر گھر جانا پڑا۔

پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار کی تصدیق بری فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نومبر 2022 میں اپنی تقریر میں بھی بالواسطہ طور پر کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ 70 برس سے فوج کی سیاست میں مداخت رہی ہے جو کہ نہ صرف غیرآئینی ہے بلکہ اس سے فوج تنقید کی زد میں بھی آتی رہی ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’اب فوج غیرسیاسی ہو گئی ہے اور یہ فیصلہ فوجی قیادت نے گذشتہ برس فروری میں کافی سوچ و بچار کے بعد کیا ہے کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔‘

عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے پیچھے کون؟

عدم اعتماد

اس وقت عمران خان توشہ خانہ مقدمے میں سزا پانے کے بعد جیل میں ہیں۔ وہ پہلے وزير اعظم نہیں جو اقتدار سے نکالے جانے کے بعد قید کاٹ رہے ہیں۔

اس سے قبل 2017 میں میاں محمد نواز شریف کو بھی عدالت کے ذریعے سزا کے بعد جیل جانا پڑا اور ایسا ہی کچھ ان سے پہلے کئی سیاسی لیڈروں کے ساتھ ہوا۔ البتہ ہر سیاسی رہنما کے اقتدار میں آنے سے اقتدار چھن جانے تک کے سفر کا منظرنامہ ضرور تبدیل ہوتا رہا ہے۔

پاکستانی سیاست میں جاری اس رسہ کشی پر سیاسی مبصرین اکثر تبصرہ کرتے ہوئے یہ محاورہ استعمال کرتے ہیں کہ ’ہوئی تو چوری ہے لیکن طریقہ واردات مختلف ہے۔‘

تجزیہ کار وجاہت مسود کہتے ہیں کہ ’عمران خان کو نکالا تو جمہوری انداز میں گیا لیکن اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ تحریک عدم اعتماد لانے اور کامیاب کروانے کے لیے فوج نے پشت پناہی کی تھی۔‘

انھوں نے مزيد کہا کہ ہماری فوج جمہوری طریقوں کے نام پر غیر جمہوری عمل میں ملوث رہی ہے۔

’یہی نہیں پاکستان کے جمہوری عمل کو تباہ کرنے میں فوج کے ساتھ ان کے ’جونیئر پارٹنرز‘ شامل ہوتے ہیں جس میں عدلیہ، سول بیوروکریسی اور سیاستدان شامل ہیں اور اب تو اس لسٹ میں بڑی کاروباری شخصیات بھی شامل ہو گئی ہیں۔‘

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’ایک بات تو صاف ہے کہ پاکستانی سیاست میں فوج کا کردار ایک حقیقت ہے اور ہم نے ماضی میں بھی یہی دیکھا کہ انھوں نے کس طرح مختلف سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں کو اقتدار میں لانے کے لیے پولیٹیکل انجیئنرنگ کی۔

وہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر کہتے ہیں کہ ’تاہم یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ فوج کس طرح پاکستانی سیاست میں مداخلت کرتی آئی ہے اور اس بات کو سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنی الواداعی تقریر میں تسلیم کیا تھا جبکہ جاتے جاتے انھوں نے یہ بھی نعرہ لگایا کہ مستقبل میں فوج ٖغیر سیاسی ہو کر اپنا کام کرے گی لیکن ابھی تک تو ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔‘

باجوہ

سیاستدانوں کی آئینی مدت پوری کرنے میں ناکامی کی وجوہات؟

سلمان غنی نے اس معاملے میں سیاستدانوں کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک رہی بات سیاستدانوں کی تو وہ عوام سے ووٹ لے کر اقتدار میں تو آجاتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ صرف کام اور فائدہ اس ملک کی اشرافیہ کو دیتے ہیں جبکہ ان کی ناقص پالسیوں کا شکار عام آدمی ہوتا ہے۔‘

’لیکن یہاں سیاست دانوں کا کردار بھی اہم ہے جو ایک دوسرے کے خلاف فوج کے ہاتھوں استعمال ہونے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ سیاستدانوں کی وہ کمزوری ہے جس کی وجہ سے وہ دوبارہ عوام میں اعتماد کے ساتھ واپس نہیں جا پاتے۔ جس کے بعد انھیں فوج کی طرف دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ ان کی مدد سے اقتدار کی کرسی پر بیٹھیں۔‘

ماضی میں زیادہ تر سیاستدان اقتدار سے جانے کے بعد اس تبصرے کے برعکس شکوہ کرتے دکھائی دیے ہیں کہ فوج کی جانب سے ہمیں کھل کر مرضی کے مطابق حکومت چلانے کا موقع نہیں دیا گیا۔

نواز شریف ہوں یا پھر عمران خان دونوں نے متعدد بار اس بات کا ذکر کیا کہ فوج نے ملک کے انتظامی، معاشی یا سیاسی معاملات میں دخل اندازی کی۔

اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار وجاہت مسود کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں فوج پہلے دن سے بالادست قوت ہے جو پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہے۔ ہمارا سیاستدان جب یہ کہتا ہے کہ میں تو حلقے کی سیاست کرتا ہوں۔ اس کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے بھی اپنے علاقے میں طاقت اور اثر و رسوخ چاہیے ہوتا ہے۔ جس کے لیے وہ بالادست قوت کی طرف دیکھتا ہے اور یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے سیاستدان عوام کے لیے نہیں سوچتے۔‘

’انھیں نہ سننا پسند نہیں‘

ویسے تو عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے نکالا گیا، جو ایک جمہوری طریقہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی عوام کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ اس عمل کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں اسٹیبلمشنٹ موجود تھی۔

’یہ سب سیاستدان مل کر اقتدار کے لیے میوزیکل چیئر کھیلتے ہیں اور فوج انھیں یہ گیم کھلاتی ہے۔‘

یہ جملہ نوجوان عادل الرحمان نے میرے اس سوال کے جواب میں بولا جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟

اسی بات کا اظہار کرتے ہوئے لاہور سے تعلق رکھنے والی آنسہ خان کہتی ہیں کہ ’اس ملک میں فوج وہ واحد ادارہ ہے جو سب سے زیادہ بااختیار ہے اور وہ اپنا اختیار پاکستان کی سیاست میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے عمران خان ہو یا کوئی اور وزیر اعظم کیا فرق پڑتا ہے۔‘

پشاور سے تعلق رکھنے والے ولی خان نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کو جو لوگ لے کر آئے تھے انھوں نے ہی انھیں نکال بھی دیا کیونکہ وہ ان کے معیار پر پورا نہیں اترے۔‘

عوام کی بڑی تعداد میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ جس سیاسی لیڈر نے فوج کی مرضی کے خلاف کام کیا، وہ فوج کے لیے ناقابل قبول ہو گیا۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کئی نوجوانوں نے اس بات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ’جب کوئی سیاستدان انھیں نہ کہتا ہے یا ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جاتا ہے تو وہ اسے سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‘

تجزیہ کار وجاہت مسعود اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’جب آپ کسی کی بنائی جگہ پر ہوں اور پھر آپ اپنی جگہ خود بنانے لگ جائیں تو آپ کو لانے والوں سے یہ برداشت نہیں ہوتا۔‘

وہ اس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’نواز شريف کو دیکھ لیں، عمران خان کو دیکھ لیں۔۔۔ انھوں نے بطور سیاستدان فیصلے لینے کی کوشش کی تو دونوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ پھر انھوں نے فوج کی مخالفت میں قدم بڑھائے اور وہ اکیلے رہ گئے۔‘

نواز شریف

تاہم عوامی رائے یہ بھی ہے کہ یہی سیاستدان اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے لیے اسی فوج کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور پھر جب وہ کرسی سے اتار دیے جاتے ہیں تو وہ کھل کر فوج کی محالفت کرنے لگ جاتے ہیں۔

جیسا کہ حال میں ہی عمران خان، جو اپنے دور اقتدار میں فوج کے ساتھ ’بہترین تعلقات‘ اور ’ایک صفحے‘ پر ہونے کی بات کرتے تھے اقتدار سے جانے کے بعد سابق فوجی سربراہ اور اسٹیبلشمنٹ کو موردالزام ٹھہراتے ہیں۔

اس سے پہلے نواز شريف بھی اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام سابق آرمی اور ائی ایس آئی چیف پر لگاتے رہے ہیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی اپنے ایک بیان میں اسٹیبلشمنٹ کو اشارتاً مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ تین سال کے لیے ہیں اور ہم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے۔ اگر آپ نے تنگ کیا تو آپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘

’جی ایچ کیو ہر سیاستدان کی نرسری ہے‘

سیاسی تجزیہ کار سحر حبیب غازی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ زیادہ تر سیاستدان اپنے مفادات کے لیے خاموش رہتے ہیں۔

’یہ جانتے ہیں کہ فوج پاکستان کے جمہوری عمل سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس لیے سیاستدان ان کی طرف دیکھتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب میں نے شیخ رشید سے پوچھا کہ آپ کو جی ایچ کیو کا سیاست دان کہا جاتا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’جی ایچ کیو تو تمام سیاستدانوں کی نرسری ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہماری سیاست میں نوجوان سیاست دانوں کی کمی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے زیادہ تر سیاسی لیڈر موروثی سیاست کو آگے لے جانے کے لیے زیادہ محنت کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی اپنے اصل اور عام نوجوان کو سیاست میں آگے آنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ جس کی وجہ سے ہماری سیاست کا یہ حال ہے۔‘

جی ایچ کیو

کیا کبھی پاکستانی سیاست میں جمہوری نظام مضبوط ہو پائے گا؟

اس سوال کے جواب میں تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ہمارا سیاسی نظام اس وقت تک مضبوط نہیں ہو گا جب تک تمام سیاستدان مل کر یہ فیصلہ نہیں کر لیتے کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ماضی میں ہم یہی دیکھا ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے آئے ہیں۔ جیسا کہ نواز شریف کو نکالنے کے لیے عمران خان استعمال ہوئے، ویسے ہی مسلم لیگ ن جو اپنے اقتدار کے خاتمے پر فوج پر سخت تنقید کرتی تھی وہ اس مرتبہ عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے لیے فوج کے ہاتھوں استعمال ہوئی۔‘

انھوں نے مزيد کہا کہ ’یہ سب وہی ہو رہا جو نوے کی دہائی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف کیا کرتے تھے۔لیکن انھوں نے ماضی سے یہ سیکھا کہ اس سب کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے انھوں نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔

’لیکن اب کیونکہ ان دونوں جماعتوں کے لیے عمران خان سیاسی طور پر ایک خطرہ بن چکے تھے اس لیے پی ڈی ایم جس میں پی پی اور ن لیگ شامل ہیں، وہ عمران خان کو سیاست سے ختم کرنے کے لیے فوج کے ساتھ ساتھ کھڑے ہوگئے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی کسی ایک پارٹی کی سیاست کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتا۔

’اس لیے ایک دوسرے کو کمزور کرنے سے بہتر ہے کہ ہمارے سیاستدان مل کر یہ فیصلہ کریں انھوں نے پاکستانی سیاست سے فوج کے کردار کو ختم کرنا ہے اور پاکستان کے جمہوری نظام کو مضبوط کرنا ہے‘۔

تجزیہ کار وجاہت مسود کہتے ہیں کہ ’اس ملک کی بقا مضبوط جمہوری نظام سے جڑی ہے۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک ترقی کرے تو فوج کو بھی یہ بات سمجھنی ہو گی کہ اس ملک کے سیاسی نظام کو بغیر کسی مداخلت کے چلنے دیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *