عمران خان کا بریانی میں آلو کے حق میں ووٹ کیا بہترین بریانی پکانے کا کوئی فارمولا موجود ہے؟
‘کہیں آج کی سپیس کے بعد پیمرا کی جانب سے بریانی میں آلو بھی سینسر نہ کر دیے جائیں۔۔۔‘ ‘میں بھی آئندہ سے بریانی آلو کے ساتھ ہی کھاؤں گی۔۔۔‘
یہ اور اس طرح کے متعدد تبصرے پاکستانی سوشل میڈیا پر گذشتہ رات سے دیکھنے کو مل رہے ہیں جن میں جنوبی ایشیا خاص کر انڈیا اور پاکستان میں مقبول پکوان بریانی کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
دراصل گذشتہ رات پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سے جب ایک ٹوئٹر سپیس کے دوران یہ سوال پوچھا گیا کہ انھیں بریانی آلو کے ساتھ پسند ہے یا بغیر آلو کے تو انھوں نے جواب دیا کہ میں آج سے چالیس سال پہلے تک بریانی بہت شوق سے کھاتا تھا لیکن اب دوسرے کھانے زیادہ پسند ہیں۔
تاہم انھوں نے کہا کہ ’لیکن اس وقت مجھے آلو کے ساتھ بریانی پسند تھی۔‘
پاکستان میں بریانی آلو کے ساتھ بنانی چاہیے یا بغیر آلو، اس بارے میں پاکستانی سوشل میڈیا پر ہر کچھ عرصے بعد ہلچل مچ جاتی ہے۔ تاہم اب جبکہ عمران خان نے بھی اس بارے میں بات کی ہے تو اس بارے میں بحث میں اضافہ ہوا ہے اور یہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس وقت ٹاپ ٹرینڈ بھی ہے۔
اس بحث میں جو افراد بریانی میں آلو پسند کرتے ہیں ان کے مؤقف کو عمران خان کی تائید حاصل ہو گئی ہے جبکہ جو افراد آلو پسند نہیں کرتے ان میں سے کچھ عمران خان کے مداح یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ’بریانی ہماری ریڈ لائن ہے‘ اور کچھ اب سے آلو کے ساتھ بریانی کھانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
تاہم کیا اچھی بریانی بنانے کا کوئی مخصوص طریقہ ہے؟ اس حوالے سے بی بی سی نیوز نئی دہلی کی اپرنا ایلوری کی چند سال پہلے کی تحریر پیش خدمت ہے جس میں بریانی بنانے کے مختلف طریقوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
’بریانی پکانا کسی اناڑی کا کام نہیں‘
آپ کو بہت سے شیف بتائیں گے کہ بریانی پکانا باریک بینی کا کام ہے، کسی اناڑی کا نہیں۔ اس مشہور پکوان کو احسن طریقے سے بنانے کے لیے درجہ حرارت، وقت اور مصالحوں کا مخصوص توازن درکار ہوتا ہے۔
چاولوں کو مصالحے دار جبکہ گوشت کو ذائقہ دار بنانے کے لیے پہلے انھیں الگ الگ، پھر ایک ساتھ پکایا جاتا ہے۔ آخر میں ہلکی آنچ پر گوشت کے اوپر چاولوں کی تہہ لگائی جاتی ہے اور انھیں مزے دار پیاز، دودھ میں ملے زعفران اور تازہ جڑی بوٹیوں سے سجایا جاتا ہے۔
عالمی وبا کے دوران جب انسٹاگرام کی بدولت میرے اندر کی شیف جاگ گئی تو میں نے تھائی سپیئر ربز جیسے مختلف کھانے بنائے لیکن بریانی سے دور ہی رہی کیونکہ میرے اندر اتنی ہمت یا حوصلہ نہیں تھا۔
میرا تعلق حیدرآباد سے ہے جو بریانی کی ایک خاص قسم کے لیے مشہور ہے۔ مجھے لگا کہ میں جو بھی بناؤں گی اس کا ذائقہ ’اصل بریانی‘ جیسا نہیں ہو گا۔ اس لیے میں نے کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی۔
لیکن پھر اچانک میں نے خود کو آزمائش میں ڈالا۔ یہ تب ممکن ہوا جب میری نظروں سے ’مصالحہ لیب: دی سائنس آف انڈین کوکنگ‘ نامی کتاب گزری جس نے مجھے بریانی بنانے پر للچایا۔
اس کتاب کی بنیاد اس عام اور غیر متنازع حقیقت پر ہے کہ کھانا پکانا خود میں ایک کیمسٹری ہے۔ درجہ حرارت، پانی اور دباؤ (پریشر) سے کھانے کے اجزا الگ الگ طرح کا انداز اپناتے ہیں۔
آپ اکثر یہ سوچتے ہوں گے کہ اجزا سے مخصوص خوشبو اور ذائقہ کیوں ملتا ہے، یا وہ آپ کی اپنی مرضی کے مطابق اپنا رنگ و روپ کیسے ڈھال لیتے ہیں؟ دلیل کے طور پر اس کتاب میں موجود ایک فارمولے کے ذریعے بریانی بنانے کا تجربہ کیا جاتا ہے۔
کتاب کے مصنف کریش اشوک کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی ترکیب نہیں بلکہ الگورتھم ہے۔ آپ سائنس کی پیروی کر کے اپنی خود کی ترکیب بنا سکتے ہیں۔‘
اشوک کوئی شیف یا کھانوں پر لکھنے والے ماہر نہیں۔ وہ ٹیکنالوجی کی دنیا سے وابستہ ہیں جنھیں کھانا بنانے کا شوق ہے۔ انھوں نے یہ کتاب اپنے جیسے ذوق والے افراد کے پڑھنے کے لیے لکھی ہے۔
لیکن کتاب چھپنے سے قبل ان کے ناشر نے ان سے کہا تھا کہ ’لطیفے کم سنائیں اور ہر چیز کی وضاحت کریں۔‘
اس کے نتیجے میں اشوک نے انڈیا سمیت اس خطے میں بننے والے ’کھانوں کے پیچھے چھپی سائنس سے پردہ اٹھانا‘ چاہا ہے۔
وہ اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ کسی کی ماں، نانی یا دادی کے ہاتھوں میں کوئی ’جادو‘ ہے جس کی وجہ سے وہ اتنا بہترین کھانا بنا لیتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے پدرشاہی معاشرہ زندہ رہتا ہے۔‘
ان کے مطابق بہترین شیف ہونے کا راز یہی ہے کہ یہ شخص کھانا بنانا بخوبی سمجھتا ہے، اس نے پیدائش سے اجزا کا مشاہدہ کیا ہے اور صبر کے ساتھ ہر چیز کا تجربہ کیا ہے۔
وہ اپنی کتاب کا آغاز اپنی دادی کے دیے ایک مشورے سے کرتے ہیں کہ ’اگر آپ کسی بھی چیز کو مناسب وقت دیں گے تو یہ ذائقہ دار بنے گی۔‘
اشوک بھی اپنے تجربوں سے یہی کچھ سیکھ رہے ہیں۔ ’کھانوں میں نئے تجربے کیے جانے چاہیے اور اسے ذائقہ دار ہونا چاہیے، یہ ضروری نہیں کہ انھیں اصل ترکیب سے بنایا جائے۔‘
وہ خود بھی ’مستند ترکیب‘ کے استعمال کے خلاف ہیں کیونکہ ’یہ بے معنی ہے۔ مثال کے طور پر ایک اچھی بریانی بنانے کا محض ایک طریقہ نہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ بریانی بنانے کے بے شمار طریقے ہیں اور ہر طریقہ ایک مخصوص علاقے یا خاندان کے لیے مستند یا اصل کی حیثیت رکھتا ہے۔
بریانی میں چکن یا مٹن ڈالا جاتا ہے یا کبھی کبھار اسے بیف میں بھی بنایا جاتا ہے۔ انڈیا میں اسے صرف سبزیوں کے ساتھ بھی پکایا جاتا ہے (اور بعض لوگ اس میں پھل ڈالنے کا تجربہ بھی کرلیتے ہیں!)۔ جنوبی ساحل پر لوگ اس میں مرچوں میں اضافہ کر دیتے ہیں اور مچھلی یا جھینگے کا استعمال کرتے ہیں۔
کچھ گھروں میں بریانی میں ناریل ملا دودھ، خشک میوہ جات، انڈے اور آلو بھی ڈالے جاتے ہیں۔
لیکن اشوک کی جانب سے تشکیل کردہ بریانی کے الگورتھم میں اسے پکانے کا طریقہ دیا گیا ہے، جیسے چاولوں کو کیسے باریکی سے پکانا ہے، پیاز تیل میں فرائی کرنے ہیں، گوشت کو مصالحوں میں میرینیٹ کرنا ہے اور پھر ان کی تہیں لگانی ہیں۔ اس کے بعد اشوک قارئین کو باقی کام خود کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ایک خاکے میں دکھایا گیا ہے کہ بریانی بنانے کے کتنے الگ الگ طریقے ہیں اور انھیں مصالحوں کی ایک سے زیادہ ترتیبوں سے بنایا جاسکتا ہے۔
لیکن مصالحوں کی کوئی مخصوص مقدار ضروری نہیں۔ ایک خاکے میں چھوٹے بڑے حروف میں ہر مصالحے کا نام لکھا ہے تاکہ قارئین کو سمجھایا جاسکے کہ ہر چیز کتنی مقدار میں ڈالنی ہے۔
اشوک کی کتاب میں دوسرے کھانوں کے لیے بھی ایسے ہی الگورتھم دیے گئے ہیں، جیسے روایتی دال، سامبر یا سالن۔ ان کا اصرار ہے کہ لوگ اپنی خود کی تراکیب بنا سکتے ہیں۔
اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مصالحوں میں کون سے مادے شامل ہوتے ہیں اور کس طرح ان مصالحوں کو مخصوص انداز میں ایک ساتھ ملانے پر زیادہ ذائقہ دار بنایا جاسکتا ہے۔
سائنس کے مطابق بہترین طریقہ یہی ہے کہ ایک یا دو ذائقوں میں رہتے ہوئے کھانا تیار کیا جائے۔ ایک جیسے ذائقے والے مصالحوں کو استعمال کر کے ذائقے کو بڑھایا یا کم کیا جا سکتا ہے۔
اس میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ ادرک اور لہسن کو پُرانے طریقے سے کوٹنے کا طریقہ بلینڈر کے جدید طریقے سے بہتر ہے۔ یہ اس لیے کیونکہ بلینڈر کی رفتار اور اس کی گرمی سے ان میں موجود ذائقہ مانند پڑسکتا ہے جبکہ ہاون دستے کے استعمال سے یہ ذائقہ ان اجزا میں باقی رہ سکتا ہے۔
لیکن سائنس اور اشوک دونوں ہی طویل سفر کی جگہ شارٹ کٹ کے بھی حق میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹماٹو پیسٹ کی جگہ کیچپ بہترین متبادل ہے اور اس سے نوڈلز میں مصالحے ملائے جاسکتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر وقت کی قلت ہو تو اسے دال میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں ایسے انڈین نژاد امریکیوں کو جانتا ہوں جو ٹاکو بیل کی ہاٹ ساس سے بہترین دال بنا لیتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اصل اور مصنوعی ذائقے کے درمیان فرق فرضی ہے۔ ’میں کیچپ تک ہی بات کروں گا کیونکہ یہ بہت مزیدار ہوتی ہے۔ چکی کی جگہ ہم گندم خود پیس کر آٹا نہیں بناتے۔ یہ بھی مصنوعی طریقہ ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کیچپ بنائی جاتی ہے۔‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کی مدد سے کھانا زیادہ اچھا یا بُرا نہیں بنتا۔ تازہ پیسے ہوئے مصالحے ہوں یا بازار سے خریدے گئے مکس مصالحے، دونوں ہی مزے دار کھانا بنا سکتے ہیں۔ ان میں سے کون سا راستہ بہتر ہے، یہ فیصلہ تو گھر میں بیٹھے شیف کو کرنا ہے۔
اشوک صرف اپنے الگورتھم کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جس کی مدد سے وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں اور اس بوجھ سے خود کو آزاد کرسکتے ہیں۔ لیکن اس سائنس کے چکر میں اشوک کے بارے میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ انھوں نے روایتی کھانوں سے ’ذائقے کی اصل روح نکال لی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کسی دوسرے کی ترکیب کو دہرا کر کھانے بنانے میں کوئی روح ہے ہی نہیں۔‘
’اگر آپ سائنس کے طریقے استعمال کریں گے تو آپ کو زیادہ فائدہ ہو گا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ تخلیقی صلاحیت کا استعمال کرنے سے آپ آزاد ہوسکتے ہیں۔
’آئن سٹائن کے بقول سائنس خوبصورتی کا ایک مزید راستہ کھول دیتی ہے۔ آپ زیادہ چیزوں میں حیرت محسوس کرسکتے ہیں، نہ کہ کم میں۔‘
اشوک نے اپنے تجربے میں بہترین اڈائی بنانے کی بھی کوشش کی جو جنوبی انڈیا میں دال سے بننے والی ایک مشہور ڈش ہے۔
وہ سنہ 2000 کے آس پاس پڑھائی کے سلسلے میں امریکہ آئے اور یہاں خود کھانا بنانا شروع کیا۔ ’میں نے ہر دادی سے مدد لی اور ان کی تراکیب لکھنے کی کوشش کی اور مجھے احساس ہوا کہ یہاں ایک مسئلہ ہے کہ ہم انڈین کوکنگ کے کیسے محفوظ کر رہے ہیں۔‘
انھیں معلوم ہوا کہ ان کی دادی چائے کے چمچ یا وقت کے حساب سے کھانا نہیں بناتیں بلکہ ان کے اپنے الگورتھم ہیں۔ اشوک نے انھیں فارمولوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
گزرتے برسوں کے ساتھ انھوں نے کئی ذائقوں اور کھانا پکانے کے طریقوں کے ساتھ تجربہ کیا ہے اور نوٹس بنانے کی کوشش کی ہے مگر یہ ان کے کام نہ آسکے۔ وہ کوئی شیف بننا نہیں چاہتے تھے بلکہ صرف اچھا کھانا بنانا چاہتے تھے۔ انھیں امید ہے کہ ان کی کتاب ایسے بہت سے لوگوں کے کام آئے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی کھانوں کی ترکیب کی کتاب نہیں بلکہ سائنس کی کتاب ہے۔ میں بہت اچھا شیف نہیں، مگر ہاں لوگوں کو یہ سکھا سکتا ہوں کہ کھانا آسانی سے کیسے بنایا جاسکتا ہے۔‘
اور وہ ایسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انڈین کوکنگ کو سائنس کے ذریعے بیان کرنا مشکل ہے لیکن اشوک بریانی جیسی مشکل ڈش بنانا ایک دلچسپ تجربے میں تبدیل کردیتے ہیں۔
میری پہلی کوشش کافی اچھی رہی اور مجھے اس بات سے ہمت ملی کہ میں جو چاہ رہی تھی وہ کوئی ’مستند‘ ترکیب نہیں تھی بلکہ اس پکوان کا میرا ورژن تھا جسے میں بچپن سے کھا رہی ہوں (ہمارے دماغ کا ذائقے محسوس کرنے والا حصہ یادداشتیں محفوظ کرنے والے حصے کے قریب ہی ہوتا ہے۔)
اب بس مجھے تب تک کوشش کرتے رہنی ہے جب تک کہ درست یادداشت حرکت میں نہ آ جائے، اور صبر سے کام لینا ہے۔